ایران اور فلسطین
سلطنت عثمانیہ کے اختتام سے عالم اسلام اور عرب دنیا کے جسم پر اصل مسئلہ سے زیادہ گہرا زخم لگا
میں طوفان الاقصیٰ کے جرات مندانہ آپریشن پر دنیا کے تمام حریت پسندوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوںنیز مظلوم فلسطینی قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تقریباً دس ہزار بچوں، بے گناہ مرد خواتین اورعام شہریوں کی شہادت پرفلسطینی قوم، شہداء کے اہل خانہ، اسلامی برادری اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
میں پاکستان کی حکومت اور عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دیگر مسلم اقوام اور دنیا کے حریت پسند عوام کی طرح اسرائیل اور امریکا کے، غزہ کے خلاف کیے گئے مشترکہ جرائم کی مذمت کی ہے نیز اس بیدار قوم کے حضور تعظیم پیش کرتا ہوں۔اس مضمون کا مقصد لوگوں کے اکثر سوالات کی بنا پر کچھ بنیادی نکات کے جوابات دینا تھا۔ پہلا یہ کہ صیہونی حکومت کیوں اور کیسے قائم ہوئی؟ اس کی تخلیق میں امریکا اور مغرب کا کیا کردار تھا؟
فساد کے اس جراثیم کی تشکیل کے بعد پہلی تین دہائیوں میں عرب ممالک اور فلسطینی جنگجوؤں کی بے شمار جدوجہد اور جنگیں تمام قربانیوں کے باوجود مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہیں کر سکیں؟ اس ناجائز حکومت سے نمٹنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کی خصوصیات کیا ہیں؟ اسلام پسند فلسطینی اقتدار واختیار کے بغیر اس ناجائز حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف حالات کو کیوں اور کیسے پلٹ سکتے ہیں؟
سلطنت عثمانیہ کے اختتام سے عالم اسلام اور عرب دنیا کے جسم پر اصل مسئلہ سے زیادہ گہرا زخم لگا۔ اس طرح انگلستان نے 1917-1918 میں فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور چار سال بعد اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ایک مکروہ منصوبے کے تحت صہیونیوں کو اس سرزمین کو مسلمانوں سے زمین خریدنے کی ترغیب دی اور مزید 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل اور فلسطین کی دو حکومتوں کے قیام کے ذریعے انگریزوں نے اس حکومت کی تشکیل کے اپنے شیطانی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور بالآخر 1948ء میں اس استعماری منصوبے کا اجرا کیا اور اس تاریخ سے لے کر اب تک اس حکومت کو مغرب کی بھرپورحمایت حاصل ہے۔
آج جب ہم غزہ میں معصوم عورتوں اور بچوں کے انتہائی وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اس ناجائز حکومت کو مغرب کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی ہے اور بین الاقوامی صیہونیت نے مغرب کی فوجی، سیاسی، بین الاقوامی اور اقتصادی طاقت کو اسلام اور مسلمانوں کو دبانے کے لیے بھرپور استعمال کیا ہے۔
یہ امرکسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکی صدر صیہونی لابیوں کی حمایت کے بغیر نہیں جیت سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی کنجی صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت کے اسلامی حکمرانوں نے اگرچہ قرارداد 181 کو قبول نہیں کیا اور ایک متفقہ حکومت کی تشکیل پر زور دیا لیکن دانستہ یا نادانستہ انھوں نے اس ناسور کو قبول کرلیا ۔ایران کے فلسطین کے ساتھ تعلقات کو اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے اور بعد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل اگرچہ اس وقت کی ایرانی حکومت نے بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے خلاف ووٹ دیا تھا اور ایک ہی حکومت کی تشکیل پر اصرار کیا تھا لیکن امریکی صدر ٹرومین کی مداخلت سے 1950 میں اسرائیل کو ایک حقیقت اور غیر سرکاری طور پر تسلیم کیا۔ لیکن عوام اور علماء کے ردعمل کے خوف سے اس فیصلے کا اعلان نہیں کیالیکن مختلف شعبوں میں دونوں کا تعاون جاری رہا۔
