وسیم اکرم اور وقار یونس کی طرح جنید خان بھی کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچانے کے خواہشمند
عظیم کارناموں پرریٹائرمنٹ کے بعد ’’ٹو ڈبلیوز‘‘کی طرح عوامی پذیرائی چاہتا ہوں، پیسر
نوجوان پاکستانی فاسٹ بولر جنید خان، وسیم اکرم اور وقار یونس کی طرح کرکٹ میں تہلکہ مچانے کے خواہشمند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ کارکردگی میں بہتری آرہی ہے۔
تینوں فارمیٹ میں نمائندگی کرتے ہوئے ملک کیلیے بڑے کارنامے انجام دینا چاہتا ہوں، خواہش ہے کہ جب ریٹائر ہوں تو ''ٹو ڈبلیوز'' کی طرح دنیا میری کارکردگی کو یاد رکھے۔ ایک برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں جنید خان نے کہا کہ انگلش کاؤنٹی سیزن میں لیسٹر شائر کی جانب سے کھیل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اس کا فائدہ سری لنکا و آسٹریلیا کیخلاف سیریز اور ورلڈ کپ 2015 میں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ میگا ایونٹ کا انعقاد اسی سرزمین پر ہورہا ہے۔
جہاں پر پاکستان نے 1992 میں ٹرافی جیتی، ٹیم اس بار بھی تاریخ دہرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، ہمارے پاس بہت سے میچ ونر کھلاڑی موجود ہیں ، ایونٹ کیلیے مکمل تیاریوں کے ساتھ ہمیں 1992 کے اسٹارز کی طرح بڑے دل کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔ ایک سوال پر جنید خان نے کہا کہ وقار یونس اسٹار کھلاڑی کی طرح بہترین کوچ بھی ہیں، میں نے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز ان کی کوچنگ میں 2011 میں کیا، ہر پاکستانی کھلاڑی ان کی دل سے عزت کرتا ہے۔
ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ دوبارہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے، میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کے عظیم اور فیورٹ بولر کے تجربات سے مستفید ہوسکوں۔ جنید خان نے کہا کہ ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں فاسٹ بولرز کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، بنگلہ دیشی وکٹوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی اسپنرز کا بھرپور ساتھ دیا، میرے خیال میں ہمارے بولرز نے نئی گیند کے ساتھ تمام حریف ٹیموں کو مشکلات میں مبتلا کیے رکھا لیکن اختتامی اوورز میں وہ کامیاب نہیں رہے۔
بھارت کیخلاف ورلڈ کپ مقابلوں میں شکست کے حوالے سے لیفٹ آرم پیسر نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے اور کچھ نہیں،2015 کے میگا ایونٹ میں اس داغ کو دھونے کی کوشش کریں گے ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں میں باؤنس سے پاکستانی پیسرز کو فائدہ ہو گا،وہاں بھارتی بیٹسمینوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تینوں فارمیٹ میں نمائندگی کرتے ہوئے ملک کیلیے بڑے کارنامے انجام دینا چاہتا ہوں، خواہش ہے کہ جب ریٹائر ہوں تو ''ٹو ڈبلیوز'' کی طرح دنیا میری کارکردگی کو یاد رکھے۔ ایک برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں جنید خان نے کہا کہ انگلش کاؤنٹی سیزن میں لیسٹر شائر کی جانب سے کھیل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اس کا فائدہ سری لنکا و آسٹریلیا کیخلاف سیریز اور ورلڈ کپ 2015 میں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ میگا ایونٹ کا انعقاد اسی سرزمین پر ہورہا ہے۔
جہاں پر پاکستان نے 1992 میں ٹرافی جیتی، ٹیم اس بار بھی تاریخ دہرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، ہمارے پاس بہت سے میچ ونر کھلاڑی موجود ہیں ، ایونٹ کیلیے مکمل تیاریوں کے ساتھ ہمیں 1992 کے اسٹارز کی طرح بڑے دل کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔ ایک سوال پر جنید خان نے کہا کہ وقار یونس اسٹار کھلاڑی کی طرح بہترین کوچ بھی ہیں، میں نے انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز ان کی کوچنگ میں 2011 میں کیا، ہر پاکستانی کھلاڑی ان کی دل سے عزت کرتا ہے۔
ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ دوبارہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے، میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کے عظیم اور فیورٹ بولر کے تجربات سے مستفید ہوسکوں۔ جنید خان نے کہا کہ ورلڈ ٹوئنٹی 20 میں فاسٹ بولرز کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، بنگلہ دیشی وکٹوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی اسپنرز کا بھرپور ساتھ دیا، میرے خیال میں ہمارے بولرز نے نئی گیند کے ساتھ تمام حریف ٹیموں کو مشکلات میں مبتلا کیے رکھا لیکن اختتامی اوورز میں وہ کامیاب نہیں رہے۔
بھارت کیخلاف ورلڈ کپ مقابلوں میں شکست کے حوالے سے لیفٹ آرم پیسر نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے اور کچھ نہیں،2015 کے میگا ایونٹ میں اس داغ کو دھونے کی کوشش کریں گے ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں میں باؤنس سے پاکستانی پیسرز کو فائدہ ہو گا،وہاں بھارتی بیٹسمینوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