نان ٹمبر فارمنگ کا شعبہ غیرفعال ہونے سے ہزاروں دیہی خواتین بے روزگار

چھانگا مانگا میں پاکستان کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے اور یہ مقامی لوگوں کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے


آصف محمود November 15, 2023
فوٹو : آصف محمود

پنجاب میں نان ٹمبر فارمنگ کا شعبہ غیرفعال ہونے سے ریشم سازی، مگس بانی، ادویاتی پودوں اور مشروم فارمنگ سے جڑے چار ہزار خاندان خاص طور پر دیہی خواتین بے روزگار ہوگئی ہیں۔

ضلع قصور کے علاقے چھانگا مانگا کی رہائشی 45 سالہ بشیراں بی بی اور 50 سالہ صغریٰ بی بی گزشتہ دو دہائیوں سے اپنے گھر میں ریشم کے کیڑے پال رہی ہیں۔ انہیں ہر سیزن میں 40 سے 50 ہزار روپے آمدن ہوجاتی ہے لیکن اس سال انہیں مطلوبہ مقدار میں سلک سیڈ مل سکا اور نہ ہی شہتوت کے پتے میسر تھے جس کی وجہ سے انہوں نے جو تھوڑے، بہت کیڑے پالے تھے وہ مرگئے ہیں۔ ان خواتین کی طرح چھانگا مانگا کی رہائشی درجنوں خواتین کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔

چھانگا مانگا میں پاکستان کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے اور یہ مقامی لوگوں کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مقامی لوگ کئی دہائیوں سے گھروں میں ریشم کے کیڑے پالتے ہیں اور ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔ چھانگا مانگا کے علاوہ چیچہ وطنی، منڈی بہاؤالدین، کمالیہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، رجانہ، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں لوگ گھروں میں ریشم کے کیڑے پالتے اور ٹوکری سازی کرتے ہیں جو اب بے روزگار ہوگئے ہیں۔

پنجاب حکومت نے محکمہ جنگلات سے منسلک شعبہ سیری کلچر کو ڈائر یکٹوریٹ آف نان ٹمبر فارمنگ میں اَپ گریڈ کرنے کے لیے مالی سال 21-2020ء میں تین سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا جس کے لیے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے 136 ملین کے فنڈز جاری کیے تھے۔ منصوبے کے پہلے سال تقریباً 17.5 ملین کی لاگت سے مختلف اہداف حاصل کیے گئے جس میں فارمرز کی ٹریننگ کا کام بھی شامل تھا جبکہ دوسرے سال ڈائریکٹر نان ٹمبر فارمنگ کی پوسٹ پر تعیناتی کے لیے محکمہ جنگلات اور شعبہ سیری کلچر کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی جو عدالت تک جاپہنچی اور اب یہ منصوبہ تقریباً غیرفعال ہوچکا ہے۔

سلک فارمنگ اینڈ ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر رانا سعید انور کہتے ہیں کہ ان کا ہدف نان ٹمبر فارمنگ کے ذریعے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ جبکہ دوسرے مرحلے میں 10 لاکھ خاندانوں خاص طور پر دیہی خواتین کو روزگار فراہم کرنا تھا تاکہ انہیں معاشی طور پر خود مختار بنایا جاسکا۔

انہوں نے بتایا کہ پراجیکٹ کے چند ماہ میں ہی دوہزار خاندانوں کو رجسٹرڈ کرلیا گیا تھا لیکن اب یہ منصوبہ تقریباً ڈیڑھ سال سے غیرفعال ہوچکا ہے۔ پراجیکٹ کے تحت ریشم سازی، شہد کی پیداوار، ادویاتی پودوں کی کاشت اور مشروم کی پیداوار شامل ہے۔ شہتوت کے درختوں کے نیچے ہی شہد کی مکھیوں کے باکس رکھے جاتے ہیں اور اسی رقبے میں مختلف قسم کے میڈیسن پلانٹ جن میں سونف، تلسی، مورنگا، ایلوویرا، کلونجی، اجوائن سمیت دیگر پودے شامل ہیں۔ اس وقت یہ تمام ادویاتی پودے براستہ دبئی انڈیا سے منگوائے جا رہے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر سیری کلچر ندا زہرا نے بتایا کہ گزشتہ دو سال سے سیری کلچر کو حکومت کی طرف سے کوئی فنڈز نہیں ملے ہیں۔ چھانگا مانگا سمیت مختلف مقامات پر جاپانی شہتوت کے جو پودے اور درخت لگائے گئے تھے ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نان ٹمبر فارمنگ کا جو تین سالہ پراجیکٹ تھا وہ سابق سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات پنجاب نے بند کر دیا تھا۔ سیری کلچر کا شعبہ اب کسی پراجیکٹ پر کام نہیں کر رہا ہے البتہ نان ٹمبر فارمنگ ڈائریکٹوریٹ کی بحالی سے متعلق معاملہ چونکہ لاہور ہائیکورٹ میں ہے جب تک عدالت سے کوئی فیصلہ نہیں آجاتا اس وقت تک اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

دوسری طرف، سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات پنجاب مدثر وحید ملک نے بتایا اس وقت چھانگا مانگا سمیت پنجاب کے پانچ مقامات جہاں پہلے سے ہی ریشم سازی کی جا رہی ہے ان علاقوں میں دو ہزار ایکڑ پر ہائبرڈ شہتوت کی کاشت کی جا رہی ہے جس سے امید ہے کہ ریشم سازی سے جڑے فارمر چاہے وہ کسی پرائیویٹ ادارے سے سلک سیڈ خریدتے ہیں یا نان ٹمبر فارمنگ ڈائریکٹوریٹ انہیں سیڈ مہیا کرے گا انہیں کیڑے پالنے میں مشکل پیش نہیں آئیگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں