پاندان قلمدان اور مودی
پاکستان میں وزرا کی ستائشی ٹیم ہے جس سے ملک کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ...
روایت ہے کہ ہندوستان کے شہنشاہ جہانگیر کی بیگم نور جہاں ذہانت، سیاست میں باکمال تھیں۔ مینا بازار ان ہی کی ایجاد ہے مگر جب وہ باتیں کرتی تھیں تو ان کے منہ سے بدبو آتی تھی، لہٰذا جہانگیر نے ملک بھر کے حکما کو بلایا کہ کوئی ایسی دوا ایجاد کریں جس سے ان کا علاج ہوسکے۔ لہٰذا متفقہ طور پر پان ایجاد کیا گیا جس میں ہند بھر کے ممتاز حکما نے اپنے اپنے فارمولے پیش کیے، چھوٹی الائچی پیشاب آور 2 عدد (Diuretic)، لونگ ایک عدد، چونا (Calcium)، کتھا، میٹھی لونگ دانتوں کی اور مسوڑوں کی حفاظت کے لیے، چھالیا چند دانے، پیٹ کے کیڑے مارنے کے لیے جب کہ کتھا ہونٹوں کی سرخی کے لیے اور کبھی کبھی سونف اور ناریل ہر چھ یا آٹھ گھنٹے پر مکمل مسلسل اس نسخہ میں تبدیلی کی جاتی رہی اور پاندان کو خوبصورت نقش و نگار سے تیار کیا گیا۔
اس میں پانچ ڈبیاں چاروں طرف اور درمیان میں ایک ڈبیہ کل چھ عدد تیار کی جاتی ہیں اب چونکہ پان کاروباری اعتبار سے تیار کیا جانے لگا تو محفوظ صحت اجزا کو نکال کر پھینک دیا گیا اور تمباکو کی نت نئی اقسام اور چھالیہ کی خوراک بڑھادی گئی ،جو اب حلق کے کینسر کے اسباب پیدا کرنے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ غرض ایک ملکہ کے افزائش حسن پر اس قدرغوروفکر مگر قلمدان پر بھی ابوالفضل نے کافی محنت کی تھی صاحبان علم کو اکبر نے جمع کیا تھا۔
انیسویں صدی کی ابتدا تک متمول گھرانوں میں 6 عدد کے ہاتھی دانت کے قلمدان کے سیٹ استعمال ہوتے تھے جس میں ناپ تول کے اجزا بھی ہوتے تھے غرض کسی بھی عمل میں سوچ، اور دوربینی کا ہونا لازم ہے جس بھی پروڈکٹ کو جس قدر فکر وہنر سے مارکیٹ کیا جائے گا اس کی حیات اتنی طویل ہوگی۔
پاکستان میں وزرا کی ستائشی ٹیم ہے جس سے ملک کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے شاید ہی 2014 میں کوئی ملک ہو جہاں وزارت خارجہ کا کوئی قلمدان ہی نہیں اسی لیے ہر فکر و عمل میں کوئی وقفہ اور تدبر بھی نہیں۔ عام لوگوں کو اس کا علم بھی نہ ہوگا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ جمہوری جنگ آدرشوں پر لڑی، مسلم لیگ کو کانگریس نے پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ دلی، لکھنو، الٰہ آباد، بہار، دکن، حیدر آباد میں جلسے جلوس 1935 کے بعد سے زور و شور سے نکالے گئے بھارت کی تقسیم کی تحریک چلائی گئی مگر کشت و خون بہت کم ہوا۔ جو کشت و خون ہوا وہ آزادی کے اعلان کے بعد عملاً ہونا شروع ہوا۔
یہ انتہا پسند بھارتی تنظیموں کی ابتدا تھی پھر مشرقی اور مغربی پنجاب اور کوئٹہ میں ہوا۔ یہ خونی سیلاب لاکھوں بے گناہوں کی ہلاکتوں کو ابدی نیند سلا گیا جس میں ہندو مسلم اور سکھ سب ہی تباہ ہوئے اور بدیسی حکمرانوں کا ایک بھی آدمی ہلاک نہ ہوا، پھر جب مالیاتی طور پر پاکستان کو زر کثیر کی ضرورت تھی۔ والی دکن عثمان علی خان اور راجہ صاحب آف محمود آباد کا سرمایہ آنے پر قدغن لگائی گئی تو مہاتما گاندھی نے مرن برت (بھوک ہڑتال تادم مرگ) رکھا اور آخر کار سرمایہ پاکستان پہنچا۔ مہاتما گاندھی سیاست دان ضرور تھے مگر انسان تھے۔ آخر کار مہاتما گولی کا نشانہ بن گئے۔
