عالمی اسلامک اقتصادی فورم … عالم اسلام کی ضرورت
اسرائیلی فوج نے غزہ میں واقع الشفا اسپتال میں داخل ہوکر وہاں ادویات کے گودام کو بھی اڑا دیا۔ اسرائیل کسی طور پر بھی ظلم و ستم سے باز نہیں آ رہا۔ گزشتہ دنوں اسلامی ممالک کی تنظیم کے سربراہوں کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ اس کے حامی ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے پاس پٹرول کا حربہ ہے جسے وہ استعمال کرنا نہیں چاہ رہے ہیں، لہٰذا اسلامی ممالک جوکہ حقیقی معنوں میں اسرائیل مخالف ہیں، ان کے پاس ایک حربہ ہے کہ وہ اسرائیل کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور دیگر حامی ممالک کا بھی، اگرچہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اب '' اوہ آئی سی'' کے قابل بھی نہ رہی، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔
یہ مارچ 2006 کی بات ہے، عالمی اسلامک اقتصادی فورم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ دنیا میں ایک عالمی اقتصادی فورم بھی ہے جس کا ہر سال اجلاس بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر کی نظریں اس کئی روزہ اجلاس پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
عالمی اسلامک اقتصادی فورم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا اپنی باہمی تجارت کو فروغ دے۔ کہا جا رہا تھا کہ اسلامک ممالک کے درمیان تجارت میں موجودہ صدی میں بہت فروغ حاصل ہوا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام تر باتوں کے باوجود اسلامی ممالک کے درمیان تجارت و سرمایہ کاری کا حجم اس کے انسانی قدرتی وسائل اسلامی دنیا کی بے پناہ دولت، توانائی، معدنیات، زراعت و صنعت کے میدان میں اب بھی کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
اس کمی کی وجہ اول دلچسپی کا فقدان اور کسی قسم کا روڈ میپ نہ ہونا اور زیادہ تر انحصار غیر مسلم ممالک سے تجارت، خاص طور پر ان صنعتی ممالک کی مصنوعات کی زبردست پذیرائی، جوکہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں کئی مسلم ممالک یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان میں اس کا معمولی مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن یہ محض چند فی صد ہی ہے۔
اسلامی اقتصادی فورم کو دوبارہ فعال طریقے سے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم دنیا کا زیادہ تر انحصار صنعتی ممالک پر ہے اور ان صنعتی ممالک کی مصنوعات انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود ان کی طلب ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اکتوبر کے بعد سے اس جانب کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی گئی۔ مسلم ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں کمی کی کئی وجوہات اور رکاوٹیں ہیں جن کو مل بیٹھ کر دور کرنا لازمی ہے جن میں ٹیرف، نان ٹیرف، انتظامی رکاوٹیں، باہمی رابطے اور نظام ٹرانسپورٹ جس میں ہوائی جہاز کے ذریعے بحری جہازوں کے ذریعے، سڑکوں اور ریلوں کے ذریعے، اس طرح کی بہت سی رکاوٹیں ہیں، مسائل ہیں، ان سب کو حل کرنا ہوگا۔
یہ معاملات تمام مسلم ممالک بھی طے کریں اور دو طرفہ اور سہ فریقی بھی ہو سکتا ہے جسے چند دن قبل پاکستان، افغانستان اور ازبکستان سہ فریقی پہلے اجلاس میں اس بات پر توجہ دی گئی کہ کس طرح تینوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے۔ تجارتی رکاوٹیں دور کی جائیں، ازبکستان بندرگاہ سے محروم ہونے کے باعث پاکستان اسے بندرگاہ کی سہولیات فراہم کر سکتا ہے۔
یہ وسطی ایشیا کا خوشحال ملک بھی ہے اور اپنی درآمدات کے لیے ترکی اور ایرانی بندرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے اردگرد مسلم ممالک ہیں جو اسی کی طرح بندرگاہوں سے محروم ہیں۔ بابر بھی اس ملک میں واقع فرغانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بابر فرغانہ ریاست کے حکمران کا بیٹا تھا۔ بابر کے حوالے سے اس ملک کے شہری پاکستان سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت تینوں ممالک کے درمیان تجارت و صنعت کے بے پناہ مواقعے موجود ہیں۔
غریب مسلم ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ترقی کی خاطر اپنی ضرورت کے باعث صنعتی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور عالمی تجارتی نظام کو کچھ اس طرح سے ڈھالا گیا ہے کہ غریب ممالک کی زرعی پیداوار ہو یا ان کی زراعت پر مبنی مصنوعات ہوں یا دیگر ہلکی پھلکی مصنوعات ان تمام کے دام انتہائی سستے لگائے جاتے ہیں اور مغربی ممالک کی مصنوعات یا وہاں کی ٹرانسپورٹ گڈز اور دیگر بے شمار اشیا ان کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔
پاکستان کو اس کا اچھا خاصا تجربہ ہے پاکستان کی برآمدات کی ویلیو کم ہی رہتی ہے اور درآمدات مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے باعث اسے زبردست تجارتی خسارہ ہوتا ہے اور بالآخر آئی ایم ایف کے چنگل میں جا پھنستا ہے۔