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے شاہ کی حکومت کے دور سے اسرائیل کے ساتھ استوار تمام تعلقات کو منقطع کردیا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ فلسطین کے حوالے کردیا ۔ اسلامی انقلاب اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس نے اسرائیل سے نمٹنے کے لیے ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے جب کہ حکمت عملی کے اجرا کے طریقہ کار کو فلسطینی گروہوں اور وسیع مزاحمتی محاذ کے دوسرے گروہوں پر چھوڑ دیا ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:الف) آئین کے آرٹیکل 152 ''کسی بھی قسم کے تسلط اور تسلط کی نفی، اور تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، اور تسلط پسند طاقتوں کے بائیکاٹ'' متعلق ہے نیز آرٹیکل 154 ''حق پرستوں کی حمایت کرنا۔ استکبار کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد چاہے دنیا میں کہیں بھی ہو'' کو ایرانی عوام کے اکثریتی ووٹوں سے تسلیم کیا گیا ہے۔
ب) امام خمینی (رح) کے حکم پر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر مقرر کرنا۔ج) پارلیمنٹ کی طرف سے فلسطین کے تحفظ کے لیے قانون کی منظوری، اس قانون کی بنیاد پر حکومت فلسطینی قوم کو صیہونی حکومت کے مقابلے میں فنڈز اور سہولیات مختص کرنے میں مدد کرنے کی پابند ہے۔د)2019 میںپوری فلسطینی سرزمین میںحکومت کی نوعیت کاتعین کرنے کے لیے فلسطین کے تمام اصل باشندوں بشمول مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی شرکت سے ایک ریفرنڈم کا منصوبہ اقوام متحدہ کو پیش کیا گیا۔
ہ) فلسطینی عوام اور جنگجوؤں کو ان کی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے بااختیار بنانے میں مدد کرنا، اس تناظر میں، اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، خاص طور پر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو جدید ہتھیاروں کی تیاری کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو اپنی ذمے داری کے اعلی ترین درجے پر رکھا ہے اس نے اس کام کی ذمے داری کو قبول کر لیا ہے۔
انقلاب اسلامی کی فتح سے پہلے، اس جدوجہد کا پرچم فلسطینیوں اور عرب حکومتوں کے ہاتھ میں تھا۔ اپنی عظیم جدوجہد کے باوجود عرب ممالک 1948، 1958، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کھا گئے جنھیں مغرب بالخصوص امریکا اور انگلستان کی حمایت حاصل تھی اور عرب اور اسلامی سرزمین کا کچھ حصہ کھو بیٹھے۔
اس وقت بھی، حماس کے پیچیدہ منصوبہ کے ساتھ طوفان الاقصی آپریشن، ہر قسم کے میزائلوں کااستعمال کرتے ہوئے، 7 اکتوبر سے شروع ہوا ہے۔ یہ آپریشن اس ناجائز حکومت اور اس کے مغربی آقاؤں کے خلاف مزاحمت میں اب تک کا سب سے منفرد آپریشن ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ امریکا کے صدر، انگلستان کے وزیر اعظم، فرانس کے صدر اور دیگر یورپی ممالک کے حکام اس ناجائز حکومت کی حوصلہ افزائی اور اسے سقوط سے روکنے کے لیے تل ابیب پہنچ گئے۔
اس ناجائز حکومت کو جدید ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا اس طرح قتل عام کرنا کہ اسپتال، مساجد اور گرجا گھر بھی محفوظ نہیں اور اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا کسی بھی جنگ بندی کے اعلان کی کھلے عام مخالفت کرتا ہے۔
ایسے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام آج بھی اس مظلوم قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ان لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتا لیکن اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا اختیار آج بھی فلسطینیوں کے پاس ہے۔ امید ہے کہ قرآن کریم کے اس فرمان کے مطابق کہ ''ان تنصر اللہ ینصرکمان یثبت اقدامکم'' فلسطینی مجاہدین اسرائیل کی شکست کے ساتھ اپنے دفتر میں ایک اور فتح درج کرائیں گے۔
(ڈاکٹر رضا امیری مقدم پاکستان میں تعینات ہونے والے نئے ایرانی سفیر ہیں۔)
میں پاکستان کی حکومت اور عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے دیگر مسلم اقوام اور دنیا کے حریت پسند عوام کی طرح اسرائیل اور امریکا کے، غزہ کے خلاف کیے گئے مشترکہ جرائم کی مذمت کی ہے نیز اس بیدار قوم کے حضور تعظیم پیش کرتا ہوں۔اس مضمون کا مقصد لوگوں کے اکثر سوالات کی بنا پر کچھ بنیادی نکات کے جوابات دینا تھا۔ پہلا یہ کہ صیہونی حکومت کیوں اور کیسے قائم ہوئی؟ اس کی تخلیق میں امریکا اور مغرب کا کیا کردار تھا؟
فساد کے اس جراثیم کی تشکیل کے بعد پہلی تین دہائیوں میں عرب ممالک اور فلسطینی جنگجوؤں کی بے شمار جدوجہد اور جنگیں تمام قربانیوں کے باوجود مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہیں کر سکیں؟ اس ناجائز حکومت سے نمٹنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کی خصوصیات کیا ہیں؟ اسلام پسند فلسطینی اقتدار واختیار کے بغیر اس ناجائز حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف حالات کو کیوں اور کیسے پلٹ سکتے ہیں؟
سلطنت عثمانیہ کے اختتام سے عالم اسلام اور عرب دنیا کے جسم پر اصل مسئلہ سے زیادہ گہرا زخم لگا۔ اس طرح انگلستان نے 1917-1918 میں فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور چار سال بعد اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ایک مکروہ منصوبے کے تحت صہیونیوں کو اس سرزمین کو مسلمانوں سے زمین خریدنے کی ترغیب دی اور مزید 1947ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل اور فلسطین کی دو حکومتوں کے قیام کے ذریعے انگریزوں نے اس حکومت کی تشکیل کے اپنے شیطانی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور بالآخر 1948ء میں اس استعماری منصوبے کا اجرا کیا اور اس تاریخ سے لے کر اب تک اس حکومت کو مغرب کی بھرپورحمایت حاصل ہے۔
آج جب ہم غزہ میں معصوم عورتوں اور بچوں کے انتہائی وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اس ناجائز حکومت کو مغرب کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی ہے اور بین الاقوامی صیہونیت نے مغرب کی فوجی، سیاسی، بین الاقوامی اور اقتصادی طاقت کو اسلام اور مسلمانوں کو دبانے کے لیے بھرپور استعمال کیا ہے۔
یہ امرکسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکی صدر صیہونی لابیوں کی حمایت کے بغیر نہیں جیت سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی کنجی صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت کے اسلامی حکمرانوں نے اگرچہ قرارداد 181 کو قبول نہیں کیا اور ایک متفقہ حکومت کی تشکیل پر زور دیا لیکن دانستہ یا نادانستہ انھوں نے اس ناسور کو قبول کرلیا ۔ایران کے فلسطین کے ساتھ تعلقات کو اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے اور بعد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل اگرچہ اس وقت کی ایرانی حکومت نے بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 181 کے خلاف ووٹ دیا تھا اور ایک ہی حکومت کی تشکیل پر اصرار کیا تھا لیکن امریکی صدر ٹرومین کی مداخلت سے 1950 میں اسرائیل کو ایک حقیقت اور غیر سرکاری طور پر تسلیم کیا۔ لیکن عوام اور علماء کے ردعمل کے خوف سے اس فیصلے کا اعلان نہیں کیالیکن مختلف شعبوں میں دونوں کا تعاون جاری رہا۔
