عوام زرخیز جمہوریت کے منتظر
انقلاب فرانس دراصل انسانی آزادی کی وہ زبردست تحریک تھی جس کا آغاز 4 جولائی 1789ء کو ہوا ...
LONDON:
فرانسیسی شہنشاہ لوئی چہاردہم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے بستر مرگ پر اپنے پوتے لوئی پانزدہم سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ میرے بچے! اپنے پڑوسیوں سے پرامن رہنے کی کوشش کرنا، میری طرح جنگ جوئی کی تقلید نہ کرنا اور نہ ہی اتنی فضول خرچی کرنا جتنی میں نے کی اور جتنی جلدی ہو سکے عوام پر پڑے ہوئے بوجھ (ٹیکس) کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا۔
انقلاب فرانس دراصل انسانی آزادی کی وہ زبردست تحریک تھی جس کا آغاز 4 جولائی 1789ء کو ہوا جب پیرس کے عوام نے شورش برپا کر کے پیرس کے مشہور جیل خانہ پر حملہ کر کے اسے منہدم کر دیا۔ جمہوریت، حریت اور آزادی کے نظریات نے اسی انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا یہی وہ انقلاب تھا جس نے انسان کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے کی قابل تقلید مثال کو قائم کیا۔
اس انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کا سب سے اہم ترین سبب اس معاشرے میں قائم وہ شدید عدم مساوات معاشرہ واضح طور پر دو طبقات میں منقسم تھا ایک اعلیٰ ترین مراعات یافتہ طبقہ جو بغیر محنت اور صلاحیت کے قومی پیداوار کا 80 فیصد حصے کا مالک بن جاتا تھا۔ آبادی کا انتہائی قلیل حصہ ہونے کے باوجود تمام قوت اور اختیارات کا مالک تھا جب کہ باقی تمام اکثریتی آبادی شدید محنت و مشقت کے باوجود اپنی بنیادی ضرورتوں سے یکسر محروم تھی۔
مذہبی لیڈران بادشاہ وقت کے خلاف پنپنے والے باغیانہ خیالات کو مذہبی گناہ قرار دے کر ان کی دنیا میں سرزنش کرواتے اور بادشاہ کے ظلم و ستم کو ان کی تقدیر میں لکھی ہوئی عارضی مشکلات سے تعبیر کر کے ان کے باغیانہ خیالات کو پروان چڑھنے سے روکنے کے عمل میں مصروف رکھ کر بادشاہ وقت سے اپنی وفاداری کے اس عمل کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے تھے مگر مکمل ظلم و جبر اور اپنی بے پناہ فوجی قوت کے باوجود بھی وہ اس انقلابی مسلح جدوجہد کا راستہ نہ روک سکے۔
11 مئی کی پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے عوامی احتجاج کو چند ہزار لوگوں پر مشتمل افراد کا مجمع کہنے والے اور مصنوعی جمہوریت کو اپنی موجودہ شکل و صورت میں برقرار رکھنے والے موجودہ سیاسی حکمران اپنے فہم اور سیاسی تدبر سے مستقبل قریب میں وقوع پذیر ہونے والے خونی انقلاب کے آثار کو حقیقی طور پر محسوس کریں اور ان وجوہات کا فوری ازالہ کرنے کی حکمت عملی اپنائیں اور عوام میں تیزی سے مقبول ہونے والے سیاسی رہنماؤں کا مذاق اڑانے اور انھیں Underestimate کرنے کے بجائے عوام کو فوری طور پر ریلیف فراہم کرنے کی جدوجہد کریں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ عوام الناس میں شدید بے چینی اور مایوسی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اشیا خور و نوش کا حصول بھی ایک غریب آدمی کی دسترس میں نہیں ہے، ہر مہینے پٹرول کی قیمت میں رد و بدل کی وجہ سے اشیائے ضرورت مہنگی تو ضرور ہوتی ہیں مگر جب پٹرول کی قیمت کم کی جاتی ہے تو مہنگی ہونے والی اشیا سستی نہیں ہوتیں۔ بجلی کی قیمت دگنی کرنے کے باوجود بھی بجلی سولہ سولہ گھنٹے میسر نہیں، وہاں عام آدمی کے ہوش اڑا دینے والے بجلی کے بل باقاعدگی سے ضرور ملتے ہیں۔ کروڑوں لوگ بے روزگار بیٹھے ہیں جن میں لاکھوں لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی ضد لیے بیٹھے ہیں۔ اور ان میں ہر سال لاکھوں نوجوانوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر یہ نوجوان جرائم اور منشیات کی طرف راغب ہو گئے تو مستقبل کا پاکستان دنیائے عالم میں کس مقام پر کھڑا ہو گا بھوک پیاس سے تنگ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو غربت و افلاس کی وجہ سے زہر دینے پر مجبور ہیں اپنی تمام تر قوت اور اختیارات کے باوجود ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جرائم اور قتل و غارت گری کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے عدم تحفظ اور خوف کی وجہ سے بڑے سے بڑے مجرموں، قاتلوں اور بھتہ وصول کرنے والوں کے خلاف لوگ گواہی دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
ملکی و قومی پیداوار میں 25 سے تیس 30 فیصد حصہ ڈالنے والے کسان اور 18 سے 20 فیصد حصہ ڈالنے والے مزدور کی جمہوریت کے نام پر قائم پارلیمنٹ میں نمایندگی ہی نہ ہونے کے برابر ہے دن رات اپنا خون پسینہ بہا کر قومی پیداوار میں اضافہ کرنے والے اپنی ذاتی چھت سے عشروں سے محروم ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں ان کے حقوق کی جدوجہد کرنے کا حق ان زمینداروں اور کارخانہ داروں نے عطا کیا ہے جو ان کسانوں اور مزدوروں کو اپنی زمین اور جائیداد پر اپنا گھر بنانے کی اجازت تک دینے پر تیار نہیں ہوتے، یہی حال سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کا ہے جو ملک کی حفاظت پر مامور ہے۔ جو ملک کے اندرونی جرائم کو ختم کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں اور جو تمام ملکی انتظامی معاملات کو چلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس کہ ان چھوٹے درجے کے ریٹائرڈ ملازمین کی بھی پارلیمنٹ میں کوئی نمایندگی ہی نہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اپنے وطن سے دور بیٹھے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کی نمایندگی تو کجا انھیں ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں جو ہر سال پاکستان میں بارہ سے پندرہ ارب ڈالر کا سرمایہ بھیجتے ہیں، کوئی بھی غریب پاکستانی اچھی صحت اور اعلیٰ تعلیم کو سرکاری سطح پر حاصل کرنے سے محروم ہے۔ خدانخواستہ اگر کوئی وبا پھوٹ پڑے تو سیکڑوں پاکستانی اس وبا سے زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ملکی ذرایع آمد و رفت میں سڑکیں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو ہلکی سی بارش کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مگر انھیں مرمت کر کے ٹھیک کرنے کے بجائے بڑے بڑے شہروں میں اپنے کمیشن کے حصول کی خاطر نئی نئی سڑکیں اور پل بنا دیے جاتے ہیں۔ کیا یہی حقیقی جمہوریت ہے جس کے نام پر ہر بار عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی جمہوریت دو چار الیکشن کے بعد ملک کی تقدیر بدل ڈالے گی؟
جناب عالی! 11 مئی کے احتجاج نے ایسی لوٹ کھسوٹ پر مبنی جعلی اور دکھاوے کی جمہوریت کو مسترد کرنے کی ابتدا کر دی ہے عوام کو مطمئن نہ کیا تو اس کی انتہا یقینا انقلاب ہو گی۔ حقیقی جمہوریت والٹیئر اور روسو کی ذہنی جسمانی اور ابلاغی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے محنت کش طبقات کے لیے ایک بہترین تحفہ اور راہ نجات ہے ان کی منظم، محتاط فکر و عمل سے بھرپور وہ تحریریں ہیں جن کے دلائل وزن دار روشن خیال اور معتدل تھے جس نے ہزاروں سالوں سے جکڑے ہوئے انسانوں کو موروثی اور طاقت کے ظلم و جبر پر مبنی غلامی سے آزاد کروایا ان ہی لوگوں نے توہم پرستی ضعیف الاعتقادی کا خاتمہ کر کے روشن خیالی کو جنم دیا، مذہبی مکاریوں کے دور کا خاتمہ کر کے مطلق العنانی کے سب سے اہم محرک کا خاتمہ کر دیا۔
