اربوں روپے کا بجٹ لینے والے کراچی کے 88سرکاری کالج غیر معیاری قرار
محکمہ کالج ایجوکیشن نےسندھ کے سرکاری کالجوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے انھیں اے،بی اورسی کیٹیگریز میں تقسیم کردیا ہے
سابق جمہوری حکومت کے دور میں اربوں روپے سالانہ کابجٹ لینے والے کراچی کے 153سرکاری کالجوں میں سے 55 فیصد کوسندھ کی نگراں صوبائی حکومت نے غیرمعیاری قراردے دیا ہے اور88سرکاری کالجوں کو تیسرے درجے کی کیٹیگری دے دی گئی ہے۔
یہ اعداد وشمار نگراں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے چندسرکاری کالجوں کے کیے گئے اچانک انسپیکشن کے بعد خود صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے جاری کیے ہیں اورکراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے انھیں تین مختلف کیٹگریز"اے،بی اورسی"میں تقسیم کردیا ہے۔
اے کیٹیگری کے سرکاری کالج "اساتذہ کی کمی،بدترین انفرااسٹرکچر،صفائی کی ناقص صورتحال،تجربہ گاہوں میں سائنسی آلات کے فقدان اورلائبریری میں کتابوں کی عدم خریداری" سمیت دیگرعوامل کے سبب تیسرے درجے کے کالج شمار کیے گئے ہیں ۔
"بی"کیٹیگری کے کالج اے کیٹیگری سے کچھ بہتر، اور بہترتعلیمی سہولیات کے سبب باقی ماندہ سرکاری کالج "سی"کیٹیگری میں رکھے گئے ہیں تاہم محکمہ کالج ایجوکیشن نے کالجوں کی ان تین کیٹگری کو"زون"کا نام دیا ہے۔
اس بات کا انکشاف محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کالجوں کے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیے گئے انسپیکشن کے حوالے سے جاری خط میں کیا گیا ہے، سرکاری کالجوں کا انسپیکشن نگراں وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر شروع کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تعلیمی بورڈزمیں نمبروں کے بجائے گریڈ سسٹم متعارف
ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کااضافی چارج رکھنے والے ریجنل ڈائریکٹرکالجز کراچی پروفیسرسلیمان سیال نے سرکای کالجوں کی اس درجہ بندی کی تصدیق بھی کردی ہے۔
"ایکسپریس"کے رابطہ کرنے پر آر ڈی کالجز کراچی کا کہنا تھا کہ زیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر ہم کالجوں کے دورے شروع کرچکے ہیں ، کالجوں کا انسپیکشن کیاجارہا ہے اورجومسائل فوری حل ہوسکتے ہیں انھیں حل کرنے کے لیے وہیں ہدایت جاری کی جارہی ہیں تاہم کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جنھیں فوری حل نہیں کیا جاسکتا۔
"ایکسپریس"کے اس سوال پر کہ وہ کون سے مسائل ہیں جوکالجوں کودرپیش ہیں اوران کا فوری حل نہیں ہے جبکہ ایسے کالج جنھیں زون اے کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے ان کے ساتھ کیامسائل ہیں جس پر سلیمان سیال کا کہنا تھاکہ ان کالجوں میں مختلف قسم کی سہولیات نہیں ہیں۔
اکثرمیں صفائی کا شدید فقدان ہے، بعض میں تجربہ گاہیں فعال نہیں ہیں، کہیں لائبریری کے مسائل ہیں جبکہ کچھ میں اساتذہ کی بھی کمی ہے، تاہم اساتذہ کی کمی پر 70 فیصد تک قابوپالیا گیا ہے لیکن کالجوں میں نچلے گریڈ کے عملے کی کمی ہے اور بھرتیوں پر پابندی کے سبب نئی بھرتیاں ممکن نہیں ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھاکہ تمام کالجوں میں مشترکہ مسئلہ طلبا کی حاضری ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک 50کے قریب کالجوں کا انسپیکشن کرچکے ہیں اورزیادہ ترکالجوں سے طلبا غیر حاضر رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اجلاس کے ضمن میں کالجوں کی تین مختلف درجہ بندی کے حوالے سے جو دستاویز جاری کی گئی ہے اس کے مطابق زون اے کی حامل کیٹیگری کے حامل کراچی کے 88سرکاری کالجوں میں سے ہر ایک کا انسپیکشن مہینے میں دوبارلازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ زون بی کے کالجوں کامہینے میں ایک باراورزون سی کے کالجوں کا تین ماہ میں ایک بارانسپیکشن لازمی ہے۔
