گلوکارہ منور سلطانہ کے مدھر گیت
منور سلطانہ کو بھی یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی پہلی فلم میں پلے بیک گیتوں کا آغاز کیا تھا
سیاست کے تذکروں میں کبھی ایک چڑیا بھی شامل ہوتی رہی ہے جوکسی ٹی وی اینکر کے لیے اڑتی ہوئی چیزیں لے کر آتی تھی۔ اب ایک اور پرندے کبوترکی بھی انٹری ہوگئی ہے۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے مینار پاکستان والے جلسے میں کچھ دیر تک ایک کبوتر بھی منظر عام پر آگیا تھا اور اب کبوتر کو بھی سیاسی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جب کہ سفید کبوتر امن کی علامت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے، مگر ہمیں اس سیاسی کبوتر سے وہ فلمی کبوتر یاد آگیا اور بڑی شدت کے ساتھ یاد آیا ہے۔
جو ایک پنجابی فلم '' دلا بھٹی'' میں صبیحہ خانم کے ہاتھوں میں نظر آیا تھا اور صبیحہ خانم نے اس کبوتر کے پیروں میں ایک چٹھی اپنے محبوب کے نام باندھ کر بڑی دعاؤں کے ساتھ اڑا دیا تھا اور صبیحہ کے ہونٹوں پر ایک گیت ابھر کر آیا تھا اور وہ گیت اس دور کی مشہور گلوکارہ منور سلطانہ نے گایا تھا۔ گیت کے بول بھی ایک عاشق کے لیے اس کی محبوبہ کے دل کی آواز تھے:
واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا، وے کبوترا
میرے اس کالم کی شخصیت اپنے وقت کی مشہورگلوکارہ منور سلطانہ ہے۔ جس نے بے شمار پنجابی اور اردو فلموں کے گیت گائے تھے اور اس کا ہر گیت اس دور میں فلم بینوں کے دلوں پر دستک دیتا تھا جب کہ اسی دور میں میڈم نور جہاں کے گیتوں کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا تھا مگر گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز میں بھی ایک خوشبو تھی جو سروں کے ساتھ ہر طرف بکھری ہوئی تھی۔
گلوکارہ منور سلطانہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تو بعد میں آؤں گا، پہلے اس کے چند سپر ہٹ گیتوں کا تذکرہ کرتا چلوں جو اس وقت زبان زد خاص و عام تھے۔ مصنف ، فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم سرفروش کا یہ گیت بھلا کون بھول سکتا ہے جس کے بول تھے:
اک چور اک لٹیرا
بس کر مری نظر میں
دل گیا ہے میرا، اک چور اک لٹیرا
یہ گیت ہندوستان سے آئی ہوئی مشہور اداکارہ میناشوری پر فلمایا تھا جو بمبئی کی بہت سی فلموں میں کام کرچکی تھی اور وہ مشہور ہدایت کار روپ کے۔ شوری کی بیوی بھی تھی۔ اسی فلم '' سرفروش'' میں ہیرو سنتوش کمارکا ایک ڈائیلاگ بھی اس زمانے میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ '' چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض۔''
اب میں آتا ہوں منور سلطانہ کے ایک اور مشہور گیت کی طرف جس کے شاعر قتیل شفائی تھے اور یہ فلم گمنام میں اداکارہ راگنی پر فلمایا گیا تھا۔ گیت کے بول تھے:
چاندی کی ایک جھنکار پر
کوئی بک گیا سستے مول
فلم گمنام کے مصنف پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی انور کمال پاشا ہی تھے، اب میں آتا ہوں گلوکارہ منور سلطانہ کے گائیکی کے سفر اور اس کی ابتدائی زندگی کی طرف گلوکارہ منور سلطانہ نے 1940 میں آل انڈیا ریڈیو سے اپنی گائیکی کا آغاز کیا تھا۔
اسی زمانے میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر بھی ریڈیو پر کمپوزر ہوتے تھے اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر ہی منور سلطانہ کے پہلے جید استاد تھے اور انھی کے تعاون کی وجہ سے منور سلطانہ آل انڈیا ریڈیو سے موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتی رہی تھی پھر ہندوستان کی تقسیم ہوگئی تھی اور ہندوستان میں مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں نظر انداز کیا جانے لگا تھا، اسی دوران منور سلطانہ نے ہندوستان سے ہجرت کی اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئی تھی اور لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔
یہاں بھی اس نے ابتدا میں لاہور ریڈیو ہی سے موسیقی کے پروگراموں کا آغاز کیا اور پھر اسی دوران پاکستان کی لٹی پٹی فلم انڈسٹری کو بحال کرنے کے لیے کچھ لوگوں نے کوششیں کی تھیں اور 1948 میں پاکستان میں پہلی فلم تیری یاد کا آغاز ہوا تھا اور منور سلطانہ کو بھی یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی پہلی فلم میں پلے بیک گیتوں کا آغاز کیا تھا، اس فلم کے ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ اس کی ہیروئن آشا پوسلے اور ہیرو نام ور اداکار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے۔ اس فلم کے موسیقار اداکارہ آشاپوسلے کے والد عنایت علی ناتھ تھے۔
(جاری ہے)
گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے مینار پاکستان والے جلسے میں کچھ دیر تک ایک کبوتر بھی منظر عام پر آگیا تھا اور اب کبوتر کو بھی سیاسی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جب کہ سفید کبوتر امن کی علامت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے، مگر ہمیں اس سیاسی کبوتر سے وہ فلمی کبوتر یاد آگیا اور بڑی شدت کے ساتھ یاد آیا ہے۔
جو ایک پنجابی فلم '' دلا بھٹی'' میں صبیحہ خانم کے ہاتھوں میں نظر آیا تھا اور صبیحہ خانم نے اس کبوتر کے پیروں میں ایک چٹھی اپنے محبوب کے نام باندھ کر بڑی دعاؤں کے ساتھ اڑا دیا تھا اور صبیحہ کے ہونٹوں پر ایک گیت ابھر کر آیا تھا اور وہ گیت اس دور کی مشہور گلوکارہ منور سلطانہ نے گایا تھا۔ گیت کے بول بھی ایک عاشق کے لیے اس کی محبوبہ کے دل کی آواز تھے:
واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا، وے کبوترا
میرے اس کالم کی شخصیت اپنے وقت کی مشہورگلوکارہ منور سلطانہ ہے۔ جس نے بے شمار پنجابی اور اردو فلموں کے گیت گائے تھے اور اس کا ہر گیت اس دور میں فلم بینوں کے دلوں پر دستک دیتا تھا جب کہ اسی دور میں میڈم نور جہاں کے گیتوں کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا تھا مگر گلوکارہ منور سلطانہ کی آواز میں بھی ایک خوشبو تھی جو سروں کے ساتھ ہر طرف بکھری ہوئی تھی۔
گلوکارہ منور سلطانہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تو بعد میں آؤں گا، پہلے اس کے چند سپر ہٹ گیتوں کا تذکرہ کرتا چلوں جو اس وقت زبان زد خاص و عام تھے۔ مصنف ، فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم سرفروش کا یہ گیت بھلا کون بھول سکتا ہے جس کے بول تھے:
اک چور اک لٹیرا
بس کر مری نظر میں
دل گیا ہے میرا، اک چور اک لٹیرا
یہ گیت ہندوستان سے آئی ہوئی مشہور اداکارہ میناشوری پر فلمایا تھا جو بمبئی کی بہت سی فلموں میں کام کرچکی تھی اور وہ مشہور ہدایت کار روپ کے۔ شوری کی بیوی بھی تھی۔ اسی فلم '' سرفروش'' میں ہیرو سنتوش کمارکا ایک ڈائیلاگ بھی اس زمانے میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ '' چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض۔''
اب میں آتا ہوں منور سلطانہ کے ایک اور مشہور گیت کی طرف جس کے شاعر قتیل شفائی تھے اور یہ فلم گمنام میں اداکارہ راگنی پر فلمایا گیا تھا۔ گیت کے بول تھے:
چاندی کی ایک جھنکار پر
کوئی بک گیا سستے مول
فلم گمنام کے مصنف پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی انور کمال پاشا ہی تھے، اب میں آتا ہوں گلوکارہ منور سلطانہ کے گائیکی کے سفر اور اس کی ابتدائی زندگی کی طرف گلوکارہ منور سلطانہ نے 1940 میں آل انڈیا ریڈیو سے اپنی گائیکی کا آغاز کیا تھا۔
اسی زمانے میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر بھی ریڈیو پر کمپوزر ہوتے تھے اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر ہی منور سلطانہ کے پہلے جید استاد تھے اور انھی کے تعاون کی وجہ سے منور سلطانہ آل انڈیا ریڈیو سے موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتی رہی تھی پھر ہندوستان کی تقسیم ہوگئی تھی اور ہندوستان میں مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں نظر انداز کیا جانے لگا تھا، اسی دوران منور سلطانہ نے ہندوستان سے ہجرت کی اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئی تھی اور لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔
یہاں بھی اس نے ابتدا میں لاہور ریڈیو ہی سے موسیقی کے پروگراموں کا آغاز کیا اور پھر اسی دوران پاکستان کی لٹی پٹی فلم انڈسٹری کو بحال کرنے کے لیے کچھ لوگوں نے کوششیں کی تھیں اور 1948 میں پاکستان میں پہلی فلم تیری یاد کا آغاز ہوا تھا اور منور سلطانہ کو بھی یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی پہلی فلم میں پلے بیک گیتوں کا آغاز کیا تھا، اس فلم کے ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ اس کی ہیروئن آشا پوسلے اور ہیرو نام ور اداکار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے۔ اس فلم کے موسیقار اداکارہ آشاپوسلے کے والد عنایت علی ناتھ تھے۔
(جاری ہے)