بلوچستان کی ترقی
بلوچستان خوشحال ہوگا تو پورا پاکستان خوشحال ہوگا اور پاکستان کی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی
ہمارے وطن عزیز کا نام پاکستان ہے۔ یہ نام سات حروفِ تہجی سے مل کر بنا ہے پا ک+ستان۔ اِس میں اگر آخر کے چار حروف شامل نہ ہوں تو یہ نام ادھورا رہ جائے گا۔آخر کے چار حروف لفظ بلوچستان سے لیے گئے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل رہ جاتا۔ اب ذرا مزید غور فرمائیں تو معلوم ہوگا رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا یہ صوبہ سب سے بڑا ہے۔ قدرت نے یہاں کی سرزمین کو بیش بہا اور بیشمار معدنی وسائل سے مالا مال کیا ہے جن کا کوئی شمار نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو پاکستان کا یہ صوبہ سب سے پچھڑا ہوا ہے۔
غربت کا اندازہ اِس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کی غالب اکثریت کے تن پر کپڑا ہے اور نہ پیٹ میں روٹی۔ حد تو یہ ہے کہ پینے کے لیے پانی بھی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے جس کے لیے دور دور تک جانا پڑتا ہے۔ یہاں بارش بہت کم عرصہ بعد ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی بیشتر زمینیں بنجر ہیں اور کاشتکاری بہت مشکل ہے۔
پینے کا پانی جہاں بھی دستیاب ہے وہ قدرتی چشموں کی وجہ سے مہیا ہے اور پہاڑی چٹانوں کے درمیان خلاؤں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے جنھیں تنگیاں کہا جاتا ہے لیکن یہاں جب کبھی بارشیں ہوتی ہیں تو بہت طوفانی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں بند، کشتے اور پُل ٹوٹ جاتے ہیں اور شدید طغیانی کی وجہ سے آمد و رفت کا سلسلہ معطل ہوجاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہاں بڑے بڑے اسٹوریج بنائے جائیں تو وافر مقدار میں پینے کا صاف پانی مہیا ہوسکتا ہے جو پورے سال کے لیے کافی ہوگا۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دور افتادہ بعض پسماندہ علاقوں کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ ریل کس بلا کو کہتے ہیں۔
سارا قصور یہاں کے معاشرتی اور معاشی نظام کا ہے جہاں سرداروں کی حکمرانی ہے۔ سردار غریب غربا کے مائی باپ ہیں۔ اُن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ انتہائی پسماندگی اور غربت کے باوجود بلوچ مہمانداری میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی مشاہدہ سے کہہ رہے ہیں کیونکہ کوئٹہ میں ملازمت کے دوران ہمیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک جانے کے مواقع میسر آئے تھے۔
استحصالی نظام نے بلوچ عوام کو غلامی کی بیڑیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ مشہورِ عالم فلسفی رُوسو کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر کہیں وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ کہیں یہ بیڑیاں معاشی ہیں، کہیں معاشرتی اور کہیں سیاسی۔اِس صورتحال کے اصل ذمے دار بااختیار لوگ ہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے بلوچستان کی جانب وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا یہ صوبہ مستحق تھا۔ یہاں کے حالات کا جب دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جاتا ہے تو صورتحال انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ صوبہ مسلسل امتیازی سلوک کا شکار ہے۔
یہاں کا انفرا اسٹرکچر دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیم و ترقی سے محرومی کے علاوہ بیروزگاری یہاں کا سنگین ترین مسئلہ ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور وعدے اور دعوے بھی کیے جاتے رہتے ہیں لیکن عملاً وہ نہیں کیا جاتا جو کیا جانا چاہیے۔
یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں بے چینی پائی جاتی ہے جس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں جس میں ہمارا ازلی دشمن بھارت سرِ فہرست ہے جس میں وہ کبھی براہِ راست اور کبھی دوسروں کے ذریعہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اپنے جاسوسوں کے ذریعہ بلوچستان میں عدم استحکام اور کشیدگی پیدا کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ بھارتی جاسوسوں کا گُرو گھنٹال کلبھوشن یادَو جو پاکستان کے زیرِ حراست ہے اِس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
صحت عامہ کے شعبہ کا بھی بہت برا حال ہے جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر 37,000افراد کی دیکھ بھال اور صحت کی نگہداشت کے لیے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ صرف 29 فیصد خواتین اور 40 فیصد مرد اسکول جاتے ہیں جب کہ 66 فیصد بچے محنت مشقت کرتے ہیں۔ بلوچستان کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق 21.7 million ہے۔ صوبہ بلوچستان میں رہتی ہے جو کہ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور 347,190 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پورے ملک کے رقبہ کا 54 فیصد ہے۔بلوچستان کے معدنی ذخائر میں سونا، تانبہ، تیل، قیمتی پتھر اور قدرتی گیس شامل ہیں۔ اِس کی ساحلی پٹیًٓ750 کلومیٹر پر محیط ہے جو دنیا کے سب سے بڑے بحری راستہ، آبنائے ہرمز کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
الغرض بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی پنہاں ہے۔ بلوچستان خوشحال ہوگا تو پورا پاکستان خوشحال ہوگا اور پاکستان کی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔ پاکستان اور چین کے اشتراک سے بروئے کار آنے والے منصوبوں کے ساتھ بہت بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے بعد بڑے پیمانہ پر بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔اِس کے ساتھ ساتھ اِس خطہ میں الیکٹرونک، آٹو موٹیو، فارمیسوٹکل اور سِرائمک کی صنعتیں پھلیں گی، پھولیں گی اور پاور پلانٹ لگانے سے بلوچستان اور پورے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکے گا۔مختصر یہ کہ سی پیک بلوچستان کی ترقی کی کنجی ہے جس کے ثمرات پورے ملک کو حاصل ہوں گے۔
مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل رہ جاتا۔ اب ذرا مزید غور فرمائیں تو معلوم ہوگا رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا یہ صوبہ سب سے بڑا ہے۔ قدرت نے یہاں کی سرزمین کو بیش بہا اور بیشمار معدنی وسائل سے مالا مال کیا ہے جن کا کوئی شمار نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو پاکستان کا یہ صوبہ سب سے پچھڑا ہوا ہے۔
غربت کا اندازہ اِس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کی غالب اکثریت کے تن پر کپڑا ہے اور نہ پیٹ میں روٹی۔ حد تو یہ ہے کہ پینے کے لیے پانی بھی مشکل سے دستیاب ہوتا ہے جس کے لیے دور دور تک جانا پڑتا ہے۔ یہاں بارش بہت کم عرصہ بعد ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی بیشتر زمینیں بنجر ہیں اور کاشتکاری بہت مشکل ہے۔
پینے کا پانی جہاں بھی دستیاب ہے وہ قدرتی چشموں کی وجہ سے مہیا ہے اور پہاڑی چٹانوں کے درمیان خلاؤں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے جنھیں تنگیاں کہا جاتا ہے لیکن یہاں جب کبھی بارشیں ہوتی ہیں تو بہت طوفانی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں بند، کشتے اور پُل ٹوٹ جاتے ہیں اور شدید طغیانی کی وجہ سے آمد و رفت کا سلسلہ معطل ہوجاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہاں بڑے بڑے اسٹوریج بنائے جائیں تو وافر مقدار میں پینے کا صاف پانی مہیا ہوسکتا ہے جو پورے سال کے لیے کافی ہوگا۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دور افتادہ بعض پسماندہ علاقوں کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ ریل کس بلا کو کہتے ہیں۔
سارا قصور یہاں کے معاشرتی اور معاشی نظام کا ہے جہاں سرداروں کی حکمرانی ہے۔ سردار غریب غربا کے مائی باپ ہیں۔ اُن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ انتہائی پسماندگی اور غربت کے باوجود بلوچ مہمانداری میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی مشاہدہ سے کہہ رہے ہیں کیونکہ کوئٹہ میں ملازمت کے دوران ہمیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک جانے کے مواقع میسر آئے تھے۔
استحصالی نظام نے بلوچ عوام کو غلامی کی بیڑیوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ مشہورِ عالم فلسفی رُوسو کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر کہیں وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ کہیں یہ بیڑیاں معاشی ہیں، کہیں معاشرتی اور کہیں سیاسی۔اِس صورتحال کے اصل ذمے دار بااختیار لوگ ہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے بلوچستان کی جانب وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا یہ صوبہ مستحق تھا۔ یہاں کے حالات کا جب دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جاتا ہے تو صورتحال انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ صوبہ مسلسل امتیازی سلوک کا شکار ہے۔
یہاں کا انفرا اسٹرکچر دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیم و ترقی سے محرومی کے علاوہ بیروزگاری یہاں کا سنگین ترین مسئلہ ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور وعدے اور دعوے بھی کیے جاتے رہتے ہیں لیکن عملاً وہ نہیں کیا جاتا جو کیا جانا چاہیے۔
یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں بے چینی پائی جاتی ہے جس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں جس میں ہمارا ازلی دشمن بھارت سرِ فہرست ہے جس میں وہ کبھی براہِ راست اور کبھی دوسروں کے ذریعہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اپنے جاسوسوں کے ذریعہ بلوچستان میں عدم استحکام اور کشیدگی پیدا کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ بھارتی جاسوسوں کا گُرو گھنٹال کلبھوشن یادَو جو پاکستان کے زیرِ حراست ہے اِس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
صحت عامہ کے شعبہ کا بھی بہت برا حال ہے جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر 37,000افراد کی دیکھ بھال اور صحت کی نگہداشت کے لیے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ صرف 29 فیصد خواتین اور 40 فیصد مرد اسکول جاتے ہیں جب کہ 66 فیصد بچے محنت مشقت کرتے ہیں۔ بلوچستان کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق 21.7 million ہے۔ صوبہ بلوچستان میں رہتی ہے جو کہ رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور 347,190 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پورے ملک کے رقبہ کا 54 فیصد ہے۔بلوچستان کے معدنی ذخائر میں سونا، تانبہ، تیل، قیمتی پتھر اور قدرتی گیس شامل ہیں۔ اِس کی ساحلی پٹیًٓ750 کلومیٹر پر محیط ہے جو دنیا کے سب سے بڑے بحری راستہ، آبنائے ہرمز کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
الغرض بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی پنہاں ہے۔ بلوچستان خوشحال ہوگا تو پورا پاکستان خوشحال ہوگا اور پاکستان کی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔ پاکستان اور چین کے اشتراک سے بروئے کار آنے والے منصوبوں کے ساتھ بہت بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
توقع کی جاتی ہے کہ سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے بعد بڑے پیمانہ پر بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔اِس کے ساتھ ساتھ اِس خطہ میں الیکٹرونک، آٹو موٹیو، فارمیسوٹکل اور سِرائمک کی صنعتیں پھلیں گی، پھولیں گی اور پاور پلانٹ لگانے سے بلوچستان اور پورے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکے گا۔مختصر یہ کہ سی پیک بلوچستان کی ترقی کی کنجی ہے جس کے ثمرات پورے ملک کو حاصل ہوں گے۔