300 مغوی طالبات اور نائیجیریا کا مستقبل
بوکو حرام نامی القاعدہ کی برانچ نے نائیجیریا کے ایک ہاسٹل سے تین سو کے لگ بھگ کم عمر طالبات کو اغوا کرلیا ...
نائیجیریا مغربی افریقہ کا ایک تیزی سے ترقی کرتا ملک ہے جہاں کی آبادی مسلمانوں، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب میں بٹی ہوئی ہے جس میں مسلمان 55 فیصد، عیسائی 40 فیصد اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے 5 فیصد ہیں۔ نائیجیریا کی کل آبادی 17 کروڑ ہے۔ مغربی افریقہ کا یہ 17 کروڑ آبادی والا ملک آج کل ایک ایسے بحران سے دو چار ہے جس کی وجہ سے وہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
بوکو حرام نامی القاعدہ کی برانچ نے نائیجیریا کے ایک ہاسٹل سے تین سو کے لگ بھگ کم عمر طالبات کو اغوا کرلیا ہے ان تین سو اغوا شدہ طالبات میں سے 25 کے لگ بھگ طالبات بوکو حرام کے کیمپ سے فرار ہوکر اپنے گھروں میں آگئی ہیں اور اب کوئی 276 طالبات بوکوحرام کی قید میں ہیں، اگرچہ اغوا ہونے والی طالبات کی مذہبی شناخت نہیں بتائی جا رہی ہے لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں زیادہ تعداد عیسائی لڑکیوں کی ہے۔ طالبات کے اغوا کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بوکو حرام نے گزشتہ اپریل میں بھی ایک سو کے لگ بھگ طالبات کو اغوا کیا تھا لیکن بوجوہ ذرایع ابلاغ میں اس کا چرچا نہیں ہوا۔
بوکو حرام نے یکے بعد دیگرے طالبات کے اسکولوں پر چار حملے کیے اور مجموعی طور پر کوئی 270 طالبات کو اغوا کرلیا۔ اغوا کا تازہ واقعہ سب سے بڑا المیہ ہے جس میں 3 سو طالبات کو اغوا کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے ۔امریکی صدر اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما سمیت دنیا کے بے شمار رہنما اس اندوہناک واقعے کی مذمت کر رہے ہیں نائیجیریا میں اس غیر انسانی واقعے کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے جس میں وہ طالبات بھی شرکت کر رہی ہیں جو بوکو حرام کی قید سے فرار ہوکر واپس آئی ہیں۔
مذہبی انتہا پسند تنظیمیں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں۔ پاکستان میں اب تک سیکڑوں اسکولوں کو بارود سے اڑا دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نائیجیریا میں 300 طالبات کا اغوا تھوڑے فرق کے ساتھ مذہبی انتہا پسندوں کی تعلیم دشمن تحریک ہی کا ایک حصہ ہے۔ مذہبی انتہا پسند اگرچہ تمام مسلم ملکوں میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کی کارروائیاں اسلامی اقدار کی واضح خلاف ورزیاں دکھائی دیتی ہیں۔
پیغمبر اسلام نے مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کر کے تعلیم کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔ لیکن اسلام نافذ کرنے کے دعویدار تعلیم کے سخت دشمن ہیں کہیں بچوں کے اسکول تباہ کررہے ہیں تو کہیں سیکڑوں کی تعداد میں طالبات کو اغوا کرکے مذہبی اقدار کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے لیکن پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ صرف پاکستان میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ مسلمان جرم بے گناہی میں قتل کیے جاچکے ہیں۔
شمالی نائیجیریا کی مسلم اکثریتی آبادی میں ''بوسہ'' زبان بولی جاتی ہے، بوکو اسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مغربی تعلیم لیا جاتا ہے۔ نائیجیریا میں مسلمان انتہا پسند مغربی تعلیم کے خلاف سو سال سے زیادہ عرصے سے تحریکیں چلا رہے ہیں۔ 2002 میں الشیخ محمد یوسف نے مغربی تعلیم کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی اور مغربی تعلیم اور سیکولرزم کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسے حرام قرار دیا۔ یوں نائیجیریا میں ''بوکو حرام'' کی اصطلاح وضع ہوئی اور نائیجیریا کے مذہبی انتہا پسندوں کی شناخت بن گئی۔ بوکو حرام کے حملوں میں اب تک تین ہزار سے زیادہ لوگ قتل کیے جاچکے ہیں۔ بوکو حرام کے موجودہ امیر شیخاؤ نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں موجود مغربی اسکولوں کے مکمل خاتمے تک ان کی جنگ جاری رہے گی۔
غیر منقسم ہندوستان میں بھی مغربی تعلیم کے خلاف بڑی منظم تحریکیں چلائی گئیں اور اس کے خلاف فتوے بھی صادر ہوئے لیکن یہ تحریکیں یہ فتوے خود مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف تھے۔ سرسید احمد خان نے اس منفی رجحان کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو حصول تعلیم کی ترغیب کے ساتھ اس کے سیاسی اثرات سے آگاہ کیا۔ ہندو کمیونٹی مغربی تعلیم خصوصاً انگریزی زبان سیکھ کر سماجی اور علمی میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور مسلمانوں کی قیادت مسلمانوں کو جدید علم سے بے بہرہ رکھنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ سرگرم عمل تھی سرسید احمد خان کی مخلصانہ کوششوں سے مسلمان تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور انگریزی کے حرام ہونے کے سحر سے باہر نکل کر جدید علوم کے حصول میں مصروف ہوگئے۔
مسلم دنیا صدیوں سے ذہنی پسماندگی کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ علم کی دولت سے محرومی اور جدید علوم سے لاتعلقی ہے دنیا کے 57 مسلم ملکوں پر نظر ڈالیں ہر جگہ جدید علوم سے لاتعلقی کا ایک احمقانہ کلچر نظر آتا ہے ۔حکمراں طبقات کی اولین ترجیح دولت کے انبار جمع کرنا ہے ملک و قوم کے مستقبل سے حکمراں طبقات کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مسلم دانشور ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ملک وملت کی سربلندی کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی سمیت جدید علوم کے ہر شعبے میں پیش رفت ضروری ہے، ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پاکستان سے نائیجیریا تک دینی علوم کو اولین ترجیح بنادیا گیا ہے اور اس ترجیح پر عملدرآمد کے لیے ہزاروں مدرسوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 60 ہزار مدرسے موجودہ ہیں جن میں کوئی 20 لاکھ طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان مدرسوں کے نصاب میں جدید علوم کی کوئی کتاب شامل نہیں حکومت مدرسوں کے نصاب میں عصری تقاضوں کے مطابق کچھ تبدیلیوں کی بات کرتی ہے تو ایک طوفان اٹھا دیا جاتا ہے کہ حکومت دینی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے اور ہم حکومت کی ان سازشوں کو کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے محترم رہنما اب تک یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا کی ترقی کا راز جدید علوم میں پوشیدہ ہے 57 مسلم ملکوں میں مغربی ملکوں کے معیار کی ایک یونیورسٹی موجود نہیں۔