پینڈو

اکیسویں صدی میں بھی ہم اس شہری اور پینڈو کی سوچ میں پھنسے ہوئے ہیں

دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے افراد بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ (فوٹو: فائل)

فاریہ کےلیے خرم کا رشتہ آیا تھا۔ سب لڑکیوں کی طرح اس کے دل میں بھی اپنے جیون ساتھی کو لے کر بہت سے ارمان تھے۔ خرم تعلیم یافتہ اور اچھی پوسٹ پر تھا، فاریہ کو پسند بھی تھا۔ یہ رشتہ محلے کی آنٹی کے توسط سے آیا تھا لیکن مسئلہ اب فاریہ کے گھر والوں کی طرف سے تھا کہ انھیں خرم سے تو کوئی شکایت نہ تھی لیکن اس کے خاندان والوں سے گلہ ضرور پیدا ہوگیا تھا۔ اور وجہ بہت چھوٹی سی تھی جس کی وجہ سے رشتہ ہی ختم کردیا گیا تھا۔ اور وجہ تھی لڑکے کے خاندان کا پینڈو ہونا یعنی دیہی ماحول سے تعلق۔


کسی نے بھی نہ فاریہ کی پسند کو مدنظر رکھا، نہ اس کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچا، بلکہ خرم کے رشتے پر ایک کراس لگا دیا۔ جہاں تک رہی خرم کی بات وہ بھی ایک مشرقی لڑکا تھا جہاں اس کے خاندان کی صرف پینڈو ہونے کی وجہ سے سبکی ہوئی ہو وہ وہاں تعلق بنانے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتا تھا۔ سو یہ چیپٹر ہی کلوز ہوگیا۔


اس سب کہانی کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے اور اب بھی کم و بیش یہی ہورہا ہے۔ جب ہمیں کسی شخص کی قابلیت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی اور ہم اسے آسانی سے نیچا نہیں دکھا سکتے تو ہم اس کی ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور اس کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا کر اس کا اعتماد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


یہ بحث گورے کالے، تعلیم یافتہ یا ان پڑھ، موٹے پتلے تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ بڑھتے بڑھتے قومیت اور فرقہ پرستی تک بھی پھیلنے لگتی ہے۔ حالانکہ یہ بات طے ہے کہ گورے اور کالے رنگ پر کسی کا کوئی اختیار نہیں، موٹے اشخاص کو بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں اور موٹاپا موروثی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن کبھی انھیں زیادہ کھانے کے طعنے دیے جاتے ہیں تو کبھی انھیں دھرتی پر بوجھ ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔


تعلیم یافتہ اگر بدتہذیبی کا بھی مظاہرہ کرلے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔ کہیں ایک جملہ پڑھا جو بہت اچھا لگا کہ امیر آدمی جب غصہ کرے، بدتمیزی کرے تو کہتے ہیں کہ صاحب کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے اور غریب آدمی اپنا جائز غصہ بھی دکھائے، اپنی بے بسی کا رونا روئے تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ تو پاگل ہوچکا ہے۔ یعنی معاشرے کا دوغلا پن اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔


اب اگر پینڈو والی بات ہی مدنظر رکھی جائے تو کیا کسی انسان کو محض اس لیے مسترد کردینا چاہیے کہ وہ پینڈو ہے یا وہ اردو اور انگریزی میں بات نہیں کرسکتا اور اپنی مادری زبان بولنے میں ہی فخر محسوس کرتا ہے؟


جب کہ دیکھا جائے تو عام شہریوں کی طرح دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے افراد بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں، ان کا بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ہے۔ دیہی علاقے کے گھرانوں کے اکثر لڑکے تعلیم حاصل کرکے بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اور کئی گھرانے اونچی پوسٹ والے لڑکوں سے رشتہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں بھی ایسے ہینڈسم خوبرو اور مالی حیثیت میں مضبوط شوہروں کے سپنے دیکھتی ہیں لیکن اب کیا کیا جائے ہماری فرسودہ سوچ کا۔



زرعی اجناس، اشیائے خورونوش اللہ تعالیٰ کے کرم کے بعد دیہاتی افراد کی محنت ہے اور تو اور ہم سب کے آبا و اجداد بھی کسی نہ کسی گاؤں اور بستی سے ہی آکر شہر میں آباد ہوئے تھے۔ سچ پوچھیے تو دیہاتی افراد شہری افراد کی نسبت صحت مند بھی ہوتے ہیں، بیماریوں سے دور، خالص غذا کے قریب اور متمول بھی۔ اب کسی کا کیا قصور ہے کہ وہ دیہات میں پیدا ہوا، یہ تو ان کی ثقافت ہے، ان کی تہذیب ہے اور مقام افسوس ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم اس شہری اور پینڈو کے گھن چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔


کیا یہی ہماری اخلاقی اقدار ہیں کہ ہم کسی کو اس کی زبان، رہن سہن، فرقے، ثقافت اور ظاہری انداز سے جانچیں۔ جبکہ انسان کو تو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے۔ اگر ہم ایک معاشرے میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں کے مزاج کے مطابق نہ خود ڈھل سکتے ہیں اور نہ لوگوں کو ڈھلنے میں مدد دے سکتے ہیں تو پھر ہم ترقی یافتہ قوم کے بجائے انسانی شکل میں جانور تو ہوسکتے ہیں لیکن انسان ہرگز نہیں۔


ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، آئیے! سب کے ہمقدم ہوکر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کریں اور کسی کی بھی دل شکنی سے گریز کریں کہ یہی انسانیت کی معراج اور اس کی بقا کا راز ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story