جھوٹے اعلانات پرگرفت کیوں نہیں
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی جھوٹے وعدوں کے انبار لگانا شروع کر دیے ہیں
الیکشن کمیشن انتخابات کے موقع پر ضابطہ اخلاق جاری کرتا ہے اور سیاسی پارٹیوں اور الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں پر اس ضابطہ اخلاق کی پابندی لازم ہے۔
امیدواروں پر انتخابی اخراجات کی پابندی لگائی جاتی ہے جن پر عمل نہیں ہوتا یا برائے نام ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن زیادہ تر خلاف ورزیوں پر خاموش ہی رہتا ہے، کیونکہ اسے بھی پتا ہے کہ پابندیوں پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ ملک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ حکومت بھی اکثر قوانین دکھائوے کے لیے بناتی ہے۔ حکومت بھی ایسے قوانین بنا دیتی ہے جن پر وہ عمل نہیں کرا سکتی، اسی طرح الیکشن کمیشن بھی الیکشن کے لیے ایسے ضابطے اور قانون نافذ کرتا ہے جس پر وہ عمل کرا سکتا ہے اور نہ عمل ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن ایک کھیل ہے جسے کھیلنے کے لیے بہت بڑی رقومات اور جھوٹے اعلانات کے بغیر نہیں کھیلا جاسکتا، جس طرح الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کی حد امیدوارکے لیے مقررکرتا ہے وہ غیر حقیقی ہوتی ہے اور امیدواروں کو اس کے برعکس بہت زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اور اگر امیدوار جیت جائے تو اسے انتخابی گوشواروں میں اخراجات کی تفصیل دینا پڑتی ہے جو غلط اور جھوٹوں پر مبنی ہوتی ہے۔
امیدواروں نے اس پابندی کا توڑ بھی نکال لیا ہے۔ امیدواروں نے اپنے حامیوں اور دوستوں کے نام سے انتخابی بینرز اور پوسٹروں کے علاوہ اشتہارات بھی اپنے حق میں لگوانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن میں امیدوار کو ووٹ دینے کا ذکر اس کے حامیوں کی طرف سے ضرور ہوتا ہے مگر ووٹ دینے کی اپیل کرنے والوں میں اس کے حامیوں کا نام ہوتا ہے کہ منجانب فلاں فلاں۔
34 سال قبل شکارپور میں ملک کے دو اہم سیاستدانوں نے راقم کے سامنے کہا تھا کہ اب الیکشن لڑنا آسان نہیں اخراجات بڑھ گئے ہیں اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے کم ازکم ایک کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 34 سال قبل کی گئی بات کا ایک کروڑ روپے آج کئی کروڑ روپے بن چکے ہیں، شاید حکومت اور الیکشن کمیشن کو نہیں پتا کہ مہنگائی کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اب ووٹ مفت میں نہیں ملتے ۔ انتخابات کے موقعہ پر ووٹوں کی خرید و فروخت کی خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔
ووٹ کے بدلے نوٹ کے اصول پر بھی حلف اور ضمانتیں لی جاتی ہیں کہ نوٹ لے کر ووٹر منحرف نہ ہو جائیں، اس لیے ووٹروں کے شناختی کارڈ لے لیے جاتے ہیں اور ووٹر جب ووٹ دینے آتا ہے تو اس کا این آئی سی اسے واپس کردیا جاتا ہے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی کہ ووٹ مجھے ہی دیا گیا ہے یا مخالف امیدوار سے رقم زیادہ لے کر اسے دے دیا گیا ہو کیونکہ پولنگ بوتھ پر ووٹر تنہا ہوتا ہے اس کی مرضی جسے چاہے ووٹ دے۔
انتخابی مہم میں سو قسم کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کی رقم کے علاوہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن لانے کے لیے گاڑیوں کا انتظام، الیکشن کیمپوں میں ووٹرزکو بٹھانے، انھیں کھانا کھلانے، ذاتی تشہیر کے علاوہ الیکشن والے دن پولنگ ایجنٹ بھی پیسوں پر حاصل کیے جاتے ہیں، دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔
پولنگ اسٹیشنوں پر سرکاری عملے کے چائے کھانے کا انتظام بھی حکومت نہیں امیدواروں کو کرنا پڑتا ہے اور بعض جگہوں پر سرکاری عملے کی تعیناتی بھی مفت نہیں کرائی جاتی۔ رقم کے علاوہ اثر و رسوخ پر بھی توجہ دینا پڑتی ہے اور سرکاری عملے کی اپنے حق میں خدمات پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، تب کہیں الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی الیکشن کے اخراجات کی جو حدیں مقرر کی ہیں وہ اتنی غیر حقیقی ہیں کہ ان پر عمل ہو نہیں سکتا۔ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی عہدوں پر کامیابی کے لیے بھی صوبائی نشست جیسے اخراجات لگ جاتے ہیں۔ ملک کے اعلیٰ پارلیمانی ادارے سینیٹ کے ووٹ کروڑوں میں ملتے ہیں تو کونسلروں سے ووٹ لینا بھی آسان نہیں ہوتا، اس پر بھی رقم خرچ ہوتی ہے اور یونین کونسل سے قومی اسمبلی تک کا الیکشن بڑی رقم خرچ کیے بغیر ممکن ہی نہیں اور اسی کا نام الیکشن ہے۔