روسو نے معاہدہ عمرانی کے ذریعے ثابت کیا کہ ریاست عوام کی سالمیت اور خود مختاری کے تصور کے تحت وجود میں آئی ہے۔ ریاست کے قوانین عوام کی امنگوں، تمناؤں اور ارادوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ چونکہ آزادی و خودمختاری انسان کا پیدائشی حق ہے جسے کوئی حکمران نہیں چھین سکتا اور اگر کوئی حکومت مذکورہ بالا عہد و پیمان کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو اس حکمران کو حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں عوام اسے اقتدار سے الگ کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا جمہوریت کے بانیوں کے واضح ارشادات کی روشنی میں ہمارے موجودہ نام نہاد جمہوری حکمران عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق موجودہ جمہوری ڈھانچے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرانے کی فوری جدوجہد کریں۔ جمہوریت غریب عوام کا حق حکمرانی ہے اسے بتدریج عوام کے حقیقی نمایندوں کو منتقل کریں عوام کو مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور جانی اور مالی تحفظ فراہم کرنے کی مخلصانہ جدوجہد کریں۔ عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں اور انھیں سڑکوں سے اپنے گھروں میں منتقل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دیں چونکہ اب اپنے بڑے بڑے محلات میں رہ کر صرف سحر انگیز تقاریر سے عوام پر حکمرانی کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اور وقت چیخ چیخ کر ملک میں مثبت تبدیلی کا تقاضا کر رہا ہے۔ خدارا! اس طرف توجہ دیجیے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
فرانسیسی شہنشاہ لوئی چہاردہم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے بستر مرگ پر اپنے پوتے لوئی پانزدہم سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ میرے بچے! اپنے پڑوسیوں سے پرامن رہنے کی کوشش کرنا، میری طرح جنگ جوئی کی تقلید نہ کرنا اور نہ ہی اتنی فضول خرچی کرنا جتنی میں نے کی اور جتنی جلدی ہو سکے عوام پر پڑے ہوئے بوجھ (ٹیکس) کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا۔
انقلاب فرانس دراصل انسانی آزادی کی وہ زبردست تحریک تھی جس کا آغاز 4 جولائی 1789ء کو ہوا جب پیرس کے عوام نے شورش برپا کر کے پیرس کے مشہور جیل خانہ پر حملہ کر کے اسے منہدم کر دیا۔ جمہوریت، حریت اور آزادی کے نظریات نے اسی انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا یہی وہ انقلاب تھا جس نے انسان کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے کی قابل تقلید مثال کو قائم کیا۔
اس انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کا سب سے اہم ترین سبب اس معاشرے میں قائم وہ شدید عدم مساوات معاشرہ واضح طور پر دو طبقات میں منقسم تھا ایک اعلیٰ ترین مراعات یافتہ طبقہ جو بغیر محنت اور صلاحیت کے قومی پیداوار کا 80 فیصد حصے کا مالک بن جاتا تھا۔ آبادی کا انتہائی قلیل حصہ ہونے کے باوجود تمام قوت اور اختیارات کا مالک تھا جب کہ باقی تمام اکثریتی آبادی شدید محنت و مشقت کے باوجود اپنی بنیادی ضرورتوں سے یکسر محروم تھی۔
