اپنے گھر میں اجنبی
ہمارے یہ بھائی بھی کوئی کم مظلوم نہیں اور یہ لاتعداد کیس آپ کو خود اپنے آس پاس نظر آئیں گے
گارڈ چاچا گاؤں چلے گئے اور اس بار وہ چھٹی نہیں گئے بلکہ یہاں سے ان کی جاب ہی ختم ہو گئی جو وہ گزشتہ پندرہ سال سے کر رہے تھے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک۔ پندرہ سال پہلے وہ پاک فوج میں تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ گارڈ کی جاب کے لیے ہمارے محلے میں دن بھر کی ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔ رات کے لیے ایک دوسرے گارڈ ہیں۔ یہ گارڈز محلے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت رکھے تھے کیونکہ ان دنوں بھی حالات کچھ خاص اچھے نہیں تھے۔
چوریاں، ڈکیتیاں عام بات تھی۔ خیر تو بات ہو رہی تھی گارڈ چاچا کی۔ گزشتہ 15 سالوں میں انھوں نے نیک نامی ہی کمائی۔ سب کے کام آنا ان کا شیوہ رہا اور پھر سارا محلہ ان کا عادی اور گرویدہ ہوتا چلا گیا آج ان کی عمر کوئی 80 کے لگ بھگ ہو گی اور جب یہ آئے تھے تب بھی عمر رسیدہ ہی تھے۔ ہمیں بہت احساس ہوتا تھا کہ پوری زندگی محنت کر کے بندہ ریٹائر ہوا تو اس کو اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ آرام کی زندگی گزارنا چاہیے۔
مگر یہ ہیں کہ پھر بھی کام کیے جا رہے ہیں نہ جانے کیا مجبوری ہے کہ یہ اپنے علاقے سے (جو کہ صوبہ سرحد میں ہے) بہت دور یہاں رہ رہے ہیں اپنوں سے دور، کوئی تکلیف ہو کچھ ہو بس اکیلے سہے جا رہے ہیں۔ نہ گھر کا کھانا، نہ گھر کا آرام، نہ بیوی بچوں کا ساتھ، بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹے جا رہے ہیں۔ میرے بچے چونکہ چھوٹے سے بڑے ان کے سامنے ہوئے۔ اس لیے میرے بچے اور میں ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ بھی میرے بچوں کو بہت پیار اور عزت سے مخاطب کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دکھ اور خوشیاں باری باری آئیں اور یہ سب میں ہمارے کام آتے رہے۔
اب اتنے سالوں بعد جب جانے والے تھے تو پتہ چلا کہ وہاں ان کی بیوی ہے ، 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں، دو بیٹے فوج میں ہیں ایک کا اپنا کاروبار ہے۔ اور چوتھا بھی کچھ کام کرتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ یہاں پڑے ہوئے ہیں؟ ایک بار گر گئے اور ناک کی ہڈی مڑ گئی تو میرا بیٹا اسپتال لے گیا اور جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، تب ہم یہ جان کر چپ رہے کہ پردیس میں رہ کر چار پیسے کمانا ان کی کوئی مجبوری ہو گی۔ مگر آخر میں یہ پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا، تو پھر کیا تھا؟
ایک عورت ہونے کی حیثیت سے ہم ہمیشہ ہی عورت کو مظلوم سمجھتے ہیں اور اس کا دفاع کرنے میں دروغ گوئی کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ مگر آپ ان مردوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی بھرپور جوانی میں اپنے گھر کی ٹھنڈی چھاؤں کو الوداع کہہ کر اپنے بچوں کو دنیا کے سرد و گرم سے بچانے کے لیے خود اپنے لیے آزمائش سے بھرپور ایک زندگی کا انتخاب کر لیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ بس چند سال اپنے گھر اپنے وطن سے دور رہ کر کما لوں پھر واپس تو گھر ہی آنا ہے۔
اسی سوچ کے ساتھ یہ نکل پڑتے ہیں صرف دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کے لیے، پھر کیا ہوتا ہے، کچھ عرصہ گھر والے ان کو مس کرتے ہیں، پھر عادت ڈال لیتے ہیں ان کے بغیر رہنے کی، اور پھر عادی ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ دونوں ہی عادی ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ کوئی ایک، اور پھر ان کی اپنے گھر میں کوئی جگہ نہیں رہتی۔ جو کماتے ہو بھیجتے رہو، آنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کا رویہ اپنا لیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سال میں ایک بار چھٹی پر آؤ اور چلے جاؤ، اس سے زیادہ کی امید نہ رکھو۔ یہ باقاعدہ کہا نہیں جاتا بلکہ رویے اس کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔
صرف گارڈ چاچا ہی تک محدود نہیں، یہ ہر اس انسان کی بات ہو رہی ہے جو گھر والوں کی خاطر، گھر چھوڑ کر نکلتا ہے، ہمیں چاروں طرف ایسے دکھ پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ موچی کی صورت میں، بھٹے والے کی شکل میں، پرائیویٹ گارڈز، سلائی کے کاریگر، فروٹ والے، سبزی والے، چائے کی دکان پر کام کرنے والے اور بے شمار اسی طرح کے لوگ اکیلے پن کا شکار کہ جن کو زندگی کے کچھ سال تو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ فیملی سے ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں، باقی ہے تو نوٹ کے حوالے سے نام کا رشتہ باقی ہے۔ کون کہتا ہے کہ صرف عورت مظلوم ہے۔
ہمارے یہ بھائی بھی کوئی کم مظلوم نہیں اور یہ لاتعداد کیس آپ کو خود اپنے آس پاس نظر آئیں گے۔ جو بڑھاپے میں اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں ہوتے ہوئے بھی اس سے محروم ہیں۔ اس سب کی وجوہات میں کون سی بات ہے جس کو اولیت دی جائے گی۔ وسائل اور روزگار کی کمی۔ تعلیم سے دوری، بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی طور پر افراد کا غریب سے غریب تر ہوتے چلے جانا۔
غیر ضروری طور پر اپنے چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کو نقل مکانی یا کچھ اور جس کے باعث یہ ہمارے بھائی پہلے اپنے گھروں سے نکل کر اجنبی شہروں اور لوگوں میں آ جاتے ہیں اس کے بعد اپنے ہی گھروں اور گھر والوں کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں نوجوان نسل سے التماس ہے کہ بڑوں کی غلطیوں یا غلط فیصلوں سے نصیحت حاصل کریں اور اب کچھ اور نئے راستے اور جہتیں تلاش کریں تا کہ اپنے ہی گھروں کے بھٹکے ہوئے مسافر نہ بن کر رہ جائیں اور ان مخیر حضرات سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ خدارا! ایسے تمام افراد جن جن لوگوں سے وابستہ ہیں یا اطراف میں سانس لیتے ہیں ان کی فلاح و بہبود کے لیے انفرادی طور پر کچھ نہ کچھ سے بھی بڑھ کر کریں اور ایسے افراد کی تکلیف اپنے دل پر محسوس کریں۔
چوریاں، ڈکیتیاں عام بات تھی۔ خیر تو بات ہو رہی تھی گارڈ چاچا کی۔ گزشتہ 15 سالوں میں انھوں نے نیک نامی ہی کمائی۔ سب کے کام آنا ان کا شیوہ رہا اور پھر سارا محلہ ان کا عادی اور گرویدہ ہوتا چلا گیا آج ان کی عمر کوئی 80 کے لگ بھگ ہو گی اور جب یہ آئے تھے تب بھی عمر رسیدہ ہی تھے۔ ہمیں بہت احساس ہوتا تھا کہ پوری زندگی محنت کر کے بندہ ریٹائر ہوا تو اس کو اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ آرام کی زندگی گزارنا چاہیے۔
مگر یہ ہیں کہ پھر بھی کام کیے جا رہے ہیں نہ جانے کیا مجبوری ہے کہ یہ اپنے علاقے سے (جو کہ صوبہ سرحد میں ہے) بہت دور یہاں رہ رہے ہیں اپنوں سے دور، کوئی تکلیف ہو کچھ ہو بس اکیلے سہے جا رہے ہیں۔ نہ گھر کا کھانا، نہ گھر کا آرام، نہ بیوی بچوں کا ساتھ، بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹے جا رہے ہیں۔ میرے بچے چونکہ چھوٹے سے بڑے ان کے سامنے ہوئے۔ اس لیے میرے بچے اور میں ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور یہ بھی میرے بچوں کو بہت پیار اور عزت سے مخاطب کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دکھ اور خوشیاں باری باری آئیں اور یہ سب میں ہمارے کام آتے رہے۔
اب اتنے سالوں بعد جب جانے والے تھے تو پتہ چلا کہ وہاں ان کی بیوی ہے ، 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں، دو بیٹے فوج میں ہیں ایک کا اپنا کاروبار ہے۔ اور چوتھا بھی کچھ کام کرتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ یہاں پڑے ہوئے ہیں؟ ایک بار گر گئے اور ناک کی ہڈی مڑ گئی تو میرا بیٹا اسپتال لے گیا اور جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، تب ہم یہ جان کر چپ رہے کہ پردیس میں رہ کر چار پیسے کمانا ان کی کوئی مجبوری ہو گی۔ مگر آخر میں یہ پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا، تو پھر کیا تھا؟
ایک عورت ہونے کی حیثیت سے ہم ہمیشہ ہی عورت کو مظلوم سمجھتے ہیں اور اس کا دفاع کرنے میں دروغ گوئی کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ مگر آپ ان مردوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی بھرپور جوانی میں اپنے گھر کی ٹھنڈی چھاؤں کو الوداع کہہ کر اپنے بچوں کو دنیا کے سرد و گرم سے بچانے کے لیے خود اپنے لیے آزمائش سے بھرپور ایک زندگی کا انتخاب کر لیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ بس چند سال اپنے گھر اپنے وطن سے دور رہ کر کما لوں پھر واپس تو گھر ہی آنا ہے۔
اسی سوچ کے ساتھ یہ نکل پڑتے ہیں صرف دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کے لیے، پھر کیا ہوتا ہے، کچھ عرصہ گھر والے ان کو مس کرتے ہیں، پھر عادت ڈال لیتے ہیں ان کے بغیر رہنے کی، اور پھر عادی ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ دونوں ہی عادی ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ کوئی ایک، اور پھر ان کی اپنے گھر میں کوئی جگہ نہیں رہتی۔ جو کماتے ہو بھیجتے رہو، آنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کا رویہ اپنا لیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سال میں ایک بار چھٹی پر آؤ اور چلے جاؤ، اس سے زیادہ کی امید نہ رکھو۔ یہ باقاعدہ کہا نہیں جاتا بلکہ رویے اس کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔
صرف گارڈ چاچا ہی تک محدود نہیں، یہ ہر اس انسان کی بات ہو رہی ہے جو گھر والوں کی خاطر، گھر چھوڑ کر نکلتا ہے، ہمیں چاروں طرف ایسے دکھ پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ موچی کی صورت میں، بھٹے والے کی شکل میں، پرائیویٹ گارڈز، سلائی کے کاریگر، فروٹ والے، سبزی والے، چائے کی دکان پر کام کرنے والے اور بے شمار اسی طرح کے لوگ اکیلے پن کا شکار کہ جن کو زندگی کے کچھ سال تو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ فیملی سے ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں، باقی ہے تو نوٹ کے حوالے سے نام کا رشتہ باقی ہے۔ کون کہتا ہے کہ صرف عورت مظلوم ہے۔
ہمارے یہ بھائی بھی کوئی کم مظلوم نہیں اور یہ لاتعداد کیس آپ کو خود اپنے آس پاس نظر آئیں گے۔ جو بڑھاپے میں اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں ہوتے ہوئے بھی اس سے محروم ہیں۔ اس سب کی وجوہات میں کون سی بات ہے جس کو اولیت دی جائے گی۔ وسائل اور روزگار کی کمی۔ تعلیم سے دوری، بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی طور پر افراد کا غریب سے غریب تر ہوتے چلے جانا۔
غیر ضروری طور پر اپنے چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کو نقل مکانی یا کچھ اور جس کے باعث یہ ہمارے بھائی پہلے اپنے گھروں سے نکل کر اجنبی شہروں اور لوگوں میں آ جاتے ہیں اس کے بعد اپنے ہی گھروں اور گھر والوں کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں نوجوان نسل سے التماس ہے کہ بڑوں کی غلطیوں یا غلط فیصلوں سے نصیحت حاصل کریں اور اب کچھ اور نئے راستے اور جہتیں تلاش کریں تا کہ اپنے ہی گھروں کے بھٹکے ہوئے مسافر نہ بن کر رہ جائیں اور ان مخیر حضرات سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ خدارا! ایسے تمام افراد جن جن لوگوں سے وابستہ ہیں یا اطراف میں سانس لیتے ہیں ان کی فلاح و بہبود کے لیے انفرادی طور پر کچھ نہ کچھ سے بھی بڑھ کر کریں اور ایسے افراد کی تکلیف اپنے دل پر محسوس کریں۔