اسرائیل کی غزہ پر بمباری اسامہ بن لادن کا امریکا کو خط وائرل
اسامہ بن لادن نے خط میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم پر اسرائیل کی مدد کرنے پر امریکا کی مذمت بھی کی تھی
سوشل میڈیا پر اسامہ بن لادن کا ایک خط وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ امریکا کو لکھتے ہیں کہ اگر فلسطین کی درد بھری چیخوں اور دہائیوں کو سنا جاتا تو یہ حملہ کبھی نہیں ہوتا۔
اسامہ بن لادن کا فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے متعلق امریکا کو یہ خط سب سے پہلے ٹک ٹاک پر وائرل ہوا جس کے بعد تمام ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور پھر صیہونی ریاست کی مسلسل بمباری میں 12 ہزار کے قریب شہادتوں اور 25 ہزار کے فلسطینیوں کی زخمی ہونے کے تناظر میں اس خط نے کئی بحثیں چھیڑ دیں۔
سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اس خط کی اصلی ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھیڑ گئی کیوں کہ اسامہ بن لادن کو مئی 2011 میں امریکی فوج نے ایبٹ آباد میں قتل کردیا تھا اور اپنی موت کے 12 سال بعد وہ کیسے خط لکھ سکتے ہیں۔
کچھ صارفین نے خط کے اصلی ہونے سے زیادہ خط کے متن پر زیادہ تبادلہ خیال کیا اور متن کو موجودہ صورت حال کے عین مطابق اور حقیقت کے قریب پایا جب کہ کچھ نے اسے مبالغہ آرائی قرار دیا۔
یہ خط دراصل اسامہ بن لادن نے 11 سمتبر 2001 میں پینٹاگون پر حملوں کے ایک سال بعد لکھا تھا اور جسے دی گارجیئن نے اب دوبارہ ترجمہ کرکے شائع کیا لیکن وائرل ہونے کے بعد خط کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔
جس کے بعد ٹک ٹاک سے بھی #lettertoamerica کو سرچ کے آپشن سے ہٹادیا گیا۔
یاد رہے کہ اس خط میں اسامہ بن لادن نے امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی تھی کہ القاعدہ امریکیوں سے لڑتی اور مخالفت کیوں کر رہی ہے اور یہ بھی کہ القاعدہ آپ کو کس چیز کی طرف بلا رہی ہے اور امریکیوں سے کیا چاہتی ہے؟
اسامہ بن لادن کے اُس خط میں اسرائیل کی بے جا حمایت کرنے پر بھی امریکا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امریکا فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم میں مددگار بن رہا ہے۔
اسی طرح واشنگٹن پوسٹ نے بھی لکھا تھا کہ اسامہ بن لادن نے افغانستان، عراق، صومالیہ، چیچنیا اور لبنان میں امریکی مداخلتوں پر بھی تنقید کی تھی۔
سوشل میڈیا پر اسامہ بن لادن کے خط کے دوبارہ وائرل ہونے پر امریکی حکام نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کے کردار کو دیکھنا ہوگا اور پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسامہ بن لادن کا فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے متعلق امریکا کو یہ خط سب سے پہلے ٹک ٹاک پر وائرل ہوا جس کے بعد تمام ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور پھر صیہونی ریاست کی مسلسل بمباری میں 12 ہزار کے قریب شہادتوں اور 25 ہزار کے فلسطینیوں کی زخمی ہونے کے تناظر میں اس خط نے کئی بحثیں چھیڑ دیں۔
سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اس خط کی اصلی ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھیڑ گئی کیوں کہ اسامہ بن لادن کو مئی 2011 میں امریکی فوج نے ایبٹ آباد میں قتل کردیا تھا اور اپنی موت کے 12 سال بعد وہ کیسے خط لکھ سکتے ہیں۔
کچھ صارفین نے خط کے اصلی ہونے سے زیادہ خط کے متن پر زیادہ تبادلہ خیال کیا اور متن کو موجودہ صورت حال کے عین مطابق اور حقیقت کے قریب پایا جب کہ کچھ نے اسے مبالغہ آرائی قرار دیا۔
یہ خط دراصل اسامہ بن لادن نے 11 سمتبر 2001 میں پینٹاگون پر حملوں کے ایک سال بعد لکھا تھا اور جسے دی گارجیئن نے اب دوبارہ ترجمہ کرکے شائع کیا لیکن وائرل ہونے کے بعد خط کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔
جس کے بعد ٹک ٹاک سے بھی #lettertoamerica کو سرچ کے آپشن سے ہٹادیا گیا۔
یاد رہے کہ اس خط میں اسامہ بن لادن نے امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی تھی کہ القاعدہ امریکیوں سے لڑتی اور مخالفت کیوں کر رہی ہے اور یہ بھی کہ القاعدہ آپ کو کس چیز کی طرف بلا رہی ہے اور امریکیوں سے کیا چاہتی ہے؟
اسامہ بن لادن کے اُس خط میں اسرائیل کی بے جا حمایت کرنے پر بھی امریکا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امریکا فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم میں مددگار بن رہا ہے۔
اسی طرح واشنگٹن پوسٹ نے بھی لکھا تھا کہ اسامہ بن لادن نے افغانستان، عراق، صومالیہ، چیچنیا اور لبنان میں امریکی مداخلتوں پر بھی تنقید کی تھی۔
سوشل میڈیا پر اسامہ بن لادن کے خط کے دوبارہ وائرل ہونے پر امریکی حکام نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا کے کردار کو دیکھنا ہوگا اور پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