مذہبی لیڈران بادشاہ وقت کے خلاف پنپنے والے باغیانہ خیالات کو مذہبی گناہ قرار دے کر ان کی دنیا میں سرزنش کرواتے اور بادشاہ کے ظلم و ستم کو ان کی تقدیر میں لکھی ہوئی عارضی مشکلات سے تعبیر کر کے ان کے باغیانہ خیالات کو پروان چڑھنے سے روکنے کے عمل میں مصروف رکھ کر بادشاہ وقت سے اپنی وفاداری کے اس عمل کا پورا پورا معاوضہ وصول کرتے تھے مگر مکمل ظلم و جبر اور اپنی بے پناہ فوجی قوت کے باوجود بھی وہ اس انقلابی مسلح جدوجہد کا راستہ نہ روک سکے۔
11 مئی کی پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے عوامی احتجاج کو چند ہزار لوگوں پر مشتمل افراد کا مجمع کہنے والے اور مصنوعی جمہوریت کو اپنی موجودہ شکل و صورت میں برقرار رکھنے والے موجودہ سیاسی حکمران اپنے فہم اور سیاسی تدبر سے مستقبل قریب میں وقوع پذیر ہونے والے خونی انقلاب کے آثار کو حقیقی طور پر محسوس کریں اور ان وجوہات کا فوری ازالہ کرنے کی حکمت عملی اپنائیں اور عوام میں تیزی سے مقبول ہونے والے سیاسی رہنماؤں کا مذاق اڑانے اور انھیں Underestimate کرنے کے بجائے عوام کو فوری طور پر ریلیف فراہم کرنے کی جدوجہد کریں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ عوام الناس میں شدید بے چینی اور مایوسی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اشیا خور و نوش کا حصول بھی ایک غریب آدمی کی دسترس میں نہیں ہے، ہر مہینے پٹرول کی قیمت میں رد و بدل کی وجہ سے اشیائے ضرورت مہنگی تو ضرور ہوتی ہیں مگر جب پٹرول کی قیمت کم کی جاتی ہے تو مہنگی ہونے والی اشیا سستی نہیں ہوتیں۔ بجلی کی قیمت دگنی کرنے کے باوجود بھی بجلی سولہ سولہ گھنٹے میسر نہیں، وہاں عام آدمی کے ہوش اڑا دینے والے بجلی کے بل باقاعدگی سے ضرور ملتے ہیں۔ کروڑوں لوگ بے روزگار بیٹھے ہیں جن میں لاکھوں لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی ضد لیے بیٹھے ہیں۔ اور ان میں ہر سال لاکھوں نوجوانوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر یہ نوجوان جرائم اور منشیات کی طرف راغب ہو گئے تو مستقبل کا پاکستان دنیائے عالم میں کس مقام پر کھڑا ہو گا بھوک پیاس سے تنگ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو غربت و افلاس کی وجہ سے زہر دینے پر مجبور ہیں اپنی تمام تر قوت اور اختیارات کے باوجود ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جرائم اور قتل و غارت گری کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے عدم تحفظ اور خوف کی وجہ سے بڑے سے بڑے مجرموں، قاتلوں اور بھتہ وصول کرنے والوں کے خلاف لوگ گواہی دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
ملکی و قومی پیداوار میں 25 سے تیس 30 فیصد حصہ ڈالنے والے کسان اور 18 سے 20 فیصد حصہ ڈالنے والے مزدور کی جمہوریت کے نام پر قائم پارلیمنٹ میں نمایندگی ہی نہ ہونے کے برابر ہے دن رات اپنا خون پسینہ بہا کر قومی پیداوار میں اضافہ کرنے والے اپنی ذاتی چھت سے عشروں سے محروم ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں ان کے حقوق کی جدوجہد کرنے کا حق ان زمینداروں اور کارخانہ داروں نے عطا کیا ہے جو ان کسانوں اور مزدوروں کو اپنی زمین اور جائیداد پر اپنا گھر بنانے کی اجازت تک دینے پر تیار نہیں ہوتے، یہی حال سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کا ہے جو ملک کی حفاظت پر مامور ہے۔ جو ملک کے اندرونی جرائم کو ختم کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں اور جو تمام ملکی انتظامی معاملات کو چلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس کہ ان چھوٹے درجے کے ریٹائرڈ ملازمین کی بھی پارلیمنٹ میں کوئی نمایندگی ہی نہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اپنے وطن سے دور بیٹھے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کی نمایندگی تو کجا انھیں ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں جو ہر سال پاکستان میں بارہ سے پندرہ ارب ڈالر کا سرمایہ بھیجتے ہیں، کوئی بھی غریب پاکستانی اچھی صحت اور اعلیٰ تعلیم کو سرکاری سطح پر حاصل کرنے سے محروم ہے۔ خدانخواستہ اگر کوئی وبا پھوٹ پڑے تو سیکڑوں پاکستانی اس وبا سے زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ملکی ذرایع آمد و رفت میں سڑکیں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو ہلکی سی بارش کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مگر انھیں مرمت کر کے ٹھیک کرنے کے بجائے بڑے بڑے شہروں میں اپنے کمیشن کے حصول کی خاطر نئی نئی سڑکیں اور پل بنا دیے جاتے ہیں۔ کیا یہی حقیقی جمہوریت ہے جس کے نام پر ہر بار عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی جمہوریت دو چار الیکشن کے بعد ملک کی تقدیر بدل ڈالے گی؟
جناب عالی! 11 مئی کے احتجاج نے ایسی لوٹ کھسوٹ پر مبنی جعلی اور دکھاوے کی جمہوریت کو مسترد کرنے کی ابتدا کر دی ہے عوام کو مطمئن نہ کیا تو اس کی انتہا یقینا انقلاب ہو گی۔ حقیقی جمہوریت والٹیئر اور روسو کی ذہنی جسمانی اور ابلاغی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے محنت کش طبقات کے لیے ایک بہترین تحفہ اور راہ نجات ہے ان کی منظم، محتاط فکر و عمل سے بھرپور وہ تحریریں ہیں جن کے دلائل وزن دار روشن خیال اور معتدل تھے جس نے ہزاروں سالوں سے جکڑے ہوئے انسانوں کو موروثی اور طاقت کے ظلم و جبر پر مبنی غلامی سے آزاد کروایا ان ہی لوگوں نے توہم پرستی ضعیف الاعتقادی کا خاتمہ کر کے روشن خیالی کو جنم دیا، مذہبی مکاریوں کے دور کا خاتمہ کر کے مطلق العنانی کے سب سے اہم محرک کا خاتمہ کر دیا۔
روسو نے معاہدہ عمرانی کے ذریعے ثابت کیا کہ ریاست عوام کی سالمیت اور خود مختاری کے تصور کے تحت وجود میں آئی ہے۔ ریاست کے قوانین عوام کی امنگوں، تمناؤں اور ارادوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ چونکہ آزادی و خودمختاری انسان کا پیدائشی حق ہے جسے کوئی حکمران نہیں چھین سکتا اور اگر کوئی حکومت مذکورہ بالا عہد و پیمان کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو اس حکمران کو حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں عوام اسے اقتدار سے الگ کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا جمہوریت کے بانیوں کے واضح ارشادات کی روشنی میں ہمارے موجودہ نام نہاد جمہوری حکمران عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق موجودہ جمہوری ڈھانچے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرانے کی فوری جدوجہد کریں۔ جمہوریت غریب عوام کا حق حکمرانی ہے اسے بتدریج عوام کے حقیقی نمایندوں کو منتقل کریں عوام کو مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور جانی اور مالی تحفظ فراہم کرنے کی مخلصانہ جدوجہد کریں۔ عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں اور انھیں سڑکوں سے اپنے گھروں میں منتقل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دیں چونکہ اب اپنے بڑے بڑے محلات میں رہ کر صرف سحر انگیز تقاریر سے عوام پر حکمرانی کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اور وقت چیخ چیخ کر ملک میں مثبت تبدیلی کا تقاضا کر رہا ہے۔ خدارا! اس طرف توجہ دیجیے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