یہ تو خدا کا کرنا بہتر ہوا کہ تقسیم ہند کے وقت ہندو اور مسلم لیڈر شپ دونوں جانب اعتدال پسند رہنما تھے، ورنہ کشت و خون کا سیلاب تقسیم ہند کے وقت کم نہ تھا ورنہ اگر یہ اقتدار آر ایس ایس (RSS) لیڈر شپ کے پاس ہوتا تو وہ اکھنڈ بھارت کا جھنڈا لہراتے اور یہ سیلاب بلا برسوں تک چلتا، پورا بارڈر برسوں جلتا رہتا اور اول روز سے دونوں جانب سے اعلان جنگ برپا ہوجاتا بلکہ تقسیم ہند تک ہندو اور مسلم انتہا پسند مقبول نہ تھے۔
ورنہ ہرگز ایسا نہ ہوتا کہ کیرالہ (Kerala) سے دو مسلم لیگی رہنما کھلے عام کامیاب ہوئے چونکہ پاکستان مذہبی بنیاد پر آزاد ملک بنا تو رفتہ رفتہ مسلم عقائد اور نظریات کی پختگی کو سربلندی حاصل ہوئی رفتہ رفتہ بھارت میں بھی سیکولر ریاست ہونے کے باوجود بنیاد پرست ہندو نعرہ لگانے والی پارٹی کو ممنوع قرار نہ دیا گیا آخر کار بی جے پی نے بابری مسجد کا فتنہ کھڑا کیا۔ اسی طرح اس نے اجودھیا(Faizabad UP) میں فساد برپا کرکے اپنی بنیاد رکھی اور اس نعرے کو تقویت پہنچانی شروع کی کہ بھارت کو سیکولر ریاست ہونے کے باوجود اس کے ایک مذہبی رنگ میں رنگ دیا جائے یہ کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے اور جس طرح بی جے پی اپنی ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن ہے وہ یہ نعرہ لگا سکتی ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں اچھوت بنادیا جائے نوکریوں میں ان کے لیے دروازے بند کردیے جائیں۔
40 برسوں تک وہ تقسیم ہند کی ذمے داری کا داغ اپنے کاندھوں پر لیے پھر رہے تھے۔ من موہن سنگھ تک آتے آتے یہ داغ تقریباً دھل چکا تھا مگر جس زور و شور سے یہ تعصب پھیلایا گیا اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اب ڈر یہ ہے کہ نریندر مودی اس معاملے کو مزید ہوا دیں اور اپنی سیاسی گرفت ہندو بنیاد پرستوں میں مضبوط کریں اور خود کو ماضی کے اسپین کی طرف لے جائیں مگر اس حد تک جدید دنیا میں ممکن نہیں۔ کیونکہ اپنا عالمی بھرم بھی رکھنا ہے۔ کیونکہ نریندر مودی پر دنیا کے کئی ملکوں میں ویزا بند تھا جن میں امریکا بھی تھا مگر اب یہ بندش بے معنی ہوچکی ہے یہ ہیں جمہوریت کے اہداف کہ آپ اپنی قوت سے دوسروں کے حقوق صلب کرسکتے ہیں، جمہوریت میں آپ اپنی اکثریت سے اقلیت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکتے ہیں۔
اب نریندر مودی اس اکثریتی منطق کو استعمال کرسکتے ہیں مگر یقینی طور پر ابھی مثبت اشارے نہیں مل رہے۔ پورے گجرات میں 2001 میں جو بھوج کا زلزلہ آیا تھا۔ مسٹر مودی نے بڑی محنت سے کام کیا اور امداد پہنچائی مگر 2002 میں گودھرا کے واقعے پر مسٹر مودی نے جو ری ایکشن کیا ۔ وہ بھی شاید دنیا میں اپنی مثال آپ ہے، کانگریسی لیڈر احسان جعفری کا قتل اور بیگم ذکیہ جعفری پر ہندوؤں کے قتل کے الزامات میں برس ہا برس کی سزا اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل ان کے بلند کارناموں کا یہ عمل تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ کیونکہ تاریخ دان کو عوام سے ووٹ نہیں لینا ہے۔