ایک دو سال ہی ہوئے ہیں کہ اب اس مسئلے کا حل نکالا جا رہا ہے۔ درآمدات میں کمی لائی جا رہی ہے جس کے باعث پاکستان پر مالی دباؤ کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اور امیر اسلامی ممالک اور دیگر اسلامی ممالک میں اب یہ کلچر فروغ پا چکا ہے کہ قیمتی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور ان کی قیمت اب لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے میں ہے۔
یہاں تک کہ 5 یا 6 یا 9 کروڑ کی گاڑیاں اب سڑکوں پر عام نظر آتی ہیں۔ ہمارا لاکھوں من غلہ، لاکھوں گز کپڑا، ہزاروں کی تعداد میں لیدر گارمنٹ دے کر ان کی ایک یا دو ہی مشینریاں ہوں یا مہنگی کاریں ہوں وہ ہم درآمد کرتے ہیں۔ عربوں اور دیگر اسلامی ممالک کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہزاروں لیٹر تیل فراہم کرکے کہیں جا کر مہنگی اشیا امپورٹ کرتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک معاشی پہلو پر توجہ دیں اور باہمی تجارت کو فروغ دیں اور دیگر معاشی معاملات کو طے کرنے کی خاطر عالمی اسلامک اقتصادی فورم کو فوری طور پر متحرک کریں۔
اسرائیل کے ساتھ اس کے حامی ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے پاس پٹرول کا حربہ ہے جسے وہ استعمال کرنا نہیں چاہ رہے ہیں، لہٰذا اسلامی ممالک جوکہ حقیقی معنوں میں اسرائیل مخالف ہیں، ان کے پاس ایک حربہ ہے کہ وہ اسرائیل کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور دیگر حامی ممالک کا بھی، اگرچہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اب '' اوہ آئی سی'' کے قابل بھی نہ رہی، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔
یہ مارچ 2006 کی بات ہے، عالمی اسلامک اقتصادی فورم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ دنیا میں ایک عالمی اقتصادی فورم بھی ہے جس کا ہر سال اجلاس بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر کی نظریں اس کئی روزہ اجلاس پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
عالمی اسلامک اقتصادی فورم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا اپنی باہمی تجارت کو فروغ دے۔ کہا جا رہا تھا کہ اسلامک ممالک کے درمیان تجارت میں موجودہ صدی میں بہت فروغ حاصل ہوا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام تر باتوں کے باوجود اسلامی ممالک کے درمیان تجارت و سرمایہ کاری کا حجم اس کے انسانی قدرتی وسائل اسلامی دنیا کی بے پناہ دولت، توانائی، معدنیات، زراعت و صنعت کے میدان میں اب بھی کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
اس کمی کی وجہ اول دلچسپی کا فقدان اور کسی قسم کا روڈ میپ نہ ہونا اور زیادہ تر انحصار غیر مسلم ممالک سے تجارت، خاص طور پر ان صنعتی ممالک کی مصنوعات کی زبردست پذیرائی، جوکہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں کئی مسلم ممالک یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے لیکن عملاً کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان میں اس کا معمولی مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن یہ محض چند فی صد ہی ہے۔
اسلامی اقتصادی فورم کو دوبارہ فعال طریقے سے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم دنیا کا زیادہ تر انحصار صنعتی ممالک پر ہے اور ان صنعتی ممالک کی مصنوعات انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود ان کی طلب ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اکتوبر کے بعد سے اس جانب کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی گئی۔ مسلم ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں کمی کی کئی وجوہات اور رکاوٹیں ہیں جن کو مل بیٹھ کر دور کرنا لازمی ہے جن میں ٹیرف، نان ٹیرف، انتظامی رکاوٹیں، باہمی رابطے اور نظام ٹرانسپورٹ جس میں ہوائی جہاز کے ذریعے بحری جہازوں کے ذریعے، سڑکوں اور ریلوں کے ذریعے، اس طرح کی بہت سی رکاوٹیں ہیں، مسائل ہیں، ان سب کو حل کرنا ہوگا۔
یہ معاملات تمام مسلم ممالک بھی طے کریں اور دو طرفہ اور سہ فریقی بھی ہو سکتا ہے جسے چند دن قبل پاکستان، افغانستان اور ازبکستان سہ فریقی پہلے اجلاس میں اس بات پر توجہ دی گئی کہ کس طرح تینوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جائے۔ تجارتی رکاوٹیں دور کی جائیں، ازبکستان بندرگاہ سے محروم ہونے کے باعث پاکستان اسے بندرگاہ کی سہولیات فراہم کر سکتا ہے۔
یہ وسطی ایشیا کا خوشحال ملک بھی ہے اور اپنی درآمدات کے لیے ترکی اور ایرانی بندرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے اردگرد مسلم ممالک ہیں جو اسی کی طرح بندرگاہوں سے محروم ہیں۔ بابر بھی اس ملک میں واقع فرغانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بابر فرغانہ ریاست کے حکمران کا بیٹا تھا۔ بابر کے حوالے سے اس ملک کے شہری پاکستان سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت تینوں ممالک کے درمیان تجارت و صنعت کے بے پناہ مواقعے موجود ہیں۔
غریب مسلم ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک ان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ترقی کی خاطر اپنی ضرورت کے باعