سینیٹ میں قرارداد اور تحریک انصاف کی خاموشی
تحریک انصاف کے ایک بھی سنیٹر نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا
سینیٹ میں نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل اور سولینز کے ملٹری کورٹس کے حق میں ٹرائل کے حق میں قرارداد منظور ہوئی ہے۔
قرارداد میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ کی جانب سے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے پر بھی تنقید کی گئی ہے اور اس فیصلے کو آئین سے تجاوز قرار دیا گیا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس قسم کی قرارداد پہلے بھی سینیٹ سے منظور ہو چکی ہے تاہم اس وقت قومی اسمبلی بھی قائم تھی، جب قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے حق میں قراردادیں منظور کی تھیں۔ اس لیے یہ سینیٹ میں دوسری ایسی قرارداد ہے۔
اس قرارداد کی منظوری کے اگلے دن دو تین سنیٹرز نے اس قرارداد کی منظوری پر احتجاج کیا ہے۔ اور اس کو جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی احتجاج کیا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں قرارداد پاس کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سنیٹر سعدیہ عباسی کا احتجاج بطور خاص سامنے آیا ہے۔ اسی طرح جس دن قرار داد پاس ہوئی، اس دن صرف دو سنیٹرز نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ میں تب بھی حیران تھا کہ صرف دو سنیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ بعدازاں بھی اختلاف میں ایک دو آوازیں ہی آئی ہیں۔
آپ ایسا نہیں کہہ سکتے تمام سنیٹرز نے اس قرارداد کی منظوری کے خلاف کوئی احتجاج کیا ہے۔ سینیٹ میں کوئی طوفان نہیں آگیا، ایسا بھی نہیں ہوا کہ احتجاج کے سینیٹ کی کاروائی کو روکنا پڑا ہو، یا سینیٹرز نے یہ مطالبہ کیا ہوکہ جب تک یہ قرارداد واپس نہیں ہوگی، ہم کارروائی آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد بھی سینیٹ میں کوئی بڑا حتجاج نہیں ہوا۔ اس قرارداد کی منظوری کے وقت بھی کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سینیٹ کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے حق میں ہیں۔ اس لیے قراردادا کے حق میں ووٹ کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ باپ پارٹی بھی نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے حق میں ہے۔ سوال صرف تحریک انصاف کا ہے۔
میرے لیے حیرانی کی بات یہ ہے کہ پہلے تو سینیٹ میں قرارداد کی منظور ی کے وقت تحریک انصاف کے جو سنیٹرز موجود تھے، انھوں نے بھی اس قراداد کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا بلکہ وہ خاموش رہے۔ یوں اس قرارداد کے خلاف صرف دو ووٹ آئے جو پیپلز پارٹی کے سنیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق کے تھے۔
تحریک انصاف کے ایک بھی سنیٹر نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا۔ مجھے تو قرارداد کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کے سنیٹرز کا کوئی احتجاج بھی نظر نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم تحریک انصاف کے سنیٹرز کی جانب سے قرار داد کی مخالفت نہ کرنے کو کیا سمجھیں؟ پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی خاموشی کو کیا سمجھیں؟ ویسے تو تحریک انصاف کے سنیٹرز ہر مسئلہ پر سینیٹ میں بہت شور مچاتے ہیں۔ ان کی تقاریر میڈیا پر لائیو چلتی ہیں۔
تحریک انصاف کے سنیٹرز سینیٹ میں بہت فعال ہیں۔ لیکن اس قرادداد پر وہ خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیا ہم خاموشی کو نیم رضامندی سمجھیں؟ ان کی خاموشی نے قرارداد کے حق میں راہ ہموار کی ہے۔ کیا وہ ملٹری کورٹس سے ٹرائل کے حق میں سہولت کاری کر رہے ہیں؟ کیا وہ دبائو میں ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں؟ اگر دبائو میں ہیں تو سینیٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ سینیٹ میں کیوں بیٹھے ہیں ؟ بہتر یہ نہیں کہ چھوڑیں اور گھر جائیں۔
سینیٹ کی سیٹوں سے چپکے رہنے کا کیا فائدہ۔ کیا اس خاموشی کو چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے؟ کیا تحریک انصاف دہری حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ مفاہمت بھی کی جا رہی ہے ، مزاحمت بھی کی جا رہی ہے۔ کیا چیئرمین پی ٹی آئی سینیٹ میں اپنے ارکان پر کنٹرول کھو بیٹھے ہیں؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر سینیٹ کے ارکان نے ووٹ نہیں دیا، وہ خاموش رہے لیکن تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت خود خاموش کیوں ہے؟
کیا چیئرمین تحریک انصاف کو اپنے سینٹرز کی خاموشی پر پریس ریلیز جاری نہیں کر دینا چاہیے تھا کہ یہ سب غدار ہیں، یہ لوٹے ہو گئے ہیں۔ ان کے بچوں سے کوئی شادی نہ کرے۔ حال ہی میں چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے صدر مملکت کے خلاف بیان جاری کرایا تھا۔اس طرح وہ چاہتے تو سنیٹرز کے خلاف بیان بھی جاری کرا سکتے تھے۔ پارٹی ترجمان بھی ناراضی کا اظہار کر سکتے تھے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اس لیے تحریک انصاف کی خاموشی معنی خیز ہے،جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے پس پردہ یقیناً کچھ نہ کچھ اسرار ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے حالیہ فیصلے کے بعد کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ اب سویلینز کا ملٹری کو رٹ میں ٹرائل کا راستہ بند ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی سانحہ نو مئی کے ملزمان کا بھی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا راستہ بھی بند ہو گیا ہے۔ لیکن میں نے تب بھی کہا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی بہت سے قانونی راستے موجود ہیں۔ پہلے قدم پر حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔ دوستوں کی رائے ہے کہ شاید یہ اپیل بھی کامیاب نہیں ہوگی، یوں سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔ جس کے بعد نو مئی کے ملزمان کا بھی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ سینیٹ کی یہ قرارداد مستقبل کے راستے کا بتا رہی ہے۔
اگر سپریم کورٹ نے اپیل بھی مسترد کر دی، تب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگلے انتخابات کے بعد جو پارلیمان وجود میں آئے گی ، وہ اپنے پہلے اجلاس میں آئین میں ایسی ترمیم کرے گی جس میں نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا راستہ نکالا جائے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے اس سے پہلے بھی دہشت گردوں کے ملٹری کورٹ سے ٹرائل کی آئینی ترمیم ہو چکی ہے۔ اسی طرح اب نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم ہوگی۔
مجھے نہیں لگتا کسی بھی صورت یہ کام رک سکے گا کیونکہ 9مئی کے واقعات کی سنگینی وقت گزرنے کے ساتھ بھی کم نہیں ہو گی۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس کے لیے تیار نظر آتی ہیں۔اس کو روکنے کا واحد راستہ یہی نظر آتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف پارلیمان میں ایک بڑی قوت بن کر آجائے لیکن یہاں بھی وہی سوال موجود ہے کہ کیا اس کے باوجود راستہ رک جائے گا؟ مجھے نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے پھر بھی راستہ بن جائے گا' یہی حقیقت ہے۔