ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لڑائی جعلی یا اصلی
ن لیگ کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ مخالف بیانیہ پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے
پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان سیاسی اختلاف جعلی ہے یا اصلی۔ بہت سے دوستوں کی رائے ہے کہ یہ اختلاف جعلی ہے۔ یہ اختلاف صرف ووٹر کو دکھانے کے لیے ہے۔ ورنہ اندر سے دونوں سیاسی جماعتیں ایک ہیں۔ اس وقت ملک میں انتخابات ہیں۔ اس لیے اس انتخابی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں جماعتیں سیاسی محاذ آرائی کا ماحول بنا رہی ہیں۔
لیکن میں دوستوں کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں۔ اگر ایسا ہو تو دونوں طرف سے محاذ آرائی کی جائے۔ جس طرح پیپلزپارٹی ن لیگ پر لاڈلا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے ایسے ہی جواب میں ن لیگ بھی پیپلز پارٹی پر الزامات لگائے تا کہ محاذ آرائی کا مکمل ماحول تو بن سکے۔ ووٹر کی اختلاف کی پیاس تو بجھ سکے۔ لیکن جواب میں ن لیگ تو خاموش ہے۔ وہ تو جواب میں کچھ کہہ ہی نہیں رہے۔ بلکہ جب میڈیا ان سے سوال کرتا ہے تو وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تو آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح جہاں پیپلزپارٹی ماحول کو گرمانے کی کوشش کر رہی ہے وہاں ن لیگ اسے ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لیے جن دوستوں کی یہ رائے ہے کہ ایسا دونوں جماعتیں مل کر کر رہی ہیں۔ درست نہیں۔ یہ ابھی تک پیپلزپارٹی کی یک طرفہ کوشش ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ اس کا جواب کیوں نہیں دے رہی اور پیپلزپارٹی کو ایسا کرنے کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ سیاست کے اس رنگ کے یہ دونوں پہلو بہت دلچسپ ہیں۔
پیپلزپارٹی کو یقیناً یہ گلہ تھا کہ ن لیگ نے اپنے لیے اقتدار کے راستے ہموارکر لیے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ اس نے اگلے اقتدار کے لیے گیم سیٹ کر لی ہوئی ہے۔ اور اب اس کی باری ہے۔ لیکن انھیں علم نہیں ہو سکا کب وہ اس گیم سے آئوٹ ہو گئے۔ وہ میٖڈیا میں نعرے لگاتے رہے کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہے۔ اور انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ دوسری طرف نواز شریف کی واپسی کے لیے سب معاملات حل ہو گئے ہیں۔
وہ سوچتے رہے کہ اب قبولیت کی معراج پر وہ ہیں۔ لیکن انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ اب بھی دوسرے درجے پر ہیں۔ ن لیگ ان سے آگے ہے۔ وہ ن لیگ کو گیم سے آئوٹ کر چکے تھے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ گیم اب بھی ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔
پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کی بادشاہ ہے۔ اقتدار کے لیے بلوچستان تو ان کی جیب میں ہے۔ آصف زرداری جو خود کو بلوچ کہتے ہیں۔ ان کے مطابق سب بلوچ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی رائے میں جب انتخابات کا کھیل شروع ہونا تھا تو بلوچستان سے سب کی پہلی اور آخری چوائس پیپلز پارٹی ہی ہونی تھی۔ سب اتحاد پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی بننے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بلوچستان کے سیاسی سرداروں نے ن لیگ اور نواز شریف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی سمجھ ہی نہیں سکی کہ جس بلوچستان کو وہ اپنی جیب میں سمجھ رہی تھی وہ اس کی جیب میں نہیں ہے۔ ان کی جیب خالی ہے۔ انھوں نے جس کو شامل ہونے کی دعوت دی اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس انکار نے پیپلزپارٹی کو شدید سیاسی صدمے سے دوچار کیا۔ جس کا اندازہ ان کی گفتگو میں ہوتا ہے۔
