پاکستانی معیشت کی بحالی میں چین کا کردار 

درحقیقت دونوں ممالک ایک ’’ مشترکہ تقدیر‘‘ کے خیال پر یقین رکھتے ہیں اور یہی یقین ایک دوسرے کی کامیابی کی بنیاد ہے

درحقیقت دونوں ممالک ایک ’’ مشترکہ تقدیر‘‘ کے خیال پر یقین رکھتے ہیں اور یہی یقین ایک دوسرے کی کامیابی کی بنیاد ہے (فوٹو: فائل)

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کا ''بیلٹ اینڈ روڈ'' تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کا معاشی منصوبہ ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ پاکستان کے لوگوں کے ذریعہ معاش، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر زیادہ گہرا اثر ڈالے گا۔

درحقیقت دونوں ممالک ایک '' مشترکہ تقدیر'' کے خیال پر یقین رکھتے ہیں اور یہی یقین ایک دوسرے کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ '' بیلٹ اینڈ روڈ'' عملی نوعیت اور کھلے پن پر مبنی انیشیٹو ہے۔ اس انیشیٹو میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر میں نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ غربت میں کمی کی مثال لیجیے۔

عالمی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ 2030 تک بیلٹ اینڈ روڈ سے متعلق سرمایہ کاری سے 7.6 ملین افراد کو انتہائی غربت سے اور 32 ملین افراد کو معتدل غربت سے نکالنے کی توقع ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے متعلقہ منصوبوں سے مقامی روزگار کے مواقعے میں کئی گنا اضافہ ہوا اور مقامی لوگوں کی آمدنی کو بڑھایا گیا۔ ''سلک روڈ ای کامرس'' کے ذریعے بچوں کے گارمنٹس کی مد میں 3 سال میں 10 لاکھ پاکستانی روپے کی آمدنی کا اضافہ حاصل کیا۔

پاک چین آہنی دوستی میں ماضی کی طرح ایک مضبوط دوست کی حیثیت سے چین، ترقیاتی مواقعوں کو بانٹنے اور چین پاکستان باہم معاشرے کی مزید تعمیر میں سی پیک منصوبے کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان اور چین بین الاقوامی معاملات ہوں یا علاقائی مسائل پر ایک ہی موقف رکھتے ہیں، اگرچہ سی پیک کا حجم بی آر آئی کے تناظر میں غیر معمولی ہے لیکن پاکستان کی معیشت میں بالعموم اور تجارت میں چین کا کردار کسی طور بھی غیر معمولی نہیں ہے۔

چین کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے متعدد ممالک میں بھارت اور روس کے بعد پاکستان تیسری اہم ترین معیشت ہے لیکن ہم نے ابھی تک اس جغرافیائی قربت سے وہ ترقی حاصل نہیں کی جس کی ضرورت تھی۔ اس وقت پاکستان کو علاقائی تعاون کو فروغ دینے، سیاسی تنازعات کو حل کرنے، حفاظتی اقدامات کو بڑھانے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری اور اپنی معیشت کو متنوع بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سی پیک منصوبہ چین اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے بیلٹ اینڈ روڈ کی مشترکہ تعمیر میں تعاون کی ایک شاندار مثال بن چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت گوادر پورٹ، توانائی کے منصوبے، ٹرانسپورٹیشن اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر دس سالوں سے جاری ہے جو نہایت نتیجہ خیز رہی ہے۔ آج گوادر پورٹ کا مقام ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں نہیں رہا بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک چمکتا ہوا موتی ہے۔

گوادر پورٹ پر ایک کثیر المقاصد ٹرمینل تعمیرکیا گیا ہے جس میں بیس ہزار ٹن وزنی تین برتھیں ہیں، جس سے سمندری راستے کھل رہے ہیں۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کی طرف جاتا ہے۔ گوادر آزاد تجارتی زون کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے جس میں فرٹیلائزر، فشری پروسیسنگ، زرعی ترقی، سیاحت اور بینکاری سمیت 46 ادارے موجود ہیں جب کہ آزاد تجارتی زون کا دوسرا مرحلہ زیر تعمیر ہے۔

گوادر ایگزیبیشن سینٹر اور بزنس سینٹرکا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ چین کی امداد سے تعمیر شدہ اسکول اور اسپتال نے مقامی افراد کو صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کی ہیں۔ چینی ماہرین کی جانب سے لائی گئی افزائش نسل،گرین ہاؤسز اور ڈرپ ایریگیشن ٹیکنالوجیز نے مقامی زراعت کی ترقی میں مدد دی ہے اورگوادر میں ایک لاکھ مربع میٹر سے زائد سبز جگہ کا اضافہ کیا گیا ہے، اگر یہ گرم علاقہ اور بنجر زمین ایک خوبصورت نخلستان بن جائے تو کتنا حیرت انگیز ہوگا۔

اس کے علاوہ چینی حکومت نے یہاں مقامی لوگوں کی توانائی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھریلو سولر پینل آلات کے 4 ہزار سیٹس گوادر کے لوگوں کو عطیہ کے طور پر دیے۔ ساتھ ہی گوادر ڈی سیلینیشن پلانٹ منصوبے کی تکمیل کے بعد پانی کی قلت کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا جو طویل عرصے سے مقامی لوگوں کی پریشانی کا باعث ہے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں توانائی کے منصوبوں کی تعمیرکو انتہائی اہمیت دی گئی۔


