پاک ازبک اورافغانستان تجارتی مسائل

پاکستان کے پاس سی پیک کو اُن نئے روٹس کے ساتھ جوڑنے کا موقع ہے


Editorial November 16, 2023
پاکستان کے پاس سی پیک کو اُن نئے روٹس کے ساتھ جوڑنے کا موقع ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان، ازبکستان اور افغانستان سہ فریقی پہلے اجلاس میں تینوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی گئی، تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے، کسٹمز کے طریقہ کار کو آسان بنانے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔

اس موقعے پر نگران وزیر تجارت نے کہا کہ سہ فریقی تعاون سے تینوں ممالک میں اقتصادی ترقی کو تیز کرنے میں مدد ملے گی، ہم خطے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

ازبکستان بیرونی تجارت کے لیے ایرانی بندرگاہ بندر عباس استعمال کررہا ہے لیکن ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اور فاصلے میں کمی کے لیے متبادل بندرگاہ بھی چاہتا ہے ۔ ازبکستان کی یہ ضرورت پاکستان کی بندرگاہیں باآسانی پوری کر سکتی ہیں۔ساڑھے تین کروڑ آبادی پر مشتمل ازبکستان وسطی ایشیا کی ایسی خوشحال ریاست ہے جس کی کوئی سرحد سمندر سے نہیں ملتی۔

یہ نہ صرف خود سمندری حدود سے محروم ہے بلکہ اِس کے تمام ہمسایہ ممالک جن میں شمال مغرب میں قازقستان، مشرق میں تاجکستان، کرغزستان، جنوب میں ترکمانستان اور افغانستان شامل ہیں، یہ ممالک بھی سمندری بندرگاہوں سے محروم خشکی میں گھرے ممالک ہیں۔ ایک طرف سے روس اور چین جیسے بڑے اور طاقتور ممالک نے خطے کو گھیر رکھا ہے جب کہ دوسری طرف ترکی اور ایران ہیں۔

ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر اسی ملک کے علاقے فرغانہ کے شہر اندجان میں پیدا ہوئے۔ اِس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس ملک کے جنوبی ایشیا سے مذہبی، ثقافتی اور نسلی مراسم صدیوں پر محیط ہیں۔ 1991 میںازبکستان کی آزادی کے بعد سے جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلقات قائم ہیں جن میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔

گزشتہ برس دونوں ملکوں کے تجارتی حجم میں پچاس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن اِسے بہت بہتر نہیں کہہ سکتے۔ دونوں ممالک میں تعاون کے بے شمار موقع ہونے کے باوجود یہ صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ تجارت کے علاوہ فنی تعاون کی بھی کافی گنجائش ہے۔ پاکستان کو طویل عرصے سے توانائی کی قلت کا سامنا ہے جب کہ ازبکستان پاور پلانٹس میں ترقی یافتہ ہے۔ اِن تجربات سے فائدہ اُٹھا کر ملک کی توانائی کی طلب پوری کی جا سکتی ہے۔

ازبکستان کے پاس ملکی ضروریات سے بجلی وافر ہے یہ اضافی بجلی افغانستان کو فروخت بھی کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ ترجیحی تجارتی معاہدے کے ساتھ دیگر شعبوں جیسے ریلوے، سیاحت، موسمیاتی تبدیلیوں، سرمایہ کاری، توانائی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کے نئے معاہدوں کے ساتھ 9 یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے جس سے قریبی تعاون میں اضافہ متوقع ہے۔

ازبکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے معروف ہے۔ چین، روس اور یورپ کے کئی ممالک اُس سے کپاس خریدتے ہیں کیونکہ اُس کی کپاس کا معیار اچھا ہے، نیز وہ کم پانی سے فصلیں اُگاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستان بھی اپنی زراعت کو بہتر بنا کر پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ دونوں ممالک نے یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے وفود بھیجنے پر جو اتفاق کیا ہے اُسے باہمی ریسرچ سے فائدہ اُٹھانے اور مشترکہ تحقیقات کے فروغ تک وسعت دیں۔

پاکستان غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور اس سے قومی معیشت کو سالانہ 8 ہزار ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق غیر قانونی تجارت کا مجموعی حجم معیشت کا 10 فیصد ہے، غیرقانونی تجارت کی فنڈنگ اور معاونت جرائم پیشہ عناصر کرتے ہیں، غیرقانونی تجارت انڈر انوائسنگ، ہنڈی حوالہ، ورکرز ترسیلات اور روپے کی قدر پر اثر انداز ہوتی ہے۔

غیر قانونی تجارت کرنے والے سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں، ماحول دشمن، غیر معیاری اور جان لیوا اشیاء بیچتے ہیں، کمزور سیاسی عزم اور ذاتی مفادات اسے قابو کرنے کی کوششوں کو روکتی ہیں، ٹیکسوں کی بلند شرح ٹیکس نہ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھا جنھوں نے افغانستان کی سابقہ طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا، اب دوسری بار طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اس کی وجہ افغانستان کی عبوری حکومت کا پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں دینا، انھیں ٹریننگ کیمپ چلانے اور انھیں کاروبار کی اجازت دینا ہے۔

پاک افغان سرحدکو محفوظ نہ بنانا اور سرحدی حد بندی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا، پاکستان میں دراندازی کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کرنا،اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت ختم کرنے کے لیے اپنی جانب سخت اقدامات نہ کرنا اور پاکستان کے اقدامات کو سبوتاژ کرنا ، پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرنا جیسے ایشوز شامل ہیں۔

وسطی ایشیائی ریاستوں، پاکستان اور افغانستان کے پاس بہت سے ناتمام منصوبوں کی تلخ یادیں ہیں جو ابھی تک مکمل نہیں ہوسکے ہیں جیسے کہ CASA-100 بجلی کا منصوبہ جو وسطیٰ ایشیا کو پاکستان سے ملاتا ہے اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ، ان اقدامات میں بنیادی طور پر سیکیورٹی خدشات اور پیچیدہ علاقائی تزویراتی منظرناموں کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔

طالبان بین الاقوامی منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنا سکتے ہیں، لیکن اس طرح کے اقدامات کے لیے سازگار اسٹرٹیجک اور سیاسی ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہو سکتا۔ کئی نئے تجارتی راستے، جنھیں طویل تاخیر کا سامنا تھا، اب کھل رہے ہیں۔ ان میں انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) شامل ہے، جو ساڑھے 4 ہزار میل ریل روڈ، ہائی ویز اور شپنگ روٹس پر محیط ہے جو قفقاز کے علاقے سے گزرتا ہے، جو جون 2022میں کھلا تھا۔

پاکستان کے پاس سی پیک کو اُن نئے روٹس کے ساتھ جوڑنے کا موقع ہے۔ البتہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اجازت ناموں کے طویل انتظار کے ساتھ ساتھ تاجروں کو دونوں طرف سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر اسمگلنگ کی وجہ سے قانونی تجارت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان ایک عرصے سے افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ کرنے اور وسط ایشیا کی منڈی تک رسائی کے لیے کوشاں ہے تاہم ان ممالک تک رسائی اور تجارت بڑھانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو بڑھانے پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا ہے اور وزراء نے روایتی اشیاء سے ہٹ کر تجارت کو متنوع بنانے اور اقتصادی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور تجارتی بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر اورکنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے پر بات چیت کی گئی۔افغانستان اور پاکستان جس خطے میں واقع ہیں، یہ وسط ایشیاء کا دروازہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قانونی تجارت کرنے والے تاجروںکو سرحدپر بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔

سرحدی راہداری اور تجارتی قوانین کا جامع نہ ہونا، جدید ٹیکنالوجی نہ ہونا، بجلی، انٹرنیٹ اور جدید اسکینرز کی سہولت نہ ہونا، ایسے عوامل ہیں جس کا فائدہ اسمگلرز اور دہشت گرد اٹھا رہے ہیں جب کہ قانونی تجارت کا حجم کم ہے۔ افغانستان کی چیک پوسٹوں پر پاکستانی تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہیں۔دونوں ممالک کے عوام اور تاجر برادری کی خواہش ہے کہ تجارت اور آمد و رفت میں آسانی لائی جائے۔

قانونی تجارت کے تحت افغانستان سے پچیس فیصد اشیا پاکستان میں درآمد کی جاتی ہیں، پچھتر فیصد اشیا پاکستان سے برآمد کی جاتی ہیں کیونکہ پاکستان کی صنعتیں فعال ہیں۔ اگر اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کے راستے بند ہوجائیں، سرحدی کنٹرول سخت ہوجائے تو قانونی تجارت کا حجم کئی بڑھ جائے گا، جس سے افغانستان کے قومی خزانے میں زرمبادلہ بڑھے گا اور پاکستان کا قومی خزانہ بھی فوائد سے مستفید ہوگاجب کہ قانونی تجارت کرنے والے تاجر بھی مطمئن ہوں گے۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ایک عرصے سے افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ وہاں سے دہشت گرد پاکستان آتے ہیں، حملے کرتے ہیں اور واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔

افغان طالبان حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر انھوں نے اس موقعے پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی تو یقینا پاکستان کو طالبان حکومت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔

لینڈ لاک اور جنگ زدہ افغانستان کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے، جو کاروباری سرگرمیاں ہورہی ہیں، وہ روایتی لین دین کے اصولوں پر ہورہی ہیں، ماڈرن بینکنگ سسٹم موجود نہیں ہے اور اس کا تمام تر انحصار ہمسایہ ممالک پر ہے، اگر دونوں حکومتیں چاہیں تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ پالیسی کا تعین تو حکومتیں کرسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں