انتہا پسندوں اور امریکا کا اتحاد
امریکیوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ اس سرزمین پر عمر مختار نام کا ایک بے مثال مجاہد آزادی گذرا ہے
سچی بات ہے، میںنے یوٹیوب والی متنازعہ فلم کا ٹریلر نہیں دیکھا، اس کے بارے میں صرف خبریں پڑھی ہیں، میں یہ ٹریلر دیکھنا بھی نہیں چاہتا، جو چیز بری ہے۔
اسے دیکھنے کا کیا فائدہ۔ مسلم اکثریت والے ملکوں میں امریکا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں کیونکہ جن لوگوں نے یہ فلم بنائی ہے، وہ امریکی شہری ہیں۔ لیبیا میں امریکا کے ایک سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین سفارتی اہلکار اس فلم کے ٹریلر کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ لیبیا میں کرنل قذافی کے ساتھ امریکا، فرانس اور اٹلی نے جو کچھ کیا، اس کے مابعد اثرات بن غازی میں امریکی سفارت کاروں کی موت کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
امریکیوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ اس سرزمین پر عمر مختار نام کا ایک بے مثال مجاہد آزادی گذرا ہے، جس نے اطالویوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ مجھے یقین ہے،لیبیا میں امریکی سفارت خانے پرراکٹ برسانے والے عام مظاہرین نہیں ہو سکتے، مغربی میڈیا سے ہی ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جن میں انکشاف کیا جا رہا ہے کہ بن غازی میں امریکی سفارت خانے کا گھیرائو کرنے والے مظاہرین میں ایک مقامی انتہا پسند تنظیم انصار الاشرعیہ کے کارکن شامل تھے۔
یہ شدت پسند تنظم جمہوریت کو بھی خلاف اسلام سمجھتی ہے۔ قذافی کے خلاف لڑنے والوں میں اس تنظیم کے افراد بھی شامل تھے۔ ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے' جس میں چند نوجوان امریکا کے سفیر کو نیم مردہ حالت میں ایک کمرے سے نکال رہے ہیں' یہی انھیں اسپتال لے کر گئے ہیں' اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا کے سفیر کی موت کمرے میں دھواں پھیل جانے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔
ویڈیو میں دکھائے گئے لوگ کون ہیں، ان کے بارے میں کسی کو معلومات نہیں ہیں۔ لیبیا کے نئے صدر محمد یوسف مغاریاب نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بن غازی میں امریکی سفارتخانے کے باہر اکٹھے ہونے والے ہجوم میں القاعدہ کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ الجزائر یا مالی کے باشندے ہوں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی امریکی سفارت خانے کا گھیرائو ہوا ہے، یمن اور تیونس میں بھی ایسا ہی ہوا، کراچی میں بھی امریکی قونصل خانے کا گھیرائو کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے کی حکمت عملی بھی خاصی تہہ دار ہے۔ امریکا القاعدہ، اس کے ہمدردوں اور حامیوں سے برسرپیکار بھی ہے لیکن صدام حسین اور کرنل قذافی کے خلاف انتہا پسندوں کو مدد بھی فراہم کر رہا۔ اب شام میں بھی وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ شام میں روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب کہ شامی باغیوں کو سی آئی اے کی مدد حاصل ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کے امور کے ایک ماہر برائن کیٹولس(brian Katilis ) نے اپنی ایک تحریر میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا جس شامی اپوزیشن کو مدد فراہم کر رہا ہے ان میں القاعدہ کے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہ دشمن کا دشمن دوست والی پالیسی ہے۔ صدام، قذافی اور بشار امریکا اور القاعدہ دونوں کے مخالف ہیں، اس مشترکہ دشمنی نے امریکا اور القاعدہ کو لیبیا، عراق اور شام میں اکٹھے لڑنے پر مجبور کیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے چھ ستمبر کو جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر چکلالہ میں یوم دفاع پاکستان کی تقریب سے خطاب کے دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایک اہم بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خدشات نہیں حقیقت ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے' یہ ریاست کے خلاف ایک ایسی بغاوت ہے جس کی تہہ میں سیاسی ایجنڈا ہے۔
دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے ماسٹر مائنڈ یا نظریہ سازوں نے مذہب کو اس سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کا ایک ہتھیار بنایا ہے۔ یہی ہتھیار مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی وقت امریکا اور انتہاپسندوں کے درمیان مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دوستی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ان میں کوئی غیر مسلم باشندہ شامل نہیں رہا۔
دہشت گردی کی وارداتوں میں حصہ لینے والے تمام پاکستانی نوجوان ہیں' ان کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہو یا ملک کے دیگر علاقوں سے یہ سب پاکستانی ہیں۔ عرب' چیچن' افغان اور ازبک جنگجو بھی پاکستانیوں کی مدد سے ہی اس ملک میں پناہ گزین ہیں۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی غیر ملکی گرفتار ہوئے، ان کے مدد گار پاکستانی ہی تھے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کے ساڑھے چار برسوں میں اس جنگ نے زیادہ شدت اختیار کی ہے۔ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں پر دہشت گردوں نے حملے شروع کر رکھے ہیں۔ سوات میں دہشت گرد پورے علاقے پر قابض ہو گئے تھے' انھوں نے اس علاقے میں اپنی رٹ قائم کر لی تھی۔ فوج نے آپریشن کر کے یہ علاقے آزاد کرائے۔
سوات میں آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان پربیت اللہ محسود کی حکومت قائم ہو چکی تھی' وہ ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کے باوجود حکیم اللہ محسود کی قیادت میں طالبان جمع ہو گئے اور انھوں نے جنوبی وزیرستان پر اپنا کنٹرول قائم رکھا۔ وہ ابھی تک پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
ادھر انتہا پسندوں کے ماسٹر مائنڈ عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ کوئی ایک چنگاری پاکستان میں مصر یا یمن جیسے حالات پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان کا اعتدال پسند طبقہ مسلسل پسپا ہورہا ہے۔ بعض سیاستدانوں' مذہبی رہنمائوں اور اہل علم کی باتوں اور تحریروں سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ مذہب اور عقیدے کی آڑ میں دہشت گردوں سے ہمدردی پیدا کرنے کی دانستہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔
امریکا اور یورپ کو جس دن محسوس ہوا کہ پاکستان کا اعتدال پسند طبقہ اپنے اور عالمی مفادات کی نگہداشت کرنے کے قابل نہیں رہا تو وہ اپنا ہاتھ انتہا پسندوں کی طرف بڑھا سکتا ہے۔
اسے دیکھنے کا کیا فائدہ۔ مسلم اکثریت والے ملکوں میں امریکا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں کیونکہ جن لوگوں نے یہ فلم بنائی ہے، وہ امریکی شہری ہیں۔ لیبیا میں امریکا کے ایک سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین سفارتی اہلکار اس فلم کے ٹریلر کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ لیبیا میں کرنل قذافی کے ساتھ امریکا، فرانس اور اٹلی نے جو کچھ کیا، اس کے مابعد اثرات بن غازی میں امریکی سفارت کاروں کی موت کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
امریکیوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ اس سرزمین پر عمر مختار نام کا ایک بے مثال مجاہد آزادی گذرا ہے، جس نے اطالویوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ مجھے یقین ہے،لیبیا میں امریکی سفارت خانے پرراکٹ برسانے والے عام مظاہرین نہیں ہو سکتے، مغربی میڈیا سے ہی ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جن میں انکشاف کیا جا رہا ہے کہ بن غازی میں امریکی سفارت خانے کا گھیرائو کرنے والے مظاہرین میں ایک مقامی انتہا پسند تنظیم انصار الاشرعیہ کے کارکن شامل تھے۔
یہ شدت پسند تنظم جمہوریت کو بھی خلاف اسلام سمجھتی ہے۔ قذافی کے خلاف لڑنے والوں میں اس تنظیم کے افراد بھی شامل تھے۔ ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے' جس میں چند نوجوان امریکا کے سفیر کو نیم مردہ حالت میں ایک کمرے سے نکال رہے ہیں' یہی انھیں اسپتال لے کر گئے ہیں' اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا کے سفیر کی موت کمرے میں دھواں پھیل جانے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔
ویڈیو میں دکھائے گئے لوگ کون ہیں، ان کے بارے میں کسی کو معلومات نہیں ہیں۔ لیبیا کے نئے صدر محمد یوسف مغاریاب نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بن غازی میں امریکی سفارتخانے کے باہر اکٹھے ہونے والے ہجوم میں القاعدہ کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ الجزائر یا مالی کے باشندے ہوں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی امریکی سفارت خانے کا گھیرائو ہوا ہے، یمن اور تیونس میں بھی ایسا ہی ہوا، کراچی میں بھی امریکی قونصل خانے کا گھیرائو کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑنے کی حکمت عملی بھی خاصی تہہ دار ہے۔ امریکا القاعدہ، اس کے ہمدردوں اور حامیوں سے برسرپیکار بھی ہے لیکن صدام حسین اور کرنل قذافی کے خلاف انتہا پسندوں کو مدد بھی فراہم کر رہا۔ اب شام میں بھی وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ شام میں روس اور ایران بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب کہ شامی باغیوں کو سی آئی اے کی مدد حاصل ہے۔
امریکا کی قومی سلامتی کے امور کے ایک ماہر برائن کیٹولس(brian Katilis ) نے اپنی ایک تحریر میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا جس شامی اپوزیشن کو مدد فراہم کر رہا ہے ان میں القاعدہ کے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہ دشمن کا دشمن دوست والی پالیسی ہے۔ صدام، قذافی اور بشار امریکا اور القاعدہ دونوں کے مخالف ہیں، اس مشترکہ دشمنی نے امریکا اور القاعدہ کو لیبیا، عراق اور شام میں اکٹھے لڑنے پر مجبور کیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے چھ ستمبر کو جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر چکلالہ میں یوم دفاع پاکستان کی تقریب سے خطاب کے دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایک اہم بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خدشات نہیں حقیقت ہے۔ پاکستان کو اس وقت جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے' یہ ریاست کے خلاف ایک ایسی بغاوت ہے جس کی تہہ میں سیاسی ایجنڈا ہے۔
دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے ماسٹر مائنڈ یا نظریہ سازوں نے مذہب کو اس سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کا ایک ہتھیار بنایا ہے۔ یہی ہتھیار مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی وقت امریکا اور انتہاپسندوں کے درمیان مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دوستی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ان میں کوئی غیر مسلم باشندہ شامل نہیں رہا۔
دہشت گردی کی وارداتوں میں حصہ لینے والے تمام پاکستانی نوجوان ہیں' ان کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہو یا ملک کے دیگر علاقوں سے یہ سب پاکستانی ہیں۔ عرب' چیچن' افغان اور ازبک جنگجو بھی پاکستانیوں کی مدد سے ہی اس ملک میں پناہ گزین ہیں۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی غیر ملکی گرفتار ہوئے، ان کے مدد گار پاکستانی ہی تھے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کے ساڑھے چار برسوں میں اس جنگ نے زیادہ شدت اختیار کی ہے۔ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں پر دہشت گردوں نے حملے شروع کر رکھے ہیں۔ سوات میں دہشت گرد پورے علاقے پر قابض ہو گئے تھے' انھوں نے اس علاقے میں اپنی رٹ قائم کر لی تھی۔ فوج نے آپریشن کر کے یہ علاقے آزاد کرائے۔
سوات میں آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا۔ جنوبی وزیرستان پربیت اللہ محسود کی حکومت قائم ہو چکی تھی' وہ ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس کے باوجود حکیم اللہ محسود کی قیادت میں طالبان جمع ہو گئے اور انھوں نے جنوبی وزیرستان پر اپنا کنٹرول قائم رکھا۔ وہ ابھی تک پاکستان کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
ادھر انتہا پسندوں کے ماسٹر مائنڈ عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ کوئی ایک چنگاری پاکستان میں مصر یا یمن جیسے حالات پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان کا اعتدال پسند طبقہ مسلسل پسپا ہورہا ہے۔ بعض سیاستدانوں' مذہبی رہنمائوں اور اہل علم کی باتوں اور تحریروں سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ مذہب اور عقیدے کی آڑ میں دہشت گردوں سے ہمدردی پیدا کرنے کی دانستہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔
امریکا اور یورپ کو جس دن محسوس ہوا کہ پاکستان کا اعتدال پسند طبقہ اپنے اور عالمی مفادات کی نگہداشت کرنے کے قابل نہیں رہا تو وہ اپنا ہاتھ انتہا پسندوں کی طرف بڑھا سکتا ہے۔