القابات
جہاں تک اس ملک کے پرسان حال حضرات کا تعلق ہے تو ایسا نہیں کہ ’’ہیں ہی نہیں‘ ...
CHRISTCHURCH:
وطن عزیز کا اصلی نام تو ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہی ہے مگر مختلف زمانوں میں اس کو کئی القابات سے نوازا جا چکا ہے۔ پہلا لقب مملکت خدا داد تھا اور آج بھی ہے۔ آگے چل کر کچھ دل جلوں نے اس کو ''مسائلستان'' کے لقب سے پکارنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کبھی کبھی لوگ اپنے پیارے ملک کو ''پیار'' سے ''مملکت ناپرساں'' کے لقب سے اظہار محبت فرمانے لگے۔ خاص کر ہمارے سعد اللہ جاں برقؔ صاحب ان کے قارئین میں بھی یہ لقب خاصہ مقبول ہو رہا ہے۔
جہاں تک اس ملک کے پرسان حال حضرات کا تعلق ہے تو ایسا نہیں کہ ''ہیں ہی نہیں'' (برقؔ صاحب سے معذرت کے ساتھ) کچھ اپنی ذاتی طاقت یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ملک کے پرسان حال بن جاتے ہیں تو کچھ اسلحے کے زور پر۔ وقفے وقفے سے کبھی کبھی لوگ ووٹ کی طاقت سے بھی ملک کے پرسان حال قرار پاتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ووٹ کی طاقت اکثر و بیشتر مشکوک ہی رہتی ہے جس کے نتیجے میں خدمتِ مملکتِ خداداد کی مقررہ مدت پوری بھی نہیں ہو پاتی اور خادمین قوم دل کی حسرت دل میں لیے اس سعادت سے مجبوراً دستبردار ہو جاتے ہیں۔ بہرحال لوگوں کا کیا وہ تو کسی بھی صورت مطمئن نہیں ہوتے۔
خود کچھ کریں نہ کریں دوسروں کو بھی ''کچھ کرنے'' نہیں دیتے کیونکہ یہ کچھ نہ کرنے والے ایک کام بخوبی کر لیتے ہیں یعنی دوسروں پر اعتراض کیونکہ وہ اس کو اپنا پیدائشی حق اور حب الوطنی جو قرار دیتے ہیں۔ خیر تو ہم کہہ رہے تھے کہ ملک کے پرسان حالوں کی کبھی کمی نہیں رہی پھر بھی جانے لوگ ہمارے پیارے ملک کو مملکت ناپرساں کیوں کہتے ہیں؟ اس کا جواب تو برقؔ صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے بلکہ الگ بات یہ ہے کہ جب جب ان پرسان حال حضرات کا بوریا بستر گول ہوتا ہے جس کا انتظام کبھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے تو کبھی اللہ کے نیک بندوں کی طرف ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کوئی بھی ملک کا پرسان حال نہ تھا بلکہ خود اپنے پرسان حال تھے اور اس فرض منصبی کو اس خوش اسلوبی سے انجام دے رہے تھے کہ یہ عہدہ جلیلہ کے چھن جانے کے بعد بھی خود تو خود اپنی اولاد بلکہ کنبہ، برادری کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہت کچھ بنا گئے (تا کہ آیندہ اسمبلیوں میں یہی ہمیشہ آتے رہیں۔)
عالم یہ ہے کہ اس مملکت خداداد کے ایک پرسان حال تو ایسے بھی رہ چکے ہیں جو خود پرستش احوال کے مستحق تھے معزول نہیں بلکہ معذور ''گورنر جنرل'' مگر وہ اس معذوری میں بھی اس قدر محب وطن تھے کہ کسی صورت ملک و قوم کی خدمت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے جب کہ ان کی خدمت کے لیے خدمت گار بیک وقت موجود رہتے تھے وہ کسی باقاعدہ دفتر سے نہیں بلکہ اپنے بستر علالت سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے جو حکم وہ ''منہ زبانی'' ارشاد فرماتے (کیونکہ بیماری کے باعث لکھنے سے معذور تھے بمشکل دستخط کر سکتے تھے) کوئی ان کو سمجھ نہیں سکتا تھا سوائے ان کی پرسنل پرائیویٹ سیکریٹری کے، اور جب کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا تو وہ غیظ میں آ کر مزید غوں غاں کرنے لگتے لیکن بعد میں پتہ چلتا کہ وہ سامنے والے کو گالیاں ارشاد فرما رہے تھے۔
خیر وہ لاکھ معذور سہی مگر ملک کی تقدیر میں جو لکھا تھا وہ تو ہو کر رہا ، اسمبلیاں معطل، آئین برطرف۔ وزیر اعظم بلا پیشگی اطلاع کے معزول مگر سوال یہ ہے کہ ان کے نہ رہنے سے بعد میں ملک کون سا منزل ترقی کی جانب دوڑ پڑا؟ ''وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے'' بلکہ بقول منیرؔ نیازی مرحوم
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اب سوچنا یہ ہے جسمانی معذور حکمراں نے ملک و قوم کو زیادہ نقصان پہنچایا یا کہ ذہنی معذور حکمرانوں نے۔ کیونکہ ایک جسمانی معذور امریکی صدر (روز ویلٹ) نے تو اپنے ملک کو سپر پاور بنانے کے لیے ایسے شاندار منصوبے بنائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ بات یہ ہے کہ وہ جسمانی معذور تھا ذہنی نہیں، جب کہ ہمارے حکمرانوں کی ذہنی سطح نے ملک کو ترقی و خوشحالی کے بجائے بدحالی کی انتہا پر پہنچا دیا اس کے علاوہ مقروض پسماندہ اور عوام کو ہر سہولت سے محروم کر دیا۔ یہاں ہماری مراد ''ذہنی سطح'' سے ذہنی معذور نہیں کیونکہ اگر خدا ناخواستہ وہ ذہنی معذور ہوتے تو ملک کو تباہ کرنے کے ساتھ خود بھی تباہ ہو جاتے مگر وہ تو اپنا ہی نہیں اپنی نسلوں تک کا مستقبل محفوظ کرچکے ہیں، غیر ملکی بینک اکاؤنٹس اور دوسرے ممالک میں ان کی سرمایہ کاری اس بات کی گواہ ہے۔
بات ہو رہی تھی وطن عزیز کے القابات کی ایک لقب جو حال ہی میں مملکت کو دیا گیا ہے وہ ہے ''مظاہرستان'' جتنے، جس طرح کے اور جس سطح کے مظاہرے آج کل ملک میں جاری ہیں ان کو دیکھ کر بلکہ ''بھگت'' کر فی الحال یہی لقب وطن عزیز کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ سول سوسائٹی، وکلا، صحافی اور اب علما کبھی ہر شہر میں ہر روز مظاہرے کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کے خلاف مظاہرہ فرما رہے ہیں۔
ناکردہ گناہ کی پاداش میں بلاجواز مرنے، قتل کیے جانے والوں کے ورثا لاشوں کے ہمراہ سڑکوں، پریس کلبوں، ذمے داران کے دفاتر پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے مقبول اور ہر دلعزیز کپتان صاحب ملک کے سب سے اہم مسئلے یعنی انتخابی دھاندلی پر برسر اقتدار جماعت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ محترم قادری بدعنوان معاشرے اور غیر آئینی طرز عمل کے خلاف ''برسر مظاہرہ'' ہیں۔ حتیٰ کہ گھریلو خواتین اور بچے بھی پانی کی عدم دستیابی اور بجلی کی آنکھ مچولی کے خلاف گلی گلی مظاہرہ فرما رہے ہیں اور ہاں سندھ کی ایک اچھی بھلی سیاسی جماعت اپنے قائد کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ ملنے پر '''مظاہرہ کناں'' ہے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ آخر کوئی بچا بھی ہے جو مملکت مظاہرستان میں '' ظاہرہ زدہ'' نہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اب ایسا بھی نہیں ہمارے حکمراں ہیں جو مکمل حب الوطنی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے نہ صرف کسی قسم کا مظاہرہ نہیں کر رہے بلکہ ان تمام اقسام کے مظاہروں کو گھاس بھی نہیں ڈال رہے وہ ایسے تخریبی کاموں کی بجائے تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مصروف ہیں یعنی غیر ملکی دوروں کو وہ زیادہ اہمیت دے رہے ہیں وہاں سے کچھ مل جائے تو کیا کہنا اور جو نہ ملے تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ خود اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کے لیے تو کچھ نہ کچھ کر سکیں گے۔
اور یہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے جو مناسب سمجھے وہ کرے۔ دوسروں کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ ''کوا چلا ہنس کی چال، بھول گیا اپنی بھی چال''۔ ویسے برسر اقتدار جماعت اور ان کے کارندے بھی ذرا بے ضرر سا مظاہرہ کر تو رہے ہیں یعنی بے اعتنائی کا۔ دوسروں پر طنز کرنے کا، ایک ذمے دار دوسرے ذمے دار کے برعکس بیان داغنے کا۔ تو صاحبو! اگر کوئی بچا ہو مظاہرہ کرنے سے اور ہم اس کا تذکرہ نہ کر سکے ہوں تو براہِ مہربانی ہمیں ضرور مطلع کر کے شکر گزار فرمائیے گا۔
