آئی ایم ایف معاہدہ معیشت کی بحالی

درحقیقت معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں

فوٹو: فائل

یہ خبر انتہائی خوش آیند ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے کے مطابق پاکستان کو70 کروڑ ڈالر ملیں گے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تمام معاشی اہداف حاصل کر لیے ہیں، آیندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے، دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان میں معاشی استحکام آرہا ہے، وفاقی بجٹ پر عمل درآمد سے پالیسیوں میں تسلسل آیا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بر وقت ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔

بلاشبہ معیشت کی بحالی کا عمل بتدریج جاری ہے، آئی ایم ایف خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے کام سے مطمئن ہے لیکن آئی ایم ایف نے صاحب ثروت اور امیر طبقے سے ٹیکس وصولی پر ایک بار پھر زور دیا ہے۔ دوسرے پاکستان میں نجی سرمایہ کاری آنے میں وقت لگ سکتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان کی طرف سے سی پیک کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں، بعض پاور پلانٹس اور ملتان سکھر موٹر وے کی ادائیگیاں ابھی تک زیر التواء ہیں۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی کرنٹ اکاؤنٹ کی توقع سے بہتر کارکردگی کا اعتراف کرتے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے توقع ظاہر کی ہے کہ ملکی معیشت موجودہ اور آیندہ مالی سال کے دوران میکرو اکنامک چیلنجز کے باوجود دیگر کثیر الجہتی ایجنسیوں کے اندازوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

اس تازہ ترین پیش گوئی کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو جلد معاشی بحالی کی توقع ہے جب کہ اس سے قبل عالمی ادارے نے مالی سال 27-2026 میں 5 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کی پیش گوئی کی تھی۔

دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور نگراں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر جہانزیب خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ سرمایہ کاری سے متعلق مختلف ممالک سے بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی سے متعلق کئی سوالات اٹھائے، آئی ایم ایف نے سرمایہ کاری میں شفافیت اور احتساب کا پہلو مدنظر رکھنے پر زور دیا ہے۔

پاکستان کے معاملے میں اب تک آئی ایم ایف 22 پروگرام دے چکا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہی نہیں ہورہی ہے اور ہر آنے والی حکومت کا پہلا کام آئی ایم ایف پروگرام لینا ہوتا ہے۔ ان ڈھیر سارے پروگرام کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ یا تو آئی ایم ایف کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرسکے یا پاکستان آئی ایم ایف کی اصلاحات پر من و عن عمل نہیں کررہا ہے، مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کسی سیاسی اور سفارتی دباؤ کے بغیر کام کرتا ہے۔

آئی ایم ایف ایک پروفیشنل اور حقیقی معیشت کی بحالی کے ادارے کے بجائے ایک ایسے ادارے کے طور پر کام کرتا ہے جو کہ امریکا اور یورپ کی معاشی بالادستی اور سیاست کو دوام دے سکے۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام '' اگر، مگر '' اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی ایم ایف نے وقتی طور پر تو ہماری دیوالیہ ہوتی معیشت کو سہارا دیدیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ ایسی بیساکھیوں پر ہی انحصار کرتے رہیں گے یا اپنے معاشی مسائل مستقل طور پر حل کرنے کے لیے کوئی طویل مدتی پالیسی بھی بنائیں گے؟

پاکستان کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے خود ڈالر کمانے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کو مقامی معاشی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔ ہمارے یہاں ملکی برآمدات کو بڑھانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہوگا اور ایک واضح پالیسی دینا ہوگی تاکہ برآمدات کو 30 سے 40 ارب ڈالرز سے اوپر بڑھایا جاسکے۔


ایکسپورٹس اور ترسیلات زر بھی بڑھیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لیے آیندہ دنوں میں مزید مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، جس کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے گا۔

درحقیقت معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں، جن سے یہ بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کرنے کے بجائے سرمایہ داروں پر ڈالا جاتا۔ حکومتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی جا سکتی تھی اور ایسے بہت سے منصوبے ختم کیے جا سکتے تھے جن کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تین سے چار ہزار ارب روپے سالانہ کی معاشی مراعات اور ٹیکسوں کی چھوٹ فوری طور پر ختم کی جاسکتی ہے۔ یہی کچھ بیورو کریٹوں کے طرزِ زندگی کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح رئیل اسٹیٹ مافیا سے لے کر دیگر شعبوں کے امیر ترین افراد کی دولت، جائیدادوں اور منافعوں پر ٹیکس لگایا جا سکتا تھا اور اس پیسے کو معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں پر بھاری ٹیکس عائد کیا جا سکتا تھا یا پہلے سے موجود ٹیکسوں کی مکمل ادائیگی ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔

مہنگی بجلی کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے عوام دشمن معاہدوں کو ختم کیا جا سکتا تھا اور انھیں ریاستی تحویل میں لے کر چلایا جا سکتا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا اور معاشی بحران کا تمام بوجھ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی قیمتوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے عوام کے کندھوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

ایسے میں پاکستان کی صورتحال جہاں درد دل رکھنے والے شخص کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہاں ایک طرف انتہائی مضحکہ خیز بھی نظر آتی ہے۔ جس ملک کے حکمران پوری دنیا میں ہر طرف مدد مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں وزیروں اور مشیروں تک ہر کوئی دوسرے ملکوں اور سامراجی اداروں سے قرضوں کے لیے منت اور ترلے کرتا نظر آتا ہے وہاں ان سب افراد کا طرز ِزندگی اور مراعات اور آسائشیں دیکھ کر بھی ہر کوئی دنگ رہ جاتا ہے۔ ان کا رہن سہن اور مراعات دیکھ لیں اور دوسری جانب عوام کی زندگیاں دیکھ لیں، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

طبقہ اشرافیہ کے وسیع و عریض بنگلے،کروڑوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیوں کے قافلے اور دنیا کی بہترین اشیا کھانے اور پینے کے لیے موجود ہیں۔ یہی حال مذہبی پیشواؤں کا ہے جب کہ قوم پرست لیڈران کی صورتحال بھی مختلف نہیں، جو لوگ عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے دار ہیں، ان کی زندگیاں تو پرانے زمانے کے بادشاہوں سے بھی زیادہ پر تعیش اور پر آسائش ہیں۔ انھیں عوام کی زندگی سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ ان کے لیے عوام کی زندگیوں کا مقصد نسل در نسل ان کی غلامی کرنا اور ان کے تعیش کے لیے قربان ہو جانا ہے۔

کیا کبھی ہماری اشرافیہ نے اس صورتحال میں تبدیلی کی عملی کوشش کی ہے تو جواب نفی میں آتا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں ایندھن کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کرتی ہے۔ پاکستان کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے، جب ایندھن کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، صارفین کو زیادہ قیمتیں ادا کرنی چاہئیں، بالکل اسی طرح جب قیمتیں گرتی ہیں تو انھیں کم لاگت کا فائدہ ہونا چاہیے۔ موجودہ طرز عمل یہ ہے کہ حکومت توانائی کی قیمتیں طے کرتی ہے۔

جب عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتیں گرتی ہیں تو یہ سرچارجز کے ذریعے اپنے دائمی محصولات کے خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان قیمتوں میں اضافے پر صارفین کو سبسڈی دیتی ہیں۔ قیمتوں کو مصنوعی طور پر کم رکھنے میں سبسڈی شامل ہے، جو معیشت کو چلانے کی راہ میں مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ سب کے لیے بہتر ہو سکتا ہے اگر حکومت اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کر لے، فی الحال صارفین پر بوجھ ڈالنے والے سرچارجز کو ختم کردے، اور ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کو مارکیٹ کے ذریعے طے کرنے کی اجازت دے دے۔

پاکستان زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے بجٹ خسارے کو پورا نہیں کر سکتا، کیوں کہ نوٹ چھاپنے سے افراط زر بڑھ جاتا ہے۔ عسکری قیادت کی بے لوث کوششوں اور حکومت کے تعاون سے ملکی معیشت اب درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ ملک میں معیشت کی بحالی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ سالانہ مہنگائی کی شرح 27.4فیصد ہوگئی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صرف 2.6 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، 305 روپے سے گر کر ڈالر کی قیمت 290 روپے پر آگئی ہے۔

پاکستان کا تجارتی خسارہ 39.1 بلین سے کم ہو کر 24.1 بلین رہ گیا ہے۔ مالیاتی سال 2023 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 بلین ڈالر سے کم ہو کر 2.6 بلین ڈالر رہ گیا ہے۔ پاکستان میں اگلے 3 سالوں کے لیے 25 بلین ڈالر اور 10 سالوں میں 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے لیے ایس آئی ایف سی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

ایس آئی ایف سی کے تحت سعودی عرب اگلے دو سے پانچ سالوں کے درمیان پاکستان میں 25 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ان سارے اقدامات کے تناظر میں برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کا سفر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن ہے۔
Load Next Story