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے شاہ کی حکومت کے دور سے اسرائیل کے ساتھ استوار تمام تعلقات کو منقطع کردیا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ فلسطین کے حوالے کردیا ۔ اسلامی انقلاب اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس نے اسرائیل سے نمٹنے کے لیے ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی ہے جب کہ حکمت عملی کے اجرا کے طریقہ کار کو فلسطینی گروہوں اور وسیع مزاحمتی محاذ کے دوسرے گروہوں پر چھوڑ دیا ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:الف) آئین کے آرٹیکل 152 ''کسی بھی قسم کے تسلط اور تسلط کی نفی، اور تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع، اور تسلط پسند طاقتوں کے بائیکاٹ'' متعلق ہے نیز آرٹیکل 154 ''حق پرستوں کی حمایت کرنا۔ استکبار کے خلاف مظلوموں کی جدوجہد چاہے دنیا میں کہیں بھی ہو'' کو ایرانی عوام کے اکثریتی ووٹوں سے تسلیم کیا گیا ہے۔
ب) امام خمینی (رح) کے حکم پر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر مقرر کرنا۔ج) پارلیمنٹ کی طرف سے فلسطین کے تحفظ کے لیے قانون کی منظوری، اس قانون کی بنیاد پر حکومت فلسطینی قوم کو صیہونی حکومت کے مقابلے میں فنڈز اور سہولیات مختص کرنے میں مدد کرنے کی پابند ہے۔د)2019 میںپوری فلسطینی سرزمین میںحکومت کی نوعیت کاتعین کرنے کے لیے فلسطین کے تمام اصل باشندوں بشمول مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی شرکت سے ایک ریفرنڈم کا منصوبہ اقوام متحدہ کو پیش کیا گیا۔
ہ) فلسطینی عوام اور جنگجوؤں کو ان کی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے بااختیار بنانے میں مدد کرنا، اس تناظر میں، اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، خاص طور پر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو جدید ہتھیاروں کی تیاری کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو اپنی ذمے داری کے اعلی ترین درجے پر رکھا ہے اس نے اس کام کی ذمے داری کو قبول کر لیا ہے۔
انقلاب اسلامی کی فتح سے پہلے، اس جدوجہد کا پرچم فلسطینیوں اور عرب حکومتوں کے ہاتھ میں تھا۔ اپنی عظیم جدوجہد کے باوجود عرب ممالک 1948، 1958، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کھا گئے جنھیں مغرب بالخصوص امریکا اور انگلستان کی حمایت حاصل تھی اور عرب اور اسلامی سرزمین کا کچھ حصہ کھو بیٹھے۔
اس وقت بھی، حماس کے پیچیدہ منصوبہ کے ساتھ طوفان الاقصی آپریشن، ہر قسم کے میزائلوں کااستعمال کرتے ہوئے، 7 اکتوبر سے شروع ہوا ہے۔ یہ آپریشن اس ناجائز حکومت اور اس کے مغربی آقاؤں کے خلاف مزاحمت میں اب تک کا سب سے منفرد آپریشن ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ امریکا کے صدر، انگلستان کے وزیر اعظم، فرانس کے صدر اور دیگر یورپی ممالک کے حکام اس ناجائز حکومت کی حوصلہ افزائی اور اسے سقوط سے روکنے کے لیے تل ابیب پہنچ گئے۔
اس ناجائز حکومت کو جدید ہتھیار فراہم کیے گئے ہیں۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا اس طرح قتل عام کرنا کہ اسپتال، مساجد اور گرجا گھر بھی محفوظ نہیں اور اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا کسی بھی جنگ بندی کے اعلان کی کھلے عام مخالفت کرتا ہے۔
ایسے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام آج بھی اس مظلوم قوم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ان لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتا لیکن اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا اختیار آج بھی فلسطینیوں کے پاس ہے۔ امید ہے کہ قرآن کریم کے اس فرمان کے مطابق کہ ''ان تنصر اللہ ینصرکمان یثبت اقدامکم'' فلسطینی مجاہدین اسرائیل کی شکست کے ساتھ اپنے دفتر میں ایک اور فتح درج کرائیں گے۔
(ڈاکٹر رضا امیری مقدم پاکستان میں تعینات ہونے والے نئے ایرانی سفیر ہیں۔)