سینیٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرارداد منظور
سولین کی عسکری تنصیبات پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے، قرارداد
سینیٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرار داد منظور کرلی گئی۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر دلاور کی جانب سے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائیاں فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے۔
قرارداد میں سپریم کورٹ کی رولنگ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے خلاف قرار دے دیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سولین کی عسکری تنصیبات پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے اور اس ضمن میں آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 سے موجود ہے۔
فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلےسے دہشت گردی کو فروغ ملے گا، قرار داد
سینیٹ میں منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں تھا، فیصلے میں قانونی ابہام ہے اس لیے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلےسے دہشت گردی کو فروغ ملے گا اورسپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کے اختیارت میں مداخلت کا تاثر ملا ہے۔
سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق نے ایوان بالا میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔ دونوں سینیٹرز نے ایوان بالا میں بات کرنا چاہی لیکن چیئرمین سینیٹ نے اجازت نہیں دی اور اجلاس کل صبح ساڑے دس بجے تک کیلیے ملتوی کردیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار
خیال رہے کہ 23 اکتوبر کر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر بینچ نے سنایا تھا جس میں جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر دلاور کی جانب سے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائیاں فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے۔
قرارداد میں سپریم کورٹ کی رولنگ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے خلاف قرار دے دیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سولین کی عسکری تنصیبات پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے اور اس ضمن میں آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 سے موجود ہے۔
فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلےسے دہشت گردی کو فروغ ملے گا، قرار داد
سینیٹ میں منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں تھا، فیصلے میں قانونی ابہام ہے اس لیے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلےسے دہشت گردی کو فروغ ملے گا اورسپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کے اختیارت میں مداخلت کا تاثر ملا ہے۔
سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق نے ایوان بالا میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔ دونوں سینیٹرز نے ایوان بالا میں بات کرنا چاہی لیکن چیئرمین سینیٹ نے اجازت نہیں دی اور اجلاس کل صبح ساڑے دس بجے تک کیلیے ملتوی کردیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار
خیال رہے کہ 23 اکتوبر کر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر بینچ نے سنایا تھا جس میں جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