لیڈر بننے کا بہترین شارٹ کورس (Short Course) کسی نسل پر الزام لگا کر سارا بوجھ اس پر ڈال دینا اور نسل پرستی، یا اپنی پستی کا ذمے دار دوسرے مذاہب کو ٹھہرانا جلد بڑا لیڈر بننے کا طریقہ ہے۔ مگر امن آشتی کے بجائے دل کے آبگینوں کو ٹھیس لگاتے چلنا اور اپنی نسل، رنگ، قوم اور مذہب کا تمام تر ملبہ دوسروں پر ڈال دینا نہایت آسان عمل ہے اور یہی فارمولا مودی نے استعمال کیا مانا کہ نریندر مودی بھارت کے مرد آہن بن کے ابھرے۔
مگر دنیا ان کے اصل اشلوک سے واقف ہے یہ بھی مانا کہ یہ 4 مرتبہ گجرات کے چیف منسٹر رہے مگر یہ کوئی پیمانہ عدل و انصاف نہیں نیشنلسٹ (Nationalist) پنڈت جواہر لعل نہرو بھی تھے جو اردو فارسی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے جوش کی شاعری کے مداح تھے مگر زاہد تنگ نظر نہ تھے جب کہ مسٹر مودی عوام کو خوش کرنے کے لیے خاص طور سے چین کو طاقت (Muscles) دکھانے کی باتیں کر رہے تھے اور پاکستان پر بھی چھینٹے اچھالے۔ مبارکباد تو دینا اچھا عمل تھا مگر دورہ پاکستان کی دعوت دینا ایک عجلت کا عمل ہے یہ کاروبار نہیں کہ جہاں مال سستا اور اچھا ہو فوراً خرید لو، فائدہ ہوگا۔
یہ تو سیاست کا جال ہے اس کے پیچھے کیا چال ہے یا جعل ہے؟ سیاسی عمل میں خصوصاً جب کہ مقابل سفاک اور شاطر ہو قول اور فعل کو آپ نے آزمایا نہ ہو تو پھر کس بنیاد پر آپ فیصلہ کرسکتے ہیں یہ لیڈر خاندانی طور پر ایک کاروباری ہے لہٰذا اس کی سوچ کاروباری عمل کس قسم کا ہوگا۔ نریندر مودی کی کامیابی بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی نمایندگی ہے یہ وہاں کی اشرافیہ کے نمایندے نہیں اور نہ بھارتی دانشوروں کے نمایندہ ہیں ان سے کہیں زیادہ رعب و دبدبہ سے ہٹلر جیتا تھا اور مسلز کی سیاست بھی اس نے کی تھی ۔
سو انجام کیا ہوا یہ دنیا احمد آباد نہیں آزاد، مضبوط خوشحال ہے البتہ نریندر مودی افغانستان سے کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں اور عبداللہ عبداللہ سے ان کا تعلق کس قسم کا ہوگا اس پہلو پر غور کرنا ہوگا، مگر وزارت خارجہ کا قلمدان تو سرے سے کسی کے پاس موجود ہی نہیں۔ ظاہر ہے وزیر اعظم کو داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سے فیصلے کرنے ہیں، البتہ پاکستان آنے کا دعوت نامہ نریندر مودی کی سیکولر سیاست کی کج روی کو نرم ضرور کردے گا۔ ورنہ امن کا پیغام طشت ازبام تو ہوگا ضرور۔ کہاں مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور کہاں بھارتی مذہبی انتہا پسندوں کا نمایندہ جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ البتہ مذہبی انتہا پسند خواہ وہ کسی دیس کا ہو اپنے مفاد کے پیش نظر رویوں میں فوری تبدیلی کرسکتا ہے۔