لاہور کی بیشتر ہاؤسنگ اسکیموں میں میتوں کی تدفین کیلیے قبرستان موجود نہیں
جب کسی پیارے کی وفات ہوجائے تو تدفین کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
شہر میں تیزی سے ہاؤسنگ اسکمیں بنائی جا رہی ہیں ان میں زیادہ تر ہاؤسنگ اسکیمیں ایسی ہیں جہاں میتوں کی تدفین کے لیے قبرستان بھی موجود نہیں ہیں۔ شہری ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سستے داموں پلاٹ خرید کر گھر تو بنا لیتے ہیں لیکن جب کسی پیارے کی وفات ہوجائے تو اس کی تدفین کے لیے پھر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلال احمد کینال روڈ مناواں کے قریب ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی ہیں۔ گزشتہ دنوں انہیں اور ان کے خاندان کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے والد کی وفات ہوگئی اور قریبی قبرستان میں مقامی لوگوں نے انہیں میت کی تدفین کی اجازت دینے سےانکار کر دیا۔
بلال احمد نے بتایا کہ وہ اپنے والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے پہلے ہی صدمے میں تھے جبکہ قریبی قبرستان میں انہیں اپنے والد کی میت کو دفن کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود جگہ خرید کر قبرستان کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ سے بات کریں کہ میت کی تدفین کہاں کی جائے؟ بلال احمد کے مطابق کئی گھنٹے تک انہیں انتظار کرنا پڑا تھا اور بالآخر مقامی لوگوں نے تدفین کی اجازت دے دی۔
بلال احمد کی طرح غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ اسکیموں میں رہنے والوں کو اکثر ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن ہاؤسنگ اسکیموں کے قریب سرکاری اراضی پر بنائے گئے قبرستان موجود ہیں وہاں تو تدفین کا کوئی مسلہ نہیں ہوتا لیکن جہاں مقامی لوگوں نے مل کر قبرستان کے لیے جگہ خرید کر وقف کی ہیں وہاں باہر سے آنے والوں کی میت کی تدفین کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
لاہور کی ایک مقامی دیہی یونین کونسل کے سابق چیئرمین راشد کرامت بٹ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں دو قبرستان ہیں، ایک قبرستان گاؤں میں رہنے والی برادریوں کا مشترکہ ہے جبکہ دوسرا قبرستان سرکاری جگہ پر ہے یہاں کسی بھی میت کی تدفین کرنے کی اجازت ہے۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق لاہور ڈویژن میں 367 ہاؤسنگ اسکیمیں قانونی جبکہ 236 غیرقانونی قرار دی گئی تھیں۔ ان تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کی فہرست ایل ڈی اے کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہے۔ غیرقانونی قرار دی گئی ہاؤسنگ اسکیموں نے جہاں دیگر کئی بائی لاز کی خلاف ورزی کی وہیں ان سوسائٹیوں نے قانون کے مطابق قبرستان کے لیے جگہ بھی مختص نہیں کی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قانونی قرار دی گئی ہاؤسنگ اسکیموں میں بھی بعض میں قبرستان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے حالانکہ انہوں نے ایل ڈی اے کو جمع کروائے گئے نقشہ جات میں قبرستان کے لیے مختص جگہ کو ظاہر کیا ہے۔
لاہور کے ایک معروف بلڈر و ڈویلپر میاں حبیب الرحمن نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں جو جگہ جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا ایک جال نظر آتا ہے یہ لوگ عوام سے دھوکا کرتے ہیں۔ یہ ایل ڈی اے یا میٹرو پولیٹن کارپوریشن سے منظور نہیں ہوتی ہیں۔ یہ خود ساختہ نقشوں میں ہی لوگوں کو قبرستان کا بتا دیتے ہیں یا پھر کسی قریبی علاقے کے قبرستان کو سوسائٹی کا قبرستان بتا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان سوسائٹیز میں پلاٹ چونکہ سستے اور اکثر قسطوں پر بیچے جاتے ہیں اس لیے سوسائٹی مالکان پارک، اسکول، قبرستان وغیرہ کے لیے جگہ نہیں چھوڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہریوں کا فرض ہے کہ وہ پلاٹ خریدنے سے پہلے ان تمام معاملات کی تصدیق کریں۔
دوسری طرف، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے ) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے اور ٹی ایم اے کے رولز کے مطابق 100 کنال اور اس سے زیادہ رقبے پر بنائی جانے والی سوسائٹی کے لیے لازمی ہے کہ وہ کل رقبے کا دو فیصد قبرستان کے لیے مختص کرے گی۔ 100 کنال سے کم رقبے پر بنائی جانے والی سوسائٹی کے لیے قبرستان کے لیے رقبہ مختص کرنے کی شرط نہیں ہے۔ ایسی ہاؤسنگ اسکیمیں جہاں قبرستان موجود نہیں ہیں وہ ایل ڈی اے اور ٹی ایم اے سے منظور ہی نہیں ہیں۔ یہ تمام غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں۔