وطن عزیز کا اصلی نام تو ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہی ہے مگر مختلف زمانوں میں اس کو کئی القابات سے نوازا جا چکا ہے۔ پہلا لقب مملکت خدا داد تھا اور آج بھی ہے۔ آگے چل کر کچھ دل جلوں نے اس کو ''مسائلستان'' کے لقب سے پکارنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کبھی کبھی لوگ اپنے پیارے ملک کو ''پیار'' سے ''مملکت ناپرساں'' کے لقب سے اظہار محبت فرمانے لگے۔ خاص کر ہمارے سعد اللہ جاں برقؔ صاحب ان کے قارئین میں بھی یہ لقب خاصہ مقبول ہو رہا ہے۔
جہاں تک اس ملک کے پرسان حال حضرات کا تعلق ہے تو ایسا نہیں کہ ''ہیں ہی نہیں'' (برقؔ صاحب سے معذرت کے ساتھ) کچھ اپنی ذاتی طاقت یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ملک کے پرسان حال بن جاتے ہیں تو کچھ اسلحے کے زور پر۔ وقفے وقفے سے کبھی کبھی لوگ ووٹ کی طاقت سے بھی ملک کے پرسان حال قرار پاتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ووٹ کی طاقت اکثر و بیشتر مشکوک ہی رہتی ہے جس کے نتیجے میں خدمتِ مملکتِ خداداد کی مقررہ مدت پوری بھی نہیں ہو پاتی اور خادمین قوم دل کی حسرت دل میں لیے اس سعادت سے مجبوراً دستبردار ہو جاتے ہیں۔ بہرحال لوگوں کا کیا وہ تو کسی بھی صورت مطمئن نہیں ہوتے۔
خود کچھ کریں نہ کریں دوسروں کو بھی ''کچھ کرنے'' نہیں دیتے کیونکہ یہ کچھ نہ کرنے والے ایک کام بخوبی کر لیتے ہیں یعنی دوسروں پر اعتراض کیونکہ وہ اس کو اپنا پیدائشی حق اور حب الوطنی جو قرار دیتے ہیں۔ خیر تو ہم کہہ رہے تھے کہ ملک کے پرسان حالوں کی کبھی کمی نہیں رہی پھر بھی جانے لوگ ہمارے پیارے ملک کو مملکت ناپرساں کیوں کہتے ہیں؟ اس کا جواب تو برقؔ صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے بلکہ الگ بات یہ ہے کہ جب جب ان پرسان حال حضرات کا بوریا بستر گول ہوتا ہے جس کا انتظام کبھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے تو کبھی اللہ کے نیک بندوں کی طرف ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کوئی بھی ملک کا پرسان حال نہ تھا بلکہ خود اپنے پرسان حال تھے اور اس فرض منصبی کو اس خوش اسلوبی سے انجام دے رہے تھے کہ یہ عہدہ جلیلہ کے چھن جانے کے بعد بھی خود تو خود اپنی اولاد بلکہ کنبہ، برادری کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہت کچھ بنا گئے (تا کہ آیندہ اسمبلیوں میں یہی ہمیشہ آتے رہیں۔)
عالم یہ ہے کہ اس مملکت خداداد کے ایک پرسان حال تو ایسے بھی رہ چکے ہیں جو خود پرستش احوال کے مستحق تھے معزول نہیں بلکہ معذور ''گورنر جنرل'' مگر وہ اس معذوری میں بھی اس قدر محب وطن تھے کہ کسی صورت ملک و قوم کی خدمت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے جب کہ ان کی خدمت کے لیے خدمت گار بیک وقت موجود رہتے تھے وہ کسی باقاعدہ دفتر سے نہیں بلکہ اپنے بستر علالت سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے جو حکم وہ ''منہ زبانی'' ارشاد فرماتے (کیونکہ بیماری کے باعث لکھنے سے معذور تھے بمشکل دستخط کر سکتے تھے) کوئی ان کو سمجھ نہیں سکتا تھا سوائے ان کی پرسنل پرائیویٹ سیکریٹری کے، اور جب کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا تو وہ غیظ میں آ کر مزید غوں غاں کرنے لگتے لیکن بعد میں پتہ چلتا کہ وہ سامنے والے کو گالیاں ارشاد فرما رہے تھے۔
خیر وہ لاکھ معذور سہی مگر ملک کی تقدیر میں جو لکھا تھا وہ تو ہو کر رہا ، اسمبلیاں معطل، آئین برطرف۔ وزیر اعظم بلا پیشگی اطلاع کے معزول مگر سوال یہ ہے کہ ان کے نہ رہنے سے بعد میں ملک کون سا منزل ترقی کی جانب دوڑ پڑا؟ ''وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے'' بلکہ بقول منیرؔ نیازی مرحوم
