سرکاری افسران کو کرپشن انکوائری سے ڈرا کر لوٹنے والا جعلی ایف آئی اے افسر گرفتار
ملزم نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری افسران کا ڈیٹا حاصل کیا
ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل پشاور نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی اے کے جعلی ڈپٹی ڈائریکٹر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔
ملزم نے متعدد سرکاری افسران سے انکوائری کے نام پر کئی تولہ سونا ہتھیا تھا۔
ملزم سجاد حسین کا تعلق ہری پور سے ہے جو پیشے کے اعتبار سے موٹر مکینیک ہے لیکن خود کو حساس ادارے کا افسر بھی ظاہر کرتا رہا۔
سجاد نے سرکاری افسر کو اسپوفنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کالز کیں۔ اس نے خود کو ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ظاہر کر کے متاثرہ افسر کو اس کے خلاف جعلی گولڈ انکوائری کے بارے میں آگاہ کیا۔
ملزم نے واٹس ایپ پر بھی رابطہ کر کے تحصیلدار کے خلاف جعلی انکوائری میں متاثرہ افسر کو ہوٹل میں طلب کیا جہاں اس کے ساتھ متعدد جعلی اہلکار بھی موجود تھے۔ ملزم نے شکایت کنندہ افسر کو من گھڑت گولڈ انکوائری کے نام پر 25 تولے سونے بمعہ رسیدوں کے ساتھ طلب کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل سعد اللہ کی ہدایت پر چھاپہ مار ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو نیب آفس پشاور کے باہر سے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ دوران تلاشی ملزم کے قبضے سے متعدد جعلی شناختی کارڈز، ایف آئی اے کا جعلی سروس کارڈ، اسلحہ لائسنس، 2 موبائل فون برآمد کرلئے گئے۔
دوران تفتیش ملزم نے بڑے انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری افسران کا ڈیٹا حاصل کرتا تھا۔ اس نے سرکاری افسران کا کال ریکارڈ بھی آن لائن معمولی رقم کے عوض حاصل کیا۔
وہ ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد افسران کو کال کر کے جعلی انکوائریوں کے نام پر ہراساں کرتا تھا۔ ملزم نے ماضی میں لیڈی ڈاکٹر اور خاتون افسران سے بھی انکوائریوں کے نام پر گولڈ وصول کیا۔
ملزم نے ہری پور میں بھی خود کو آفیسر ظاہر کر کے متعدد لوگوں سے موبائل فون، نقد اور گولڈ وصول کئے۔ دوران تفتیش ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ ملزم کے خلاف ایبٹ آباد میں بھی اسی نوعیت کے مقدمے درج ہیں اور ایک مقدمے میں 5 سال سے زائد سزا بھی کاٹی ہے۔
ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ایف آئی اے کا کوئی بھی اہلکار کسی انکوائری یا مقدمے میں بذریعہ کال کسی قسم کا رابطہ نہیں کرتا۔ ایف آئی اے نے ایسے جعل ساز عناصر کے خلاف سخت کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے اگر کسی قسم کی کوئی کال آئے تو فورا ایف آئی اے کے قریبی دفتر وزٹ کر کے رپورٹ درج کروائیں۔
ملزم نے متعدد سرکاری افسران سے انکوائری کے نام پر کئی تولہ سونا ہتھیا تھا۔
ملزم سجاد حسین کا تعلق ہری پور سے ہے جو پیشے کے اعتبار سے موٹر مکینیک ہے لیکن خود کو حساس ادارے کا افسر بھی ظاہر کرتا رہا۔
سجاد نے سرکاری افسر کو اسپوفنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کالز کیں۔ اس نے خود کو ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ظاہر کر کے متاثرہ افسر کو اس کے خلاف جعلی گولڈ انکوائری کے بارے میں آگاہ کیا۔
ملزم نے واٹس ایپ پر بھی رابطہ کر کے تحصیلدار کے خلاف جعلی انکوائری میں متاثرہ افسر کو ہوٹل میں طلب کیا جہاں اس کے ساتھ متعدد جعلی اہلکار بھی موجود تھے۔ ملزم نے شکایت کنندہ افسر کو من گھڑت گولڈ انکوائری کے نام پر 25 تولے سونے بمعہ رسیدوں کے ساتھ طلب کیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل سعد اللہ کی ہدایت پر چھاپہ مار ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو نیب آفس پشاور کے باہر سے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ دوران تلاشی ملزم کے قبضے سے متعدد جعلی شناختی کارڈز، ایف آئی اے کا جعلی سروس کارڈ، اسلحہ لائسنس، 2 موبائل فون برآمد کرلئے گئے۔
دوران تفتیش ملزم نے بڑے انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سرکاری افسران کا ڈیٹا حاصل کرتا تھا۔ اس نے سرکاری افسران کا کال ریکارڈ بھی آن لائن معمولی رقم کے عوض حاصل کیا۔
وہ ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد افسران کو کال کر کے جعلی انکوائریوں کے نام پر ہراساں کرتا تھا۔ ملزم نے ماضی میں لیڈی ڈاکٹر اور خاتون افسران سے بھی انکوائریوں کے نام پر گولڈ وصول کیا۔
ملزم نے ہری پور میں بھی خود کو آفیسر ظاہر کر کے متعدد لوگوں سے موبائل فون، نقد اور گولڈ وصول کئے۔ دوران تفتیش ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ ملزم کے خلاف ایبٹ آباد میں بھی اسی نوعیت کے مقدمے درج ہیں اور ایک مقدمے میں 5 سال سے زائد سزا بھی کاٹی ہے۔
ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ایف آئی اے کا کوئی بھی اہلکار کسی انکوائری یا مقدمے میں بذریعہ کال کسی قسم کا رابطہ نہیں کرتا۔ ایف آئی اے نے ایسے جعل ساز عناصر کے خلاف سخت کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے اگر کسی قسم کی کوئی کال آئے تو فورا ایف آئی اے کے قریبی دفتر وزٹ کر کے رپورٹ درج کروائیں۔