الیکشن کمیشن نے ہونے والے انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کا جو ابتدائی ڈرافٹ تیار کیا ہے اس میں وہی پرانی پابندیاں دہرائی گئی ہیں جن پر ماضی میں کوئی عمل ہوا ہے نہ آیندہ ہونے کی توقع ہے جن میں ایک یہ ہے کہ سرکاری وسائل انتخابی مہم میں استعمال نہیں ہوں گے اور جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کی ہدایت بھی شامل ہے۔
خواتین کو ٹکٹ دینا تو دور کی بات کے پی اور بلوچستان میں تو خواتین کو ووٹ دینے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے مگر جہاں خواتین کو ووٹ کا حق استعمال نہیں کرنے دیا جاتا وہاں خواتین کے ووٹ کاسٹ نہ ہونے پر انتخابی نتائج روکنے کی پابندی نہیں ہے اور مردوں کے ووٹوں سے ہی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خواتین کے کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے اگر ووٹنگ کے وقت یہ بھی طے کر دیا جائے کہ جہاں خواتین کے کم ازکم کتنے فیصد ووٹ کاسٹ ہونا ضروری ہیں ورنہ نتائج روک لیے جائیں گے۔
خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے مگر بعض حلقوں میں خواتین کے ووٹ بہت ہی کم استعمال ہوتے ہیں، انھیں حق رائے دہی دینے کے جھوٹے وعدے اور اعلانات تو کیے جاتے ہیں مگر انھیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور عوام کو سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشوروں میں جھوٹے وعدے کرتی ہیں اور ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت پی ٹی آئی ہے جس کے چیئرمین نے ایک کروڑ گھر اور پچاس لاکھ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا اور اب اسی پی ٹی آئی والے آئی پی پی کی شکل میں تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا خواب دکھا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی جھوٹے وعدوں کے انبار لگانا شروع کر دیے ہیں۔ یہی تینوں پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں مگر تینوں نے اکثر اپنے اعلانات پر عمل نہیں کیا مگر کسی کی بھی گرفت نہیں ہوئی جو قوم سے دھوکا ہے۔
امیدواروں پر انتخابی اخراجات کی پابندی لگائی جاتی ہے جن پر عمل نہیں ہوتا یا برائے نام ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن زیادہ تر خلاف ورزیوں پر خاموش ہی رہتا ہے، کیونکہ اسے بھی پتا ہے کہ پابندیوں پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ ملک میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ حکومت بھی اکثر قوانین دکھائوے کے لیے بناتی ہے۔ حکومت بھی ایسے قوانین بنا دیتی ہے جن پر وہ عمل نہیں کرا سکتی، اسی طرح الیکشن کمیشن بھی الیکشن کے لیے ایسے ضابطے اور قانون نافذ کرتا ہے جس پر وہ عمل کرا سکتا ہے اور نہ عمل ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن ایک کھیل ہے جسے کھیلنے کے لیے بہت بڑی رقومات اور جھوٹے اعلانات کے بغیر نہیں کھیلا جاسکتا، جس طرح الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کی حد امیدوارکے لیے مقررکرتا ہے وہ غیر حقیقی ہوتی ہے اور امیدواروں کو اس کے برعکس بہت زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اور اگر امیدوار جیت جائے تو اسے انتخابی گوشواروں میں اخراجات کی تفصیل دینا پڑتی ہے جو غلط اور جھوٹوں پر مبنی ہوتی ہے۔
امیدواروں نے اس پابندی کا توڑ بھی نکال لیا ہے۔ امیدواروں نے اپنے حامیوں اور دوستوں کے نام سے انتخابی بینرز اور پوسٹروں کے علاوہ اشتہارات بھی اپنے حق میں لگوانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن میں امیدوار کو ووٹ دینے کا ذکر اس کے حامیوں کی طرف سے ضرور ہوتا ہے مگر ووٹ دینے کی اپیل کرنے والوں میں اس کے حامیوں کا نام ہوتا ہے کہ منجانب فلاں فلاں۔
34 سال قبل شکارپور میں ملک کے دو اہم سیاستدانوں نے راقم کے سامنے کہا تھا کہ اب الیکشن لڑنا آسان نہیں اخراجات بڑھ گئے ہیں اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے کم ازکم ایک کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 34 سال قبل کی گئی بات کا ایک کروڑ روپے آج کئی کروڑ روپے بن چکے ہیں، شاید حکومت اور الیکشن کمیشن کو نہیں پتا کہ مہنگائی کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اب ووٹ مفت میں نہیں ملتے ۔ انتخابات کے موقعہ پر ووٹوں کی خرید و فروخت کی خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔
ووٹ کے بدلے نوٹ کے اصول پر بھی حلف اور ضمانتیں لی جاتی ہیں کہ نوٹ لے کر ووٹر منحرف نہ ہو جائیں، اس لیے ووٹروں کے شناختی کارڈ لے لیے جاتے ہیں اور ووٹر جب ووٹ دینے آتا ہے تو اس کا این آئی سی اسے واپس کردیا جاتا ہے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی کہ ووٹ مجھے ہی دیا گیا ہے یا مخالف امیدوار سے رقم زیادہ لے کر اسے دے دیا گیا ہو کیونکہ پولنگ بوتھ پر ووٹر تنہا ہوتا ہے اس کی مرضی جسے چاہے ووٹ دے۔
انتخابی مہم میں سو قسم کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کی رقم کے علاوہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن لانے کے لیے گاڑیوں کا انتظام، الیکشن کیمپوں میں ووٹرزکو بٹھانے، انھیں کھانا کھلانے، ذاتی تشہیر کے علاوہ الیکشن والے دن پولنگ ایجنٹ بھی پیسوں پر حاصل کیے جاتے ہیں، دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔
پولنگ اسٹیشنوں پر سرکاری عملے کے چائے کھانے کا انتظام بھی حکومت نہیں امیدواروں کو کرنا پڑتا ہے اور بعض جگہوں پر سرکاری عملے کی تعیناتی بھی مفت نہیں کرائی جاتی۔ رقم کے علاوہ اثر و رسوخ پر بھی توجہ دینا پڑتی ہے اور سرکاری عملے کی اپنے حق میں خدمات پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، تب کہیں الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی الیکشن کے اخراجات کی جو حدیں مقرر کی ہیں وہ اتنی غیر حقیقی ہیں کہ ان پر عمل ہو نہیں سکتا۔ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی عہدوں پر کامیابی کے لیے بھی صوبائی نشست جیسے اخراجات لگ جاتے ہیں۔ ملک کے اعلیٰ پارلیمانی ادارے سینیٹ کے ووٹ کروڑوں میں ملتے ہیں تو کونسلروں سے ووٹ لینا بھی آسان نہیں ہوتا، اس پر بھی رقم خرچ ہوتی ہے اور یونین کونسل سے قومی اسمبلی تک کا الیکشن بڑی رقم خرچ کیے بغیر ممکن ہی نہیں اور اسی کا نام الیکشن ہے۔
الیکشن کمیشن نے ہونے والے انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کا جو ابتدائی ڈرافٹ تیار کیا ہے اس میں وہی پرانی پابندیاں دہرائی گئی ہیں جن پر ماضی میں کوئی عمل ہوا ہے نہ آیندہ ہونے کی توقع ہے جن میں ایک یہ ہے کہ سرکاری وسائل انتخابی مہم میں استعمال نہیں ہوں گے اور جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کی ہدایت بھی شامل ہے۔
خواتین کو ٹکٹ دینا تو دور کی بات کے پی اور بلوچستان میں تو خواتین کو ووٹ دینے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے مگر جہاں خواتین کو ووٹ کا حق استعمال نہیں کرنے دیا جاتا وہاں خواتین کے ووٹ کاسٹ نہ ہونے پر انتخابی نتائج روکنے کی پابندی نہیں ہے اور مردوں کے ووٹوں سے ہی امیدوار کی کامیابی کا اعلان کردیا جاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خواتین کے کتنے ووٹ کاسٹ ہوئے اگر ووٹنگ کے وقت یہ بھی طے کر دیا جائے کہ جہاں خواتین کے کم ازکم کتنے فیصد ووٹ کاسٹ ہونا ضروری ہیں ورنہ نتائج روک لیے جائیں گے۔
خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے مگر بعض حلقوں میں خواتین کے ووٹ بہت ہی کم استعمال ہوتے ہیں، انھیں حق رائے دہی دینے کے جھوٹے وعدے اور اعلانات تو کیے جاتے ہیں مگر انھیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور عوام کو سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں اپنے منشوروں میں جھوٹے وعدے کرتی ہیں اور ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت پی ٹی آئی ہے جس کے چیئرمین نے ایک کروڑ گھر اور پچاس لاکھ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا اور اب اسی پی ٹی آئی والے آئی پی پی کی شکل میں تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا خواب دکھا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی جھوٹے وعدوں کے انبار لگانا شروع کر دیے ہیں۔ یہی تینوں پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں مگر تینوں نے اکثر اپنے اعلانات پر عمل نہیں کیا مگر کسی کی بھی گرفت نہیں ہوئی جو قوم سے دھوکا ہے۔