سیاسی و معاشی استحکام کیسے ممکن
کیا ہم واقعی سیاسی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے درست حکمت عملی کی طرف پیش رفت کرسکیں گے
بنیادی طور پر سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی سیاست کی بنیاد ایک مضبوط سیاسی اور معاشی استحکام سمیت ریاستی عمل کی درست سمت میں چلنے سے جڑی ہوتی ہے۔
ایک مضبوط سیاسی اور معاشی نظام ہی ریاستی کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ بنیاد ہوتی ہے جو نہ صرف ریاستی بلکہ حکومتی امور سمیت ادارہ جاتی ترقی اور حکمرانی کے نظام کو شفافیت کی بنیاد پر قائم کرتی ہے۔ہمارے موجودہ سیاسی اور معاشی نظام سے جڑے حالات کافی سنگین ہیں۔
یہ بحران محض سیاست اور معیشت تک محدود نہیں بلکہ ریاستی سطح سے جڑے مسائل بھی ہمارے بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے حالات غیر معمولی ہیں اور اس کا علاج بھی غیر معمولی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام کی ایک بڑی مضبوط کنجی مضبوط سیاسی نظام اور سیاسی حکومت سے جڑی ہوئی ہے۔
کمزور، لاغر، ہاتھ پیر باندھ کر یا کم عددی تعداد پر مشتمل مخلوط حکومتوں کے ماڈل کا سیاسی اسکرپٹ یا مختلف جماعتوں کی بنیاد پر وفاق اور صوبوں میں اقتدار کی تقسیم کا فارمولہ عملی بنیادوں پر کارگر نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے ہمیں غیر معمولی انداز میں ٹھوس اقدامات ، سخت گیر پالیسیاں یا قانون سازی سمیت عملی اقدامات درکار ہیں۔
بنیادی مسئلہ سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی ، قانونی سطح پر موجود ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کا عمل درکار ہے۔ لیکن یہ کام کمزور سیاسی حکومتوں یا اقتدار کے نام پر کھیلے جانے والے تمام جماعتوں پر مشتمل سیاسی سرکس کے کھیل سے کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوگا۔اسی طرح سیاسی استحکام کی ایک کنجی سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں اور حکومت و حزب اختلاف کے درمیان کچھ بنیادی معاملات پر اتفاق رائے سے جڑا ہوا ہے۔
لیکن اس کے مقابلے میں اگر ہم نے ایک دوسرے کے سیاسی مینڈیٹ یا سیاسی سطح پر ان کی حیثیت کو قبول کرنے کے بجائے محاذ آرائی ، ٹکراؤ اور ہیجانی انداز یا حکومتوں کو بنانے یا گرانے کے کھیل کا حصہ بننا ہے تو سیاسی و معاشی سطح کے استحکام کی منزل قریب نہیں بلکہ اور دور چلی جائے گی ۔
پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ یہاں سیاسی یا غیر سیاسی افراد سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر یا جذباتیت یا سیاسی دشمنی یا سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی نظام کی تشکیل نو کریں۔
انتخابات کا ایک بنیادی مقصد عوامی رائے عامہ کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کھیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں اور عوامی رائے یا ووٹ کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل کے مقابلے کے بجائے اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت حکومتوں کو بنانے کا کھیل کھیلیں گے تو اس کا نتیجہ عمومی طور پر نئے سیاسی انتشار کا سبب بنتا ہے اور اس کی بنیاد پر معاشی ترقی کے امکانات بھی محدود ہوجاتے ہیں۔
ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام کی دو اہم کنجیاں ہیں۔ اول داخلی سیاست جس میں ہم نے اپنے داخلی معاملات کا سیاسی و معاشی پوسٹ مارٹم کرنا اور اپنے داخلی معاملات کی درست نشاندہی کی بنیاد پر درست عملی اقدامات پر توجہ دینا اور ایک ایسا روڈ میپ دینا جو ہمیں داخلی استحکام کی بنیاد پر نئے معاشی امکانات کی طرف لے کر جاسکے۔