اسی طرح ان کا خیال تھا پنجاب میں ن لیگ ان کو سیٹیں دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جیسے پی ڈی ایم کی حکومت میں وہ سیٹیں لے لیتے تھے۔ ویسے ہی انتخابات میں بھی لے لیں گے۔ ایسا بھی نہیں ہوا۔ ن لیگ نے ایک بھی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ تحریک انصاف سے لوگ چھوڑ کر پنجاب اور کے پی میں پیپلز پارٹی میں آئیں گے ایسا بھی نہیں ہوا اور دونوں صوبوں میں تحریک انصاف چھوڑنے والوں نے الگ نئی سیاسی جماعتیں بنا لی ہیں۔ جس کی ذمے دار بھی پیپلز پارٹی ن لیگ کو ہی سمجھتی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں ان کو پیپلزپارٹی میں آنے سے ن لیگ نے روکا ہے جب کہ دوسری طرف ن لیگ کا موقف ہے کہ انھوں نے کونسا ان کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے۔ وہ کسی کو زبردستی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ن لیگ میں شامل ہوں تو گلہ ہے۔ اگر نئی سیاسی جماعت میں گئے ہیںتو ن لیگ سے کیسا گلہ ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ ن لیگ نے ان سب کو روکا ہے۔حالانکہ کے پی میں وہ کیسے روک سکتے ہیں۔
اس سب صورتحال میں پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو لاڈلا اور ن لیگ کو کنگز پارٹی کہنا شروع کر دیا۔ اخباری خبریں یہی ہیں کہ ن لیگ اور بالخصوص نواز شریف کو یہ پسند نہیں۔ لیکن میری رائے میں انھیں کوئی برا نہیں لگ رہا۔ بلکہ خبر یہی ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے اس بیانیہ پر بہت خوش ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو جاری رکھے۔ اسی لیے وہ جواب نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھتے ہوئے جاری رکھے۔
ن لیگ کی رائے ہے کہ وہ خود توووٹر کو نہیں کہہ سکتے کہ اگلی باری ان کی ہے۔ وہ خود تو نہیں کہہ سکتے وہ اقتدار میں آرہے ہیں ان کی گیم سیٹ ہو گئی ہے۔ اس لیے اگر پیپلزپارٹی ان کے لیے یہ کام کر رہی ہے تو لڑنے کے بجائے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اگر پیپلزپارٹی ملک بھر میں یہ ماحول بنا دے کہ نواز شریف آرہا ہے تو پیپلزپارٹی سے لڑنے کے بجائے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
اگر پیپلزپارٹی کے لوگ ہر ٹاک شو ہر پریس کانفرنس میں کہیں کہ ن لیگ آرہی ہے تو ان کے لیے اس سے اچھی کیمپین کیا ہو سکتی ہے۔ اس میں مائنڈ کرنے والی کوئی بات نہیں۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں اسی سوچ کی وجہ سے پیپلزپارٹی جس لڑائی کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ نہیں ہوئی۔
دوسری طرف ن لیگ کو یہ سمجھ آگئی ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ مخالف بیانیہ پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین پر تنقید نہیں کریں گے بلکہ ساری تنقید ن لیگ اور شریف خاندان پر کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے ووٹر کی ہمدردی حاصل کر کے اس کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ اس لیے تحریک انصاف کے حامی کو ناراض نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ن لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ن لیگ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
ن لیگ نے تحریک انصاف مخالف بیانیہ پر الیکشن لڑنا ہے۔ ان کی تمام توجہ تحریک انصاف پر ہوگی۔ اس لیے وہ اپنی پالیسی پر قائم ہیں۔ ن لیگ نو مئی کی بات کرتی ہے جب کہ پیپلزپارٹی اب نو مئی کی بات نہیں کرتی ہے۔ ن لیگ توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات کرتی ہے پیپلزپارٹی توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات نہیں کرتی۔ ن لیگ القادر ٹرسٹ کی بات کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نہیں کرتی۔
ن لیگ سائفر کی بات کرتی ہے پیپلز پارٹی نہیں کرتی۔ اس لیے اس فرق کو سمجھیں گے تو بات سمجھ آجائے گی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی یہ پالیسی آگے جا کر اس کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی۔ اسی لیے ہمیں نظر آرہا کہ اب پیپلزپارٹی خود ہی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ انھیں اندازہ ہے کہ ان کی اس پالیسی کی ایک سیاسی قیمت ہے جو وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں پیپلزپارٹی بند گلی میں کھڑی نظر آتی ہے۔