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اب سوچنا یہ ہے جسمانی معذور حکمراں نے ملک و قوم کو زیادہ نقصان پہنچایا یا کہ ذہنی معذور حکمرانوں نے۔ کیونکہ ایک جسمانی معذور امریکی صدر (روز ویلٹ) نے تو اپنے ملک کو سپر پاور بنانے کے لیے ایسے شاندار منصوبے بنائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ بات یہ ہے کہ وہ جسمانی معذور تھا ذہنی نہیں، جب کہ ہمارے حکمرانوں کی ذہنی سطح نے ملک کو ترقی و خوشحالی کے بجائے بدحالی کی انتہا پر پہنچا دیا اس کے علاوہ مقروض پسماندہ اور عوام کو ہر سہولت سے محروم کر دیا۔ یہاں ہماری مراد ''ذہنی سطح'' سے ذہنی معذور نہیں کیونکہ اگر خدا ناخواستہ وہ ذہنی معذور ہوتے تو ملک کو تباہ کرنے کے ساتھ خود بھی تباہ ہو جاتے مگر وہ تو اپنا ہی نہیں اپنی نسلوں تک کا مستقبل محفوظ کرچکے ہیں، غیر ملکی بینک اکاؤنٹس اور دوسرے ممالک میں ان کی سرمایہ کاری اس بات کی گواہ ہے۔
بات ہو رہی تھی وطن عزیز کے القابات کی ایک لقب جو حال ہی میں مملکت کو دیا گیا ہے وہ ہے ''مظاہرستان'' جتنے، جس طرح کے اور جس سطح کے مظاہرے آج کل ملک میں جاری ہیں ان کو دیکھ کر بلکہ ''بھگت'' کر فی الحال یہی لقب وطن عزیز کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ سول سوسائٹی، وکلا، صحافی اور اب علما کبھی ہر شہر میں ہر روز مظاہرے کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کے خلاف مظاہرہ فرما رہے ہیں۔
ناکردہ گناہ کی پاداش میں بلاجواز مرنے، قتل کیے جانے والوں کے ورثا لاشوں کے ہمراہ سڑکوں، پریس کلبوں، ذمے داران کے دفاتر پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے مقبول اور ہر دلعزیز کپتان صاحب ملک کے سب سے اہم مسئلے یعنی انتخابی دھاندلی پر برسر اقتدار جماعت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ محترم قادری بدعنوان معاشرے اور غیر آئینی طرز عمل کے خلاف ''برسر مظاہرہ'' ہیں۔ حتیٰ کہ گھریلو خواتین اور بچے بھی پانی کی عدم دستیابی اور بجلی کی آنکھ مچولی کے خلاف گلی گلی مظاہرہ فرما رہے ہیں اور ہاں سندھ کی ایک اچھی بھلی سیاسی جماعت اپنے قائد کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ ملنے پر '''مظاہرہ کناں'' ہے۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ آخر کوئی بچا بھی ہے جو مملکت مظاہرستان میں '' ظاہرہ زدہ'' نہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اب ایسا بھی نہیں ہمارے حکمراں ہیں جو مکمل حب الوطنی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے نہ صرف کسی قسم کا مظاہرہ نہیں کر رہے بلکہ ان تمام اقسام کے مظاہروں کو گھاس بھی نہیں ڈال رہے وہ ایسے تخریبی کاموں کی بجائے تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مصروف ہیں یعنی غیر ملکی دوروں کو وہ زیادہ اہمیت دے رہے ہیں وہاں سے کچھ مل جائے تو کیا کہنا اور جو نہ ملے تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ خود اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کے لیے تو کچھ نہ کچھ کر سکیں گے۔
اور یہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے جو مناسب سمجھے وہ کرے۔ دوسروں کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ ''کوا چلا ہنس کی چال، بھول گیا اپنی بھی چال''۔ ویسے برسر اقتدار جماعت اور ان کے کارندے بھی ذرا بے ضرر سا مظاہرہ کر تو رہے ہیں یعنی بے اعتنائی کا۔ دوسروں پر طنز کرنے کا، ایک ذمے دار دوسرے ذمے دار کے برعکس بیان داغنے کا۔ تو صاحبو! اگر کوئی بچا ہو مظاہرہ کرنے سے اور ہم اس کا تذکرہ نہ کر سکے ہوں تو براہِ مہربانی ہمیں ضرور مطلع کر کے شکر گزار فرمائیے گا۔