ٹریفک حادثے

تعلیم یافتہ اور ماڈرن گھرانوں میں بچوں کی کردار سازی کا معیار صفر درجے پر چلا گیا ہے


Latif Chaudhry November 17, 2023
[email protected]

لاہور کے پوش ایریا میں تین چار روز قبل انتہائی المناک ٹریفک حادثہ ہوا ،جس میں ایک خاندان کے چھ افرادجاں بحق ہوگئے، میڈیا میں اس المیے کی تفصیلات آرہی ہیں، اس المیئے کا ملزم محض پندرہ سولہ برس کا اسکول طالب عالم ہے، اس نے سو سوا سوکلومیٹر کی رفتار سے اپنی کار اس کار سے ٹکرا دی جس میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد سوار تھے، خوشحال گھرانے کا یہ بچہ انگریزی میڈیم اسکول کا طالب علم لگتا ہے۔

میں اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پولیس حکام اس کیس کی تفتیش کررہے ہیں اور عدالتی کارروائی بھی جاری ہے تاہم چند اہم پہلو جو میرے ذہن میں ہیں' وہ قارئین سے ضرور شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

پاکستان میں شاید ٹریفک حادثات کی شرح عالمی رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن پر ہوگی۔دہشت گردی کی وارداتوں میں اتنی اموات نہیں ہوئی ہوں گی جتنی ایک یا دو برس میں ٹریفک حادثات میں ہوجاتی ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسی میگاسٹیزمیں زیادہ تر ٹریفک حادثات کم عمر ڈرائیورزکی غلطی یا لاپروائی سے ہوتے ہیں۔ میں چونکہ لاہور میں رہتا ہوں،اس لیے یہاں کی مثال دوں گا۔

لاہور کے پوش ایریاز میں ہفتے کی رات اور اتوار کے دن سڑکوں پر انتہائی تیز رفتار گاڑیوں اور ہیوی بائیکس کا راج ہوتا ہے۔امیر گھرانوں کے کم عمرنوجوان اندھا دھند گاڑیاں اور ہیوی بائیکس دوڑاتے ہیں، شارپ کیٹنگ،زگ زیگ اور دیگر کرتب بازی عروج پر ہوتی ہے، اس ایڈونچر میں کئی گاڑیاں بے قابو ہوکر فٹ پاتھ پر چڑھ دوڑتی ہیں،الیکٹرک پولز سے ٹکرا جاتی ہیں،کسی دوسری گاڑی سے ٹکرا جاتی ہیں یا کوئی سائیکل سوار زد میں آجاتا ہے۔

یہ بے ہودگی، ایڈونچر یا بدنظمی پوش ایریاز تک محدود نہیں ہے، درمیانے اور غریب طبقے کی آبادیوں کا منظر بھی ایسا ہی ہے، ٹریفک قوانین سے نابلد اور روڈ سنس سے محروم نوجوان موٹر سائیکلز پر سوار ہوکر اپنی جان گنواتے ہیں یا کسی دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔ ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی سب سے زیادہ موٹر سائیکل سوار کرتے ہیں، نوے فیصد موٹرسائیکل سوار'' فاسٹ لین ''میں گھس جاتے ہیں، غلط سائیڈ سے اوورٹیکنگ کرتے ہیں۔

ون وے کی خلاف ورزی تو عام سی بات ہے، چند روز قبل میں نے ایک صاحب کو دیکھا، موصوف نے موٹر سائیکل پر خاتون اور تین بچوں کو بٹھا رکھا تھا اور اوور ہیڈ برج پرون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹر سائیکل چلارہا تھا، ذرا تصور کریں، وہ بندہ خدا، اپنی ہی نہیں بلکہ بیوی اور بچوں تک کی جان خطرے میں ڈال کر غلط سمت سے اوور ہیڈ برج کراس کر رہا تھا، خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہوجاتا تو پوری فیملی ماری جاتی یا کوئی کار سوار غیرمتوقع سمت سے آنے والی موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے خود حادثے کا شکار ہو جاتا' اﷲ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے والے لڑکوں کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس بن سکتا ہے، اکثر ہائی اسکول کے طالب علموں کوان کے والدین نے موٹر سائیکلز دے رکھی ہیں، ان نو عمربچوں کو ٹریفک قوانین کا بالکل علم نہیں ہوتا نہ انھیں لائن اور لین کے فرق کا شعور ہوتا ہے۔ روڈ سنس کا تو لفظ بھی نہیں سنا ہوتا۔ اوورٹیکنگ کیسے کرنی ہے، کس موقع پر کرنی ہے، ان بچوں کو کوئی پتہ نہیں ہوتا۔

اکثر کم عمر موٹر سائیکل سوار اپنی غلطی سے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن والدین دوسروں پر ناجائز مقدمات درج کرا دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کم عمر بچے رکشہ چلا رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی وڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں کم عمر بچے ہیوی بائیکس یا ایس یو ویز چلا رہے ہوتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال صرف پنجاب میں چالیس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں، ہزاروں افراد شدید زخمی اور معذور ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں یا ان کی وجہ سے دوسرے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے ٹریفک سسٹم کی ابتری کا کھلا ثبوت ہے۔

