بیدی کی یاد میں

اُن کا آج کل کے کرکٹرز سے موازنہ کیا جائے تو بڑا دکھ ہوتا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

آسمان کرکٹ کا ایک درخشاں ستارہ غروب ہوگیا۔ بشن سنگھ بیدی23اکتوبر، 2023 کو دہلی میں انتقال کرگئے، وہ 25 ستمبر 1946 کو بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ایک سست بائیں ہاتھ کے آرتھوڈوکس بائولر تھے۔اُن کے انتقال کے ساتھ ہی کرکٹ کا ایک سنہری باب اختتام کو پہنچا،اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک پیدائشی کرکٹر تھے تو شاید مبالغہ نہ ہو۔

ایسے باکمال کھلاڑی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ اُن کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے:

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز صرف پندرہ سال کی عمر میں شمالی پنجاب کے لیے کھیل کر کیا، وہ 1968-69 میں دہلی چلے گئے اور رنجی ٹرافی کے 1974-75 سیزن میں، انھوں نے ریکارڈ 64 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے کئی سال تک انگلش کاؤنٹی کرکٹ میں نارتھمپٹن شائر کی نمایندگی بھی کی۔

انھوں نے اپنے کیریئر کا اختتام اوّل درجہ کرکٹ میں 1560 وکٹوں کے ساتھ کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ وہ ایک باکمال اسپن باؤلر تھے، اُن کی باؤلنگ میں غیر معمولی تنوع تھا جس کی وجہ سے اکثر بلے باز دھوکا کھا کر آؤٹ ہوجاتے تھے۔ اُن کی باؤلنگ اُن کے ایکشن کی جادوگری تھی جس کے آگے اچھے اچھے بلے باز چکرا جاتے تھے،وطن عزیز میں عبدالقادر اِس کی دوسری مثال تھے۔اُن کا مخصوص باؤلنگ ایکشن اِس قدر ریلیکس تھا کہ وہ تمام دن باؤلنگ کرنے کے باوجود کوئی تھکن محسوس نہیں کرتے تھے، یہ اُن کی خداداد صلاحیت تھی۔

وہ ایک ٹھنڈے مزاج کے انسان اور کھلاڑی تھے۔ غصہ اُن کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ اُن کی معتدل مزاجی نے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے بہت فائدہ پہنچایا۔ سچ پوچھیے تو یہ خوبی بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صفت کسی بھی انسان کا اثاثہ بلکہ کامیابی کی کُنجی ہوتی ہے۔اُن کی گیند بازی (بولنگ) 1969-70 میں کلکتہ میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے میچ میں اپنے عروج پر تھی اور 1977-78 میں پرتھ میں آسٹریلیا کے خلاف بھی ان کے بہترین میچ کے اعداد و شمار 10/194 تھے۔

بنیادی طور پر بشن سنگھ بیدی ایک اسپن باؤلر تھے اور بحیثیت بلے باز اُن سے کسی بڑے اسکور کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ،تاہم انھوں نے 1976 میں کانپور میں نیوزی لینڈ کے خلاف واحد نصف سنچری اسکور کی جو اُن کی زندگی کا سب سے بڑا ریکارڈ تھا۔ اُن کا دھیما مزاج اور دھیمی گیند بازی تیز سے تیز بلے باز کو باآسانی شکار کر لیتی تھی اور یہی اُن کا ہتھیار تھا۔

بیدی کو منصور علی خان پٹودی کی جگہ 1976 میں بھارت کا کپتان مقرر کیا گیا۔ بطور کپتان ان کی پہلی ٹیسٹ فتح پورٹ آف اسپین میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 1976 کی سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں تھی جس میں بھارت نے چوتھی اننگز میں اس وقت کا ریکارڈ 406 رنز بنائے تھے۔ اس کے بعد ہوم گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز 2-0 سے جیتی گئی۔ تاہم، انگلینڈ ( 3-1)، آسٹریلیا (3-2 ) اور پاکستان (2-0 ) سے کامیاب ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد، ان کی جگہ سنیل گواسکر کو کپتان بنایا گیا۔ بیدی ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز اسپنر لانس گبز کے بعد دنیا کے کامیاب ترین اسپنر تسلیم کیے جاتے ہیں۔


بیدی نے جدید کرکٹ کے کئی پہلوؤں پر بے اطمینانی کا اظہار کیا تاہم یہ اُن کی ذاتی رائے تھی۔ انھوں نے سری لنکا کے مشہور باؤلر متھیا مرلی دھرن کی باؤلنگ پر بھی اعتراض کیا۔انھوں نے 1966ء سے 1979ء تک بھارت کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی اور مشہور ہندوستانی اسپن کوارٹیٹ کا حصہ بنایا۔ انھوں نے کل 67 ٹیسٹ کھیلے اور 266 وکٹیں حاصل کیں۔

انھوں نے 22 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی کپتانی بھی کی۔ بھارتی کرکٹ کی بہترین خدمات انجام دینے کے صلہ میں انھیں 1970 میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2004 میں انھیں سی کے نائیڈو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

صرف بھارتی کرکٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کی خدمات کے حوالہ سے بھی بشن سنگھ بیدی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اِس وقت ہمیں غالبؔ کا یہ شعر یاد آرہا ہے جس میں انھوں نے انسانیت کی جانب اشارہ کیا ہے:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

بشن سنگھ بیدی نہ صرف ایک بہت بڑے کرکٹ کھلاڑی تھے بلکہ وہ ایک عظیم اور مثالی انسان بھی تھے۔ مَرَنجاں مَرَنج ہونے کے علاوہ وہ خاکساری اور انکساری کا بھی پیکر تھے۔ اُن سے مل کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کتنے بڑے کھلاڑی تھے۔اُن کے آتے ہی محفل زعفران زار ہو جاتی تھی اور اُن کی موجودگی کی خوشبو مُشک کی طرح ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ ہنسنا اور ہنسانا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔

لفظ تعصب اُن کی لغت میں شامل نہ تھا، وہ ایک وسیع المشرب انسان تھے، وہ جس سے بھی ملتے تھے دل کا دروازہ کھول کر ملتے تھے۔ تکبر اور تنگ نظری اُن کو چھو بھی نہیں سکتی تھی۔ بشن سنگھ بیدی ایک باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ اُن کی رفیقہ حیات کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو کبھی مشتعل ہوتے نہیں دیکھا۔ اُن کی خوبیوں کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی شریک حیات کے بقول وہ نہ صرف ایک مثالی شوہر بلکہ ایک بلند پایہ انسان بھی تھے۔

اُن کا آج کل کے کرکٹرز سے موازنہ کیا جائے تو بڑا دکھ ہوتا ہے کیونکہ یہ کھلاڑی کسی سے سیدھے منہ بات کرنے کے روادار بھی نہیں ہیں۔ اِن کے دماغ ساتویں آسمان پر ہیں اور اُن کی غالب اکثریت انسانیت کے جامہ سے باہر نظر آتی ہے۔ شہرت اور دولت نے انھیں انسان سے نہ جانے کیا بنا دیا ہے۔
Load Next Story