قلب سلیم
’’اے اﷲ ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھ۔‘‘
قرآن حکیم میں ارشاد گرامی کا مفہوم: ''اس دن مال اور اولاد کوئی چیز فائدہ نہ دے گی۔ سوائے اس کے جو قلب سلیم کے ساتھ اﷲ کے پاس آیا۔'' (الشعراء)
اﷲ تعالی فرما رہے ہیں کہ روز قیامت سوائے قلبِ سلیم کے اور کچھ کام نہ آئے گا۔ سَلیم، کا لفظ سلم سے نکلا ہے۔ یعنی وہ قلب جو اﷲ کا مطیع ہے اور ذات باری تعالی ذات اقدس کو تسلیم کرچکا ہے۔ قلبِ سلیم، وہ قلب ہے کہ جب اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے اس وقت سے موت کے وقت تک سوائے اﷲ کے اور کسی کو اپنے دل میں آنے نہیں دیتا۔ لہذا انسان کا ہر وہ عمل کہ جو اسے ہر قسم کے شرک اور وہم سے دور رکھے اسے صاحب قلبِ سلیم کی منزل تک لے جاتا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جو قلبِ سلیم رکھتا ہو، کہ جب اس کو ہدایت کی جاتی ہے تو قبول کرتا ہے اور جب اس کو برائی کی طرف راغب کیا جاتا ہے تو دوری اختیار کرتا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ''جب بھی اﷲ اپنے بندے کو دوستی کے لیے منتخب کرتا ہے تو اسے قلب سلیم عطا کرتا ہے۔''
ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''جب وہ (ابراہیمؑ) اپنے پروردگار کے پاس صاف ستھرا دل لے کر آئے۔'' انبیائے کرامؑ دل کو پاک کرنے کے لیے دنیا میں آتے رہے۔ انہوں نے زیادہ محنت قلوب کے تزکیہ پر کی۔ جب دل پاک ہو جائے تو انسان پاک ہو جاتا ہے، دل بدل جائے تو انسان بدل جاتا ہے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے، مقصدِ حیات بدل جاتا ہے، دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے، محبت اور عداوت کے پیمانے بدل جاتے ہیں ، معاشرہ بدل جاتا ہے، اخلاق بدل جاتے ہیں، جینے کے انداز بدل جاتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے۔ پھر آپؐ نے یہ دعا فرمائی:
''اے اﷲ ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھ۔''(صحیح مسلم)
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا گیا: کون سے لوگ افضل ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ''مخموم القلب اور سچی زبان والے۔'' تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: سچی زبان کا مطلب تو ہم جانتے ہیں، یہ مخموم القلب کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''اس سے مراد متقی ، گناہ، بغاوت، کینہ اور حسد سے پاک شخص ہے۔''
قلبِ سلیم ہر قسم کی خیر کے قریب اور ہر قسم کے شر سے دور ہوتا ہے، قلبِ سلیم میں تمام بلند اخلاقی اقدار ی جمع ہو جاتی ہیں ، بری عادات اور اخلاقیات ایسے دور ہٹا دی جاتی ہیں جس طرح بھٹی سونے چاندی کی ملاوٹ الگ کر دیتی ہے، قلبِ سلیم کا مالک انسان اﷲ تعالی کی رحمت، خصوصی عنایت و تحفظ اور توفیق میں گھِرا ہوا ہوتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی کا مفہوم: ''بے شک! جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اپنے رب کے لیے ان کے دل گداز ہوگئے یہی لوگ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (سورہِ ھود)
دل گْدازی قلبِ سلیم کی سب سے بڑی امتیازی صفت ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر وقت اﷲ کے سامنے دلی طور پر عاجزی انکساری کا اظہار ہو، شریعتِ الہی اور وحی پر دل مکمل مطمئن ہو، عملِ صالح کر کے دل کو سکون ملے اور خوشی محسوس ہو۔ دل شرکِ اکبر اور اصغر سے پاک ہو، کسی قسم کا نفاق دل میں نہ ہو، کبیرہ گناہوں اور برائیوں سے دور ہو، نیز بداخلاقی والی صفات یعنی بخل، لالچ ، حسد، کینہ، تکبر، ملاوٹ، دھوکا دہی، خیانت، مکر، اور جھوٹ سمیت تمام دلی بیماریوں سے پاک ہو، ساتھ میں انسان فرائض ، واجبات کی ادائی یقینی بنائے اور کثرت کے ساتھ مستحب اعمال بجا لائے، اور بداعمالیوں سے دور رہے۔ قلبِ سلیم کی علامات میں سے یہ ہے کہ: دل میں عفو و درگزر، حلم، صبر، قوتِ برداشت، معافی، شفقت، رحم مسلمانوں کے لیے کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔
قلبِ مریض: قلبِ سلیم کے مقابلے میں قلبِ مریض ہے جو کہ مذموم صفات کا حامل ہوتا ہے، مریض دلوں کی سب سے بڑی بیماری حرص ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس بیماری سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اپنے آپ کو ظلم سے دور رکھنا، کیوں کہ قیامت کے دن ظلم کی وجہ سے پے در پے اندھیرے ہوں گے، اور اپنے آپ کو لالچ سے بچاؤ کیوں کہ لالچ نے ہی تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، لالچ نے انہیں قتل و غارت اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے پر آمادہ کیا۔'' (صحیح مسلم)
لالچ یہ ہے کہ ہم کسی کی ملکیت میں موجود چیز کو خود چھیننے کی کوشش کریں، نیز ہمارے ذمہ جو حقوق ہیں انہیں ادا نہ کریں، چنانچہ حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لالچ کے ضمن میں بخل بھی شامل ہے جو قبیح اور مذموم خصلت ہے، نیز لالچ بخل سے بھی سنگین جرم ہے، اسی کی وجہ قطع رحمی، زیادتی اور حق تلفی سمیت خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔ دل کی بڑی بیماریوں میں تکبر بھی شامل ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے، مفہوم: ''جس کے دل میں ایک ذرّے کے برابر بھی تکبر ہے وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔'' (صحیح مسلم)
قرآن حکیم میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں، ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔'' (البقرۃ)
دل پر جب مہر لگ جاتی ہے تو آدمی حق کو سننے اور اسے سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اور کائنات میں موجود دلائل پر غور نہیں کرتا۔ اس سے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں قلب کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اﷲ کا قانون بیان ہوا ہے کہ آدمی کفر و شرک پر اصرار کرے، غلط روی سے باز نہ آئے اور اصلاحِ حال کے لیے آمادہ نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، زبردستی اس کے دل کی دنیا نہیں بدلتا اور اپنی قوت سے کھینچ کر اسے سیدھے راستے پر نہیں لگاتا۔
قرآنِ مجید میں یہ بات اچھی طرح واضح کی گئی ہے ، مفہوم: ''جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور اﷲ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔'' (الصف)
''اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے ان سے اعراض کیا اور اس کے دونوں ہاتھوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے اسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ '' (الکہف)
جب آزمائش کا مرحلہ سامنے ہوتا ہے تو منافق اس سے بچنے کی تدبیر سوچنے لگتا ہے۔ وہ جرأت و ہمت کے مظاہرے کی جگہ اپنی بزدلی کی توجیہ کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہوتی، البتہ دوسروں کی کم زوری تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔
قرآن حکیم دل میں نرمی اور گداز پیدا کرتا ہے۔ اس کو چھوڑنے کے بعد قساوتِ قلب کیسے دُور ہوسکتی ہے؟ اور آدمی فسق و فجور سے کیسے باز رہ سکتا ہے؟ قلبِ سلیم اﷲ کی عظیم نعمت ہے، ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرکے قلب کو سلیم بنانے کوشش اور دعا دونوں کرنی چاہیے۔
اﷲ تعالی فرما رہے ہیں کہ روز قیامت سوائے قلبِ سلیم کے اور کچھ کام نہ آئے گا۔ سَلیم، کا لفظ سلم سے نکلا ہے۔ یعنی وہ قلب جو اﷲ کا مطیع ہے اور ذات باری تعالی ذات اقدس کو تسلیم کرچکا ہے۔ قلبِ سلیم، وہ قلب ہے کہ جب اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے اس وقت سے موت کے وقت تک سوائے اﷲ کے اور کسی کو اپنے دل میں آنے نہیں دیتا۔ لہذا انسان کا ہر وہ عمل کہ جو اسے ہر قسم کے شرک اور وہم سے دور رکھے اسے صاحب قلبِ سلیم کی منزل تک لے جاتا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جو قلبِ سلیم رکھتا ہو، کہ جب اس کو ہدایت کی جاتی ہے تو قبول کرتا ہے اور جب اس کو برائی کی طرف راغب کیا جاتا ہے تو دوری اختیار کرتا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ''جب بھی اﷲ اپنے بندے کو دوستی کے لیے منتخب کرتا ہے تو اسے قلب سلیم عطا کرتا ہے۔''
ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''جب وہ (ابراہیمؑ) اپنے پروردگار کے پاس صاف ستھرا دل لے کر آئے۔'' انبیائے کرامؑ دل کو پاک کرنے کے لیے دنیا میں آتے رہے۔ انہوں نے زیادہ محنت قلوب کے تزکیہ پر کی۔ جب دل پاک ہو جائے تو انسان پاک ہو جاتا ہے، دل بدل جائے تو انسان بدل جاتا ہے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے، مقصدِ حیات بدل جاتا ہے، دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے، محبت اور عداوت کے پیمانے بدل جاتے ہیں ، معاشرہ بدل جاتا ہے، اخلاق بدل جاتے ہیں، جینے کے انداز بدل جاتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے۔ پھر آپؐ نے یہ دعا فرمائی:
''اے اﷲ ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھ۔''(صحیح مسلم)
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا گیا: کون سے لوگ افضل ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ''مخموم القلب اور سچی زبان والے۔'' تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: سچی زبان کا مطلب تو ہم جانتے ہیں، یہ مخموم القلب کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''اس سے مراد متقی ، گناہ، بغاوت، کینہ اور حسد سے پاک شخص ہے۔''
قلبِ سلیم ہر قسم کی خیر کے قریب اور ہر قسم کے شر سے دور ہوتا ہے، قلبِ سلیم میں تمام بلند اخلاقی اقدار ی جمع ہو جاتی ہیں ، بری عادات اور اخلاقیات ایسے دور ہٹا دی جاتی ہیں جس طرح بھٹی سونے چاندی کی ملاوٹ الگ کر دیتی ہے، قلبِ سلیم کا مالک انسان اﷲ تعالی کی رحمت، خصوصی عنایت و تحفظ اور توفیق میں گھِرا ہوا ہوتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی کا مفہوم: ''بے شک! جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اپنے رب کے لیے ان کے دل گداز ہوگئے یہی لوگ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (سورہِ ھود)
دل گْدازی قلبِ سلیم کی سب سے بڑی امتیازی صفت ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر وقت اﷲ کے سامنے دلی طور پر عاجزی انکساری کا اظہار ہو، شریعتِ الہی اور وحی پر دل مکمل مطمئن ہو، عملِ صالح کر کے دل کو سکون ملے اور خوشی محسوس ہو۔ دل شرکِ اکبر اور اصغر سے پاک ہو، کسی قسم کا نفاق دل میں نہ ہو، کبیرہ گناہوں اور برائیوں سے دور ہو، نیز بداخلاقی والی صفات یعنی بخل، لالچ ، حسد، کینہ، تکبر، ملاوٹ، دھوکا دہی، خیانت، مکر، اور جھوٹ سمیت تمام دلی بیماریوں سے پاک ہو، ساتھ میں انسان فرائض ، واجبات کی ادائی یقینی بنائے اور کثرت کے ساتھ مستحب اعمال بجا لائے، اور بداعمالیوں سے دور رہے۔ قلبِ سلیم کی علامات میں سے یہ ہے کہ: دل میں عفو و درگزر، حلم، صبر، قوتِ برداشت، معافی، شفقت، رحم مسلمانوں کے لیے کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔
قلبِ مریض: قلبِ سلیم کے مقابلے میں قلبِ مریض ہے جو کہ مذموم صفات کا حامل ہوتا ہے، مریض دلوں کی سب سے بڑی بیماری حرص ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس بیماری سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اپنے آپ کو ظلم سے دور رکھنا، کیوں کہ قیامت کے دن ظلم کی وجہ سے پے در پے اندھیرے ہوں گے، اور اپنے آپ کو لالچ سے بچاؤ کیوں کہ لالچ نے ہی تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، لالچ نے انہیں قتل و غارت اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے پر آمادہ کیا۔'' (صحیح مسلم)
لالچ یہ ہے کہ ہم کسی کی ملکیت میں موجود چیز کو خود چھیننے کی کوشش کریں، نیز ہمارے ذمہ جو حقوق ہیں انہیں ادا نہ کریں، چنانچہ حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لالچ کے ضمن میں بخل بھی شامل ہے جو قبیح اور مذموم خصلت ہے، نیز لالچ بخل سے بھی سنگین جرم ہے، اسی کی وجہ قطع رحمی، زیادتی اور حق تلفی سمیت خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔ دل کی بڑی بیماریوں میں تکبر بھی شامل ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے، مفہوم: ''جس کے دل میں ایک ذرّے کے برابر بھی تکبر ہے وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔'' (صحیح مسلم)
قرآن حکیم میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں، ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔'' (البقرۃ)
دل پر جب مہر لگ جاتی ہے تو آدمی حق کو سننے اور اسے سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اور کائنات میں موجود دلائل پر غور نہیں کرتا۔ اس سے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں قلب کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اﷲ کا قانون بیان ہوا ہے کہ آدمی کفر و شرک پر اصرار کرے، غلط روی سے باز نہ آئے اور اصلاحِ حال کے لیے آمادہ نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، زبردستی اس کے دل کی دنیا نہیں بدلتا اور اپنی قوت سے کھینچ کر اسے سیدھے راستے پر نہیں لگاتا۔
قرآنِ مجید میں یہ بات اچھی طرح واضح کی گئی ہے ، مفہوم: ''جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور اﷲ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔'' (الصف)
''اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے ان سے اعراض کیا اور اس کے دونوں ہاتھوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے اسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ '' (الکہف)
جب آزمائش کا مرحلہ سامنے ہوتا ہے تو منافق اس سے بچنے کی تدبیر سوچنے لگتا ہے۔ وہ جرأت و ہمت کے مظاہرے کی جگہ اپنی بزدلی کی توجیہ کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہوتی، البتہ دوسروں کی کم زوری تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔
قرآن حکیم دل میں نرمی اور گداز پیدا کرتا ہے۔ اس کو چھوڑنے کے بعد قساوتِ قلب کیسے دُور ہوسکتی ہے؟ اور آدمی فسق و فجور سے کیسے باز رہ سکتا ہے؟ قلبِ سلیم اﷲ کی عظیم نعمت ہے، ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرکے قلب کو سلیم بنانے کوشش اور دعا دونوں کرنی چاہیے۔