اور پڑھیں؛ ضیاء الدین بورڈ نےایک سے زائد مضامین میں امتحانات کا آئی بی سی سی کا فیصلہ نافذ کردیا
اس حوالے سے کراچی کے جن 88سرکاری کالجوں کوسہولیات کے فقدان کے سبب غیرمعیاری کیٹیگری یازون اے دیا گیا ہے ان میں سپیریئرکامرس کالج،جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج مارننگ /ایوننگ،گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج مارننگ،گورنمنٹ سٹی کالج،سراج الدولہ کالج،شپ اونر کالج،پریمیئرگورنمنٹ کالج،ریاض گورنمنٹ کالج،گورنمنٹ گرلز کالج النور،دخترمشرق گورنمنٹ گرلز کالج کے علاوہ دیگر کئی مشہورکالج شامل ہیں جبکہ لانڈھی اورکورنگی کے کئی کالج بھی اسی کیٹیگری میں شامل کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ محکمہ کالج ایجوکیشن اپنے تعلیمی اداروں کی اس بدترین صورتحال کے باوجود ایک عدالتی آرڈرکے سبب سرکاری کالجوں میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کا بھی خواہاں ہے اوراس سلسلے میں حال ہی میں ایک بی ایس 4سالہ پروگرام کی ڈرافٹ پالیسی بھی جاری کی گئی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
"ایکسپریس"نے جب اس سلسلے میں جامعہ کراچی کی سیکریٹری ایفیلیشن پروفیسرڈاکٹرانیلا امبرملک سے رابطہ کیا اوران سے پوچھاکہ جامعہ کراچی نے اب تک محض دوڈگری کالجوں کوہی بی ایس چارسالہ پروگرام شروع کرنے کی اجازت کیوں دی ہے۔
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ یہ دوکالج خورشید گرلز کالج اورگورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس ہیں جہاں قدرے صورتحال بہترتھی تاہم ان کی ٹیم نے متعلقہ تعلیمی اداروں کی درخواست پر شپ اونرکالج ،عبداللہ گرلز کالج،ڈی جے سائنس کالج اورسعید آباد کالج سمیت دیگرکئی سرکاری کالجوں کا انسپیکشن کیا تھا۔
ایک کالج ایساتھاجس نے اردوکے مضمون میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کی اجازت مانگی تھی جب ہماری ٹیم کالج پہنچی تووہاں کی لائبریری میں اردوکی تین کتابیں موجود تھیں جوجزوقتی استاد خود اپنے ہمراہ لائی تھی، کالج میں لائبریری نہ ہونے کے برابر تھی اوردھول مٹی اڑ رہی تھی۔
ڈی جے سائنس کالج جسے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے سب سے بہترکیٹیگری میں شامل کررکھا ہے اس کے حوالے سے سیکریٹری ایفیلیشن نے انکشاف کیاکہ وہاں کی فزکس اورکیمسٹری کی لیبس پر سبجیکٹ ایکسپرٹس نے آبزرویشن دی تھی ان کی لیب انٹرکرانے کے قابل تک نہیں تھی۔
ڈاکٹرانیلا امبر نے مزید کہاکہ اس تمام صورتحال سے ہم محکمہ کالج ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ کوخطوط بھیج کرآگاہ کرچکے ہیں ، سرکاری کالجوں میں سب سے بڑافقدان اساتذہ،پھرلیب اورلائبریری کی کتابوں کا ہے۔
