پنجاب بلدیاتی انتخابات سے محروم کیوں 

تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے مگر پنجاب کو بلدیاتی اختیارات اور انتخابات سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

سندھ، کے پی اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے اور وہاں یوسیز، تحصیل، ٹاؤن، میونسپل اور ضلع کونسلیں قائم ہو چکیں مگر تینوں کے بلدیاتی نظام مختلف اور سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات ان کے پاس نہیں ہیں۔

1973 کے آئین کی شق 14-A کے تحت تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ اپنے صوبوں میں سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات کی حامل مقامی حکومتیں قائم کریں اور مدت مکمل ہونے پر بلدیاتی انتخابات کرائیں مگر تینوں صوبوں میں ایک بھی بااختیار مقامی حکومت موجود نہیں۔

دنیا بھر میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں ہوتی ہیں اور ان تینوں حکومتوں میں عوام کا سب سے زیادہ تعلق مقامی حکومتوں سے ہوتا ہے۔ جنرل پرویز کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے نظام میں تمام بلدیاتی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں اور گرانٹس وفاقی حکومت فراہم کرتی تھی۔

چاروں صوبوں میں ایک جیسی سٹی اور ضلعی حکومتیں تھیں جن کے منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات حاصل تھے وہ صوبوں کی محتاج نہیں تھیں۔ جس کی وجہ سے صوبائی حکومتیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور بیورو کریسی سخت ناراض مگر مجبور تھی کیونکہ ملک بھر سے کمشنری نظام ختم کردیا گیا تھااور بلدیات کے صوبائی محکمے ضلعی حکومتوں کے امور میں مداخلت نہیں کرسکتے تھے۔


صوبائی حکومتوں کے غیر آئینی فیصلوں کے خلاف اپیلیں پہلے ہائی کورٹس پھر سپریم کورٹ میں ہوتی ہیں اس لیے منتخب بلدیاتی عہدیداروں نے بلدیاتی اختیارات آئین کے تحت نہ ملنے، صوبائی حکومتوں کے غیر آئینی اقدامات اور پی ٹی آئی حکومت نے آتے ہی پنجاب کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو اس لیے برطرف کردیا تھا کہ ان کی اکثریت مسلم لیگ (ن) کی تھی جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا مگر کسی نے عوام کے سب سے اہم بلدیاتی مسائل پر فوری توجہ نہ دی۔

سالوں بعد سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آیا جس پر پنجاب حکومت نے عمل نہ کیا۔ پنجاب حکومت نے توہین عدالت کی جس کی اپیل کا فیصلہ تب آیا جب بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے میں دو ماہ رہ گئے تھے۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو پی ٹی آئی حکومت نے ایک سال بھی کام کرنے نہ دیا تھا پہلے ان کے اختیارات کم کیے بعد میں ادارے توڑ دیے۔ آئین کی کھلی خلاف ورزی پر کسی نے فوری ایکشن لیا نہ بلدیاتی عہدیداروں کی اپیلیں فوری سنیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی۔

سندھ واحد صوبہ تھا جس نے بلدیاتی اداروں کو مدت اس لیے پوری کرنے دی کہ سندھ میں بلدیاتی عہدیداروں کی واضح اکثریت پیپلز پارٹی کی تھی اور پنجاب و کے پی کی پی ٹی آئی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو مدت پوری نہیں کرنے دی مگر دو سال قبل کے پی حکومت نے بلدیاتی انتخابات ضرور کرا دیے تھے۔کسی کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ باقی تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے مگر پنجاب کو بلدیاتی اختیارات اور انتخابات سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔

پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت چیئرمین پی ٹی آئی کی ضد سے ٹوٹیں تو بعد ازاں کہا گیا کہ نوے روز میں وہاں صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہونے چاہئیں مگر ترجیح صرف پنجاب کو دی گئی اور کے پی کو نظرانداز کیا گیا کیونکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے ہی وفاقی حکومت بنتی ہے باقی تین صوبوں کے اسمبلی انتخابات مل کر بھی وفاقی حکومت نہیں بنا سکتے اس لیے چیئرمین پی ٹی آئی کے منصوبے کے تحت وہ صرف اسی صورت میں دوبارہ اقتدار میں آسکتے تھے اور ان کے ہم خیال گروپ نے صرف پنجاب میں صوبائی انتخابات کرانے کی بھرپور کوشش کی جس کی تکمیل پارلیمنٹ نے نہ ہونے دی۔

پنجاب اسمبلی اس سال مارچ میں تڑوائی گئی جس کی بقایا مدت ڈیڑھ سال تھی مگر پنجاب کے بلدیاتی ادارے دو سال قبل مدت پوری کرچکے تھے ۔ اگر فوری ایکشن لیا جاتا تو آج پنجاب اپنے بلدیاتی انتخابات سے محروم نہ ہوتا اور پنجاب میں بھی دیگر صوبوں کی طرح وقت پر بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہوتے مگر پنجاب میں اس آئینی خلاف ورزی پر توجہ نہ دی گئی جس کی اشد ضرورت تھی۔
Load Next Story