تھائی لینڈ میں مارشل لاء اور نواز شریف
میرے وہم وگمان میں دور پرے تک نریندر مودی کی جانب سے سفارت کاری کا ایسا شاندار کارڈ کھیلنے کی توقع کبھی نہ اُبھری تھی
LONDON:
صبح اُٹھتے ہی میں تھائی لینڈ کی تازہ صورت حال پر لکھنے کا ارادہ باندھ چکا تھا۔ مقصد میرا صرف اتنا تھا کہ اپنے قارئین کی خدمت میں یہ بیان کر سکوں کہ اُس ملک میں ہر گز وہ نہیں ہوا یا ہونے جا رہا ہے جو ہمارے اپنے ہاں بھی کچھ لوگ بڑی شدت سے برپا ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔ اپنی اس رائے کے اظہار سے کہیں زیادہ خواہش کچھ پھکڑ پن کرنا بھی تھا۔
ہمارے وزیر اعظم ذاتی حوالے سے اس لیے خوش نصیب ہیں کہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی خوش بختی مجھے اس حوالے سے اور زیادہ متاثر کن نظر آتی ہے کہ سال 2000ء کے آخر میں ان کی سعودی عرب جلاوطنی کے بعد مجھ کو جیّد سیاست دانوں اور ہماری دائمی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے بڑی سنجیدگی سے سمجھانا شروع کر دیا تھا نواز شریف چند ہی مہینوں میں عیدی امین کی طرح گمنام ہو جائیں گے۔ عیدی امین اپنی نوجوان نسل کو بتاتا چلوں کئی برسوں تک یوگنڈا کا ایک مطلق العنان حکمران رہا تھا۔ پھر اس کے خلاف بغاوت ہوئی۔ اس نے سعودی عرب میں پناہ لے لی اور بالآخر اسی ملک میں اذیت ناک گمنامی کی موت مرا۔
ذاتی حوالوں سے اپنی اس خوش بختی کے باوجود وہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد سے اپنے چند غیر ملکی دوستوں کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ترکی کے وزیر اعظم کا شمار بھی ان کے قریبی دوستوں میں کیا جاتا ہے۔ موصوف مگر جب پاکستان کے ایک نسبتاََ طویل دورے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹے تو ان کے خلاف استنبول کے تقسیم چوک میں ایک التحریر اسکوائر اُبھرگیا۔ ریاستی تشدد کے بے دریغ استعمال سے ترک وزیر اعظم نے اس سے نجات پائی تو ان کے خلاف اسکینڈلوں کا انبار لگ گیا۔ اپنے دوست نواز شریف کی طرح اردگان بھی لیکن آخر میں خوش نصیب ثابت ہوئے۔ حال ہی میں اپنے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدواروں کو شاندار کامیابی دلوانے کے بعد اب کچھ سکون سے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
بدبختی نے مگر ان کی ایک اور ممکنہ غیر ملکی دوست کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ Yingluck Shinawatra ان کا نام ہے۔ ان کے بھائی نواز شریف صاحب کی طرح ایک بہت ہی کامیاب کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاست میں آ کر ایک مقبول وزیر اعظم بھی بن گئے۔ تھائی فوج نے مگر ان کا چند برس پہلے تختہ اُلٹ دیا۔ موصوف کے خلاف کرپشن وغیرہ کے مقدمات چلے اور ان کے نتیجے میں سنگین سزائوں کا حکم بھی۔ معزول وزیر اعظم کے بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے مگر ان سزائوں پر عملدرآمد نہ ہو پایا۔ بالآخر تھائی لینڈ میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔
انھوں نے اپنی بہن کو امیدوار نامزد کر دیا اور وہ بھاری اکثریت سے اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔ اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ان کے بارے میں سب اچھا کی خبریں آتی رہیں۔ مگر پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جب ان کو نواز شریف نے پاکستان کے دورے پر بلوایا تو یہاں سے وطن لوٹنے کے بعد مشکلات میں گھر گئیں۔ ان دنوں وہاں ایک عبوری حکومت نئے انتخابات کروانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ مگر منگل کی رات تھائی فوج نے اس ملک میں مارشل لاء لگا دیا ہے۔ تھائی عوام کو ہرگز علم نہیں کہ اب نئے انتخابات کب ہونگے۔
تھائی فوج اگرچہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے Coup نہیں کیا۔ صرف امن و امان کو قابو میں رکھنے اور ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے ''مداخلت'' کی ہے۔ اس مداخلت کا جواز آج سے سو سال پہلے بنائے گئے ایک قانون میں ڈھونڈا گیا ہے جو ان دنوں متعارف کروایا گیا تھا جب تھائی لینڈ میں مطلق العنان بادشاہت ہوا کرتی تھی۔ اس قانون میں تصریحاََ یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ امنِ عامہ کو برقرار رکھنے کے حوالے سے سنگین سوالات اُٹھ کھڑے ہوں تو تھائی فوج کو دیگر تمام سویلین حکام پر قطعی بالادستی بطورِ حق خود بخود مل جائے گی۔
یہ بھی ایک حسین اتفاق ہے کہ منگل کی صبح تھائی مسلح افواج کے سربراہ جنرل Tanasak Patimapragorn اسلام آباد میں موجود تھے۔ بدھ کی صبح ہمارے چند اخبارات میں وہ تصویر بھی بڑے نمایاں انداز میں چھاپی گئی ہے جس میں ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب اس تھائی جنرل سے دوستانہ بات چیت کر رہے ہیں۔
ایک اور حوالے سے عجیب دکھنے والا اتفاق یہ بھی ہے کہ تھائی وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے بعد وطن لوٹتی ہیں تو چند دنوں میں ان کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ مگر جب تھائی فوج کے ایک بڑے جنرل پاکستان سے تھائی لینڈ لوٹتے ہیں تو وہاں مارشل لاء نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اپنے تئیں میں جس وقت نواز شریف سے تعلق یا قریبی دوستی کو چند غیر ملکی خواتین و حضرات کے لیے اچھایا بُرا شگون قرار دینے کے معاملے پر غور کر ہی رہا تھا تو بھارت سے خبر آ گئی کہ نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ایمان داری کی بات ہے اس خبر نے مجھے چونکا کر رکھ دیا۔ میرے وہم وگمان میں دور پرے تک نریندر مودی کی جانب سے سفارت کاری کا ایسا شاندار کارڈ کھیلنے کی توقع کبھی نہ اُبھری تھی۔ میں تو بڑے تواتر سے بلکہ اصرار کرتا رہا ہوں کہ نریندر مودی میں سے کوئی واجپائی نکلا بھی تو بہت دیر کے بعد برآمد ہو گا۔ مگر منتخب ہونے کے فوری بعد مودی نے میرے خیال کو گربہ کشتن روزِ اوّل بنا دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو محض پاکستان کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے نریندر مودی کی حلف برداری والی تقریب میں شمولیت کی خصوصی دعوت نہیں دی گئی۔
یہ دعوت سارک میں شامل تمام ممالک کے سربراہان کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی مگر ایک وکھری سی تاریخ ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ نواز شریف صاحب نے مودی کی دعوت قبول کر لی تو ان کی دلی موجودگی کے دوران بھارتی میڈیا کی بھرپور توجہ ان کی ذات پر مرکوز رہے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ نواز شریف مودی کے لیے کس طرح کا ''شگون'' ثابت ہوتے ہیں۔