گزشتہ دہائی میں کلوٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور تھر بلاک 1 انٹیگریٹڈ کول مائن پاور پروجیکٹ کے بعد پاکستان میں بجلی کی قلت کو دورکرتے ہوئے توانائی کے ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا ہے جس نے پائیدار معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں سوکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے ڈیم کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا جو 2024 میں فعال ہونے کے بعد ہر سال 3.212 بلین کلو واٹ صاف بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی مدد سے پاکستان کے توانائی حاصل کرنے کے دیگر غیر قابل تجدید وسائل پر انحصار کوکم کیا جا سکے گا۔

توانائی کا شعبہ سی پیک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری، تیزی سے ترقی کرنے والے اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے شعبوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف پاکستان کو صاف، مستحکم اور اعلیٰ معیارکی توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی ترقی فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستانیوں کے لیے بڑی تعداد میں باصلاحیت افراد کی تربیت اور روزگار کے مواقعے بھی پیدا کرتا ہے۔سی پیک کے تحت انفرا اسٹرکچر میں ایک بڑا منصوبہ پشاور،کراچی ایکسپریس وے (سکھر، ملتان سیکشن) باضابطہ طور پر آمد و رفت کے لیے بحال ہے۔

پاکستان کی پہلی میٹرو، لاہور اورنج لائن میٹروکو آپریشنل کردیا گیا ہے، اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے سلسلوں نے مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور لوگوں کو حقیقی سہولیات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس وقت سی پیک کی تعمیر اعلیٰ معیارکی ترقی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جس میں نمبر ون ریلوے ٹرنک لائن کی اپ گریڈیشن اور کراچی رنگ ریلوے منصوبے کو منصوبہ بندی میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی جیسے کلیدی شعبوں میں تعاون بھی سی پیک کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں شامل ہے۔

دونوں ممالک نے گوادر پورٹ کی تیز رفتار ترقی اور ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن پر اتفاق سمیت20 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے جن میں بی آرآئی، انفرااسٹرکچر، کان کنی، صنعت، سبز اورکم کاربن کی ترقی، صحت، خلائی تعاون، ڈیجیٹل، ترقیاتی تعاون اور چین کو زرعی برآمدات شامل ہیں۔

بی آر آئی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں صنعتکاری کا عمل شروع ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ ممکنہ تبدیلی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ اس کے پاس اس کے ذریعے اپنی معیشت کو بحال کرنے کی صلاحیت ہے اور اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک کک اسٹارٹ ہے جس کا تیسرا بی آر ایف وعدہ کرتا ہے۔

چین عالمی سطح پر ایک پرامن سیاسی طاقت اور معاشی دیوکے طور پر ابھر رہا ہے، چین قیادت میں مغرب یا باقی دنیا سے آگے بڑھ رہا ہے جسے اس وقت قیادت کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ سی پیک اور پاک چین تعاون کے امکانات میں وقت کی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک کے لوگ قریب آئیں اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ 20 ویں صدی میں امریکا نے برطانیہ کی عالمی قیادت کی جگہ لے لی اور چین 21 ویں صدی میں امریکا کی جگہ لے رہا ہے۔ بی آر آئی منصوبوں کی فنڈنگ عالمی معاملات میں چینی اثر و رسوخ کو بڑھا رہی ہے جس طرح مارشل پلان کی فنڈنگ نے جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کے لیے کیا تھا۔

دس سال قبل چینی صدر شی جن پنگ نے سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کی مشترکہ تعمیرکا انیشیٹو پیش کیا تھا۔ جون 2023 کے اختتام تک 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے حوالے سے 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے۔ اس وقت بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے سلسلے میں متعدد تاریخی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ چین نے 28 ممالک اور خطوں کے ساتھ 21 آزاد تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور چین اور متعلقہ ممالک کی مجموعی درآمدات اور برآمدات کا حجم 19.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

ترقی تمام مسائل کو حل کرنے کی کلید ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو چین اور دنیا کی مشترکہ ترقی کے لیے عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ یہ عالمی ترقی کے حوالے سے چینی حل فراہم کرتا ہے، اور یہی اس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ دوسری طرف، ''بیلٹ اینڈ روڈ'' چھوٹے حلقوں میں قید نہیں ہے، بلکہ مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک پر عمل پیرا ہے۔ یہ جغرافیائی سیاسی کھیلوں کی پرانی سوچ سے بالاتر ہے اور بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا نمونہ تخلیق کرتا ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس اقدام کے ذریعے مختلف ممالک کے عوام نے باہمی افہام وتفہیم اور روابط کوگہرا کیا ہے اور تہذیبوں کے درمیان تبادلوں اور باہم سیکھنے کو فروغ دیا ہے۔ یہ قومی تعمیرکی ایک مشترکہ جدوجہد ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک اہم عملی پلیٹ فارم ہے۔ مسلسل جغرافیائی سیاسی تنازعات اور سست عالمی معاشی بحالی کے دور میں، اس اقدام کی اہمیت اور بھی نمایاں ہے، اور یہ چین اور دنیا کے لیے مواقعے کی ایک نئی کھڑکی کھول رہا ہے۔
Load Next Story