پاکستان میں نوجوان کسی انسٹیٹیوٹ سے ٹریننگ حاصل نہیں کرتے ، وہ اپنے گھر کے کسی بڑے یا گھریلو ڈرائیور سے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا سیکھ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں ، شہری آبادیوں کا حصہ بن جانے والے دیہات کے لوگ بھی کسی تربیت کے بغیر سڑکوں پر موٹر سائیکلز اور گاڑیاں دوڑاتے ہیں، جن ایریاز میں تعمیراتی کام ہورہا ہے، نئے گھر بن رہے ہیں، وہاں مزدوروں کی اکثریت نے بھی پرانی موٹر سائیکلز لے رکھی ہیں، جوچند ہزار میں مل جاتی ہے' ان کی اکثریت کی لائٹس بھی نہیں ہوتی ہیں، مزدور ڈرائیورزکو بھی ٹریفک رولز کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ ڈرائیونگ لائسنس جیسے بنتا ہے، اس کا احوال بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پاکستان کے شہروں میں حادثات کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے، ٹریفک حادثات انتظامی' عدالتی نظام اور ہیلتھ سسٹم پر غیر معمولی دباؤ بڑھا رہے ہیں،تھانے، کورٹ اور کچہری میں ٹریفک حادثات سے متعلق مقدمات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے،یوں پولیس تھانوں اور عدالتوں پرکام کا بوجھ بڑھ رہا ہے جب کہ ہیلتھ انفرااسٹرکچر بھی دباؤ کا شکار ہے۔

پاکستان میں روزانہ درجنوں روڈ ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ ان حادثات میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کا خود ہی اندازہ لگا لیں کیونکہ مجھے اعدادوشمار کا علم نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں رواں سال 36 ہزار ٹریفک حادثات ہوئے ہیں۔ان میں سے تقریباً 27 ہزار حادثات موٹر سائیکل سواروں کی غلطی کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔

میرا خیال اور مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 95 فی صد لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مسافر گاڑیوں کے ڈرائیورز اکثر غیرذمے دارانہ ڈرائیونگ کرتے ہیں۔لوڈر ویگنز اور رکشے بھی حادثات کا بڑا سبب ہیں' ان میں سے اکثر کی بیک لائٹس نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی ''بیک میررز'' کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹو وہیلر چلانے والے تو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرتے ہی نہیں۔امیر گھرانوں کے نوجوان کار ریسنگ، اسکیٹنگ اور ون ویلنگ کرکے موت کو دعوت دیتے ہیں۔

پاکستان میں ٹریفک قوانین میں ترامیم اور نئی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔صوبائی حکومتیں پرائمری سے لے کر دسویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں ٹریفک قوانین و اصول کا مضمون لازمی قرار دیں۔ نجی اور سرکاری اسکولز کو یہ مضمون پڑھانے کا پابند بنایا جائے' اگر کوئی اسکول ایسا نہیں کرتا تو وہ اسکول بند کر دیا جائے۔

اسکول اورکالجز کے طلبہ پر موٹر سائیکل چلانے پر پابند عائد کی جانی چاہیے بلکہ موٹر سائیکل چلانے کی کم ازکم عمر پچیس سال مقرر کردی جائے ،موٹر سائیکلز بنانے والی کمپنیوں کو پابند کر دیا جائے کہ وہ 50کلو میٹر حد رفتار مقرر کر کے مارکیٹ میں فروخت کریں۔

کوئی موٹر سائیکل کم عمر بچے گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے پکڑے جائیں تو ان کے والدین پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں، اگر ان کا بچہ دوبارہ پکڑا گیا تو والدین کو کئی گنا جرمانے کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل یا گاڑی بحق سرکار ضبط کرلی جائے۔کیونکہ بچوں کا قصور نہیں ہوتا ، سارا قصور والدین کا ہوتا ہے۔ ان والدین کی عقل وشعور پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جو اپنے کم عمر بچوں کو موت کی سواری خود خرید کردیتے ہیں۔

المیہ یہ بھی ہے کہ خوشحال اوراپنے تئیں تعلیم یافتہ اور ماڈرن گھرانوں میں بچوں کی کردار سازی کا معیار صفر درجے پر چلا گیا ہے، روایتی کلچراور اخلاقی قدروں سے محروم یہ کلاس بے مقصدیت، دکھاوے، برانڈ کانشئنس کا شکار ہوچکی ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ سرکاری نظام جو انگریز کے دور میں نتائج دے رہا تھا، اب زمین بوس ہوگیا ہے کیونکہ یہ طبقہ سسٹم میں وائرس کی طرح داخل ہوکر اس کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں