اور جوئیل بھی اڑان بھر گیا

ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا تو شور شرابا،جیوئل کاکس کو رہا تو اس پر بھی ہا ہا کار مچی ہے۔ آخر دوست ہی دوست کے تو کام آتے ہیں۔


عاقب علی May 23, 2014
ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا تو شور شرابا،جیوئل کاکس کو رہا تو اس پر بھی ہا ہا کار مچی ہے۔ آخر دوست ہی دوست کے تو کام آتے ہیں۔ فوٹو گیٹی امیج

امریکا پاکستان کا دوست ہے،اگر ہم اسے اپنی گراں قدر خدمات پیش کرتے ہیں اور اس پر دنیا ہمیں اس کا غلام سمجھتی ہے تو یہ ان بد خواہوں کی سوچ کا فتور ہے،جسے دور کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑاتو اس پر بھی شور شرابا مچا اور اب جیوئل کاکس کو رہا کردیااور وہ پاکستان چھوڑ نے میں کامیاب رہا تو اس پر ہا ہا کار مچی ہے،ان دونوں کی رہائی میں آخر خرابی کیا ہے؟ دوست آخر دوست ہی کے کام آتے ہیں۔ کامران کی گفتگو پر ہم تمام ہی دوست پریشان ہوگئے۔امریکا کے زبردست یعنی کٹر مخالف کے منہ سے یہ باتیں،اللہ واقعی قیامت کے دن قریب آگئے ہیں۔

بھائی کامران ! نعمان،سلمان اور میرے منہ سے ابھی اس کا نام ہی نکلا تھا کہ اس نے قہقہہ لگایا ۔حیران کیوں ہو؟ پیارے ساتھیوں میں جو ئیل کاکس کی رہائی اور اس میں سندھ حکومت کی معاونت کے بعد امریکا کی دوستی کا قائل ہوگیا ہوں۔ ہم نے یک زبان کہا اچھا؟اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں گردن ہلادی۔

ہماری جانب سے وجہ پوچھنے سے قبل ہی کامران نے سوال جڑدیا،تمیں یاد ہے ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ کب اور کس کی حکومت کے دوران پیش آیا؟اس سوال سے لگتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ کون بنے گا مہا کروڑ پتی کھیل رہے ہو؟ میں نے بھی ایک سوال کردیا ۔ نہیں دوستوں بتائو تو۔ 27جنوری 2011ء کو لاہور میں پیش آیا، پنجاب میں شہباز شریف اورمرکز میں آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی،سلمان نے ذہن پر زور ڈال کر جواب دیا۔ شاندار تم نے پہلا پڑائو پار کرلیا ،کامران نے مسکرا کر جواب دیا ،اور 32 برس کے جوئیل کا واقعہ کب اور کس کی حکومت میں پیش آیا ۔یار یہ بھی کوئی سوال ہے،5 مئی 2014ء کو پکڑا ہے،سندھ میں قائم علی شاہ اور مرکز میں نوازشریف کی حکومت ہے۔تو تم سمجھ گئے ۔بس تھوڑا سا ہی الٹ پھیر باقی سب ویسا کا ویسا ہے۔ اس کو کہتے ہیں دوستی پر کھرا اترنا۔

ہم سمجھے نہیں،تھوڑا کھل کر بتائو۔ پہلی کے اندازمیں کہی گئی بات پر ہم نے فوراً ہی جواب دے ڈالا۔

کامران نے چائے کا چسکا لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار بس ثابت کر ہی دیا تھا مگر یہ میڈیا بھی اچھے بھلوں سے توبہ کرادیتا ہے،معاملا کھل گیا اور ثابت ہوا کہ وہ تو ایجنٹ ہے ، کسی خاص مہم پر آیا تھا۔جوئیل کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ پھر اس کی دس لاکھ پاکستانی روپے پر ضمانت ہوئی اور اب سندھ حکومت نے عدالت کے روبرو کہہ کر معاملہ ہی اڑن چھو والا بنا دیا کہ امریکا کے اس شہر ی نے پاکستان کیلئے اڑان بھرنے سے قبل ہی امریکی و سندھ کی حکومت سے اسلحہ رکھنے کی اجازت لی تھی جو کہ دونوں حکومتوں نے فوراً دیدی ۔اس پر عدالت نے کیا کرنا تھا ، بس اس امریکی شہر ی کو معصوم الخطا قرار دیدیا،اس پر عوام کو کھٹکا ہوا اور نہ ہی وفاق بھڑکا،جیسا اس سے قبل ہوا تھا۔ حکمرانوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر دوستی کا خوب حق ادا کیا۔ بس بھئی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی امریکا سے محبت کا قائل ہوگیا ۔یہ محبت دوستی کے بغیر پروان تھوڑا چڑھتی ہے۔

سلمان چڑ کر بولا، لگتا ہے تم بھی اس یک طرفہ محبت کی ہلاکت آفرینی کا شکار ہوگئے ہو۔ہم اپنے قومی مجرموں کو امریکا کی دوستی میں چھوڑ دیتے ہیں اور وہ اپنے یہاں سگنل توڑنے پر بھی پاکستانیوں کو نہیں چھوڑتا، جنرل مشرف کے دور میں ائیر پورٹ پر جوتے اتروانے کی روایات تو آپ کو یاد ہی ہوگی،اور وہاں کے پاکستانیوں کو آج نائن الیون کے 13برس گزرنے کے بعد بھی ایسی نظر دیکھا جاتا ہے کہ بس یہ دہشتگرد ابھی حملہ کردیگا۔

میں نے سلمان نے اور نعمان نے بھی کھل کر امریکا مخالف جذبات کا اظہار کیا،جیوئل کی رہائی کو قانونی تقاضوں کی خامیاں گردانا،سیاسی جماعتوں کی امریکی اطاعت پر تین صلواتیں سنائیں،یہ سب اس لیے کیا کیوں کہ آج کامران امریکا کی حمایت میں بول رہا تھا ۔لیکن اگر سوچا جائے تو آج ہم پرانے کامران بن گئے تھے ۔امریکا خراب ہے،ظالم ہے،ہم اس کے دوست نہیں غلام ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