ادھر اے زون کی حامل کیٹیگری کے تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج فار آرٹس اینڈ کامرس کے ایک استاد نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ پرانی جگہ سے منتقلی کے بعد سے ڈپارٹمنٹ نے کالج کے حال کے متعلق کچھ دریافت نہیں کیا، کالج بدحال ہے فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہے، لائبریری میں کتابیں نہیں ہیں اور طلبا پڑھنے کے لیے بھی نہیں آتے۔
یہ اعداد وشمار نگراں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے چندسرکاری کالجوں کے کیے گئے اچانک انسپیکشن کے بعد خود صوبائی محکمہ کالج ایجوکیشن نے جاری کیے ہیں اورکراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے انھیں تین مختلف کیٹگریز"اے،بی اورسی"میں تقسیم کردیا ہے۔
اے کیٹیگری کے سرکاری کالج "اساتذہ کی کمی،بدترین انفرااسٹرکچر،صفائی کی ناقص صورتحال،تجربہ گاہوں میں سائنسی آلات کے فقدان اورلائبریری میں کتابوں کی عدم خریداری" سمیت دیگرعوامل کے سبب تیسرے درجے کے کالج شمار کیے گئے ہیں ۔
"بی"کیٹیگری کے کالج اے کیٹیگری سے کچھ بہتر، اور بہترتعلیمی سہولیات کے سبب باقی ماندہ سرکاری کالج "سی"کیٹیگری میں رکھے گئے ہیں تاہم محکمہ کالج ایجوکیشن نے کالجوں کی ان تین کیٹگری کو"زون"کا نام دیا ہے۔
اس بات کا انکشاف محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کالجوں کے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیے گئے انسپیکشن کے حوالے سے جاری خط میں کیا گیا ہے، سرکاری کالجوں کا انسپیکشن نگراں وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر شروع کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تعلیمی بورڈزمیں نمبروں کے بجائے گریڈ سسٹم متعارف
ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کااضافی چارج رکھنے والے ریجنل ڈائریکٹرکالجز کراچی پروفیسرسلیمان سیال نے سرکای کالجوں کی اس درجہ بندی کی تصدیق بھی کردی ہے۔
"ایکسپریس"کے رابطہ کرنے پر آر ڈی کالجز کراچی کا کہنا تھا کہ زیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر ہم کالجوں کے دورے شروع کرچکے ہیں ، کالجوں کا انسپیکشن کیاجارہا ہے اورجومسائل فوری حل ہوسکتے ہیں انھیں حل کرنے کے لیے وہیں ہدایت جاری کی جارہی ہیں تاہم کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جنھیں فوری حل نہیں کیا جاسکتا۔
"ایکسپریس"کے اس سوال پر کہ وہ کون سے مسائل ہیں جوکالجوں کودرپیش ہیں اوران کا فوری حل نہیں ہے جبکہ ایسے کالج جنھیں زون اے کی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے ان کے ساتھ کیامسائل ہیں جس پر سلیمان سیال کا کہنا تھاکہ ان کالجوں میں مختلف قسم کی سہولیات نہیں ہیں۔
اکثرمیں صفائی کا شدید فقدان ہے، بعض میں تجربہ گاہیں فعال نہیں ہیں، کہیں لائبریری کے مسائل ہیں جبکہ کچھ میں اساتذہ کی بھی کمی ہے، تاہم اساتذہ کی کمی پر 70 فیصد تک قابوپالیا گیا ہے لیکن کالجوں میں نچلے گریڈ کے عملے کی کمی ہے اور بھرتیوں پر پابندی کے سبب نئی بھرتیاں ممکن نہیں ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھاکہ تمام کالجوں میں مشترکہ مسئلہ طلبا کی حاضری ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک 50کے قریب کالجوں کا انسپیکشن کرچکے ہیں اورزیادہ ترکالجوں سے طلبا غیر حاضر رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اجلاس کے ضمن میں کالجوں کی تین مختلف درجہ بندی کے حوالے سے جو دستاویز جاری کی گئی ہے اس کے مطابق زون اے کی حامل کیٹیگری کے حامل کراچی کے 88سرکاری کالجوں میں سے ہر ایک کا انسپیکشن مہینے میں دوبارلازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ زون بی کے کالجوں کامہینے میں ایک باراورزون سی کے کالجوں کا تین ماہ میں ایک بارانسپیکشن لازمی ہے۔
اور پڑھیں؛ ضیاء الدین بورڈ نےایک سے زائد مضامین میں امتحانات کا آئی بی سی سی کا فیصلہ نافذ کردیا
اس حوالے سے کراچی کے جن 88سرکاری کالجوں کوسہولیات کے فقدان کے سبب غیرمعیاری کیٹیگری یازون اے دیا گیا ہے ان میں سپیریئرکامرس کالج،جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج مارننگ /ایوننگ،گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج مارننگ،گورنمنٹ سٹی کالج،سراج الدولہ کالج،شپ اونر کالج،پریمیئرگورنمنٹ کالج،ریاض گورنمنٹ کالج،گورنمنٹ گرلز کالج النور،دخترمشرق گورنمنٹ گرلز کالج کے علاوہ دیگر کئی مشہورکالج شامل ہیں جبکہ لانڈھی اورکورنگی کے کئی کالج بھی اسی کیٹیگری میں شامل کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ محکمہ کالج ایجوکیشن اپنے تعلیمی اداروں کی اس بدترین صورتحال کے باوجود ایک عدالتی آرڈرکے سبب سرکاری کالجوں میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کا بھی خواہاں ہے اوراس سلسلے میں حال ہی میں ایک بی ایس 4سالہ پروگرام کی ڈرافٹ پالیسی بھی جاری کی گئی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
"ایکسپریس"نے جب اس سلسلے میں جامعہ کراچی کی سیکریٹری ایفیلیشن پروفیسرڈاکٹرانیلا امبرملک سے رابطہ کیا اوران سے پوچھاکہ جامعہ کراچی نے اب تک محض دوڈگری کالجوں کوہی بی ایس چارسالہ پروگرام شروع کرنے کی اجازت کیوں دی ہے۔
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ یہ دوکالج خورشید گرلز کالج اورگورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس ہیں جہاں قدرے صورتحال بہترتھی تاہم ان کی ٹیم نے متعلقہ تعلیمی اداروں کی درخواست پر شپ اونرکالج ،عبداللہ گرلز کالج،ڈی جے سائنس کالج اورسعید آباد کالج سمیت دیگرکئی سرکاری کالجوں کا انسپیکشن کیا تھا۔
ایک کالج ایساتھاجس نے اردوکے مضمون میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کی اجازت مانگی تھی جب ہماری ٹیم کالج پہنچی تووہاں کی لائبریری میں اردوکی تین کتابیں موجود تھیں جوجزوقتی استاد خود اپنے ہمراہ لائی تھی، کالج میں لائبریری نہ ہونے کے برابر تھی اوردھول مٹی اڑ رہی تھی۔
ڈی جے سائنس کالج جسے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے سب سے بہترکیٹیگری میں شامل کررکھا ہے اس کے حوالے سے سیکریٹری ایفیلیشن نے انکشاف کیاکہ وہاں کی فزکس اورکیمسٹری کی لیبس پر سبجیکٹ ایکسپرٹس نے آبزرویشن دی تھی ان کی لیب انٹرکرانے کے قابل تک نہیں تھی۔
ڈاکٹرانیلا امبر نے مزید کہاکہ اس تمام صورتحال سے ہم محکمہ کالج ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ کوخطوط بھیج کرآگاہ کرچکے ہیں ، سرکاری کالجوں میں سب سے بڑافقدان اساتذہ،پھرلیب اورلائبریری کی کتابوں کا ہے۔
ادھر اے زون کی حامل کیٹیگری کے تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج فار آرٹس اینڈ کامرس کے ایک استاد نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ پرانی جگہ سے منتقلی کے بعد سے ڈپارٹمنٹ نے کالج کے حال کے متعلق کچھ دریافت نہیں کیا، کالج بدحال ہے فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہے، لائبریری میں کتابیں نہیں ہیں اور طلبا پڑھنے کے لیے بھی نہیں آتے۔