دوئم، خارجی اور علاقائی معاملات یا تعلقات، کیونکہ آج کی گلوبل دنیا میں کوئی بھی ریاستی سطح کا نظام سیاسی تنہائی میں ترقی نہیں کرسکتا اسے ہر صورت میں اپنے ہمسائے یا علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد نئے معاشی طور پر نئے امکانات کو پیدا کرنا اور ان کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے جہاں ہم داخلی سیاست اور معیشت کے مسائل کا شکار ہیں وہیں ہمیں عملی سطح پر علاقائی تعلقات میں بھی مسائل کا سامنا ہے جن میں بھارت اور افغانستان سرفہرست ہیں ۔یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا داخلی سیاست کاعملی بحران علاقائی سطح کے ممالک جو ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں کو موقع دیتا ہے کہ وہ ہمارے داخلی بحران کا فائدہ اٹھا کر اپنے ہی مفادات کو تقویت دیں۔
یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمیں جو سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک بڑا مسئلہ تیزی سے سیکیورٹی کا بحران بھی ہے۔ داخلی اور علاقائی مسائل نے ہماری سیکیورٹی کے نظام کو چیلنج کردیا ہے۔ افغانستان کا مسئلہ مسلسل درد سر بنتا جارہا ہے اور اس کا ایک بڑا نتیجہ دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سروں پر کھڑا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 8فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔
خیال ہے کہ نئی منتخب حکومت منتخب ہونے کے بعد اپنی نئی سیاسی اور معاشی ترجیحات کو بنیاد بنا کر ان مسائل سے عملاً نمٹنے کی کوشش کرے گی۔ کیونکہ انتخابات کا مقصد مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ ہوتا ہے اور وہ منتخب حکومت کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کی بنیاد پر اپنی حکومتی ساکھ بھی قائم کرے اورمجموعی طور پر سیاسی ومعاشی نظام کی ساکھ کو بھی قائم کرنا اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہوتی ہے۔
ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم نے انتخابات کی بنیاد پر منصفانہ اور شفاف انتخابات اور عوام کے ووٹ کی بنیاد پر حکومتوں کو قائم کرنے کی کمٹمنٹ کو کبھی بھی پورا نہیں کیا۔ انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کم اور عدم استحکام زیادہ پیدا ہوا ہے۔
اول انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا عمل اور نئے بحرانوں کو جنم دینا اور دوئم جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے اور سیاسی مخالفین حکومت کو گرانے کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ حکمت عملی قومی سیاست میں ایک بڑے ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے وجود کو قبول نہ کرنے کے کھیل کی طرف ہم سب کو دھکیلتی ہے۔
عام انتخابات کا راستہ ہمیں سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف لے کر جاتا ہے اور اگر اب ایسا نہ ہوا تو مسائل پہلے سے زیادہ سنگین ہو جائیں گے۔ جس انداز میں ہم انتخابات اور اس کے نتائج سمیت حکومت سازی کے کارڈز کو سجاتے رہے ہیں اس نے انتخابات کے نتائج اور نئی حکومت بننے کے بعد بھی سیاسی سطح پر انتشار اور ٹکراؤ کے کھیل کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا،اب ایسا نہیں ہونا چاہیے ،اب انتشار کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم سب مل بیٹھ کر قومی معاملات پر متفقہ حل کی جانب بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فریق دوسرے فریق پر اپنی بالادستی چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس کی بالادستی نہ صرف قائم رہے بلکہ طاقت کا بڑا ریموٹ کنٹرول بھی اسی کے ہاتھ میں رہے۔دنیا اور خاص طور پر ہمارے علاقائی ممالک معیشت کو بنیاد بنا کر اپنی ترقی کے لیے نئے نئے امکانات کو پیدا کررہے ہیں جب کہ ہم اپنے داخلی بحران کو حل نہیں کر رہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی سیاسی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے درست حکمت عملی کی طرف پیش رفت کرسکیں گے یا ہم ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرکے حالات کی درستگی میں کو ئی کردار ادا کرسکیں گے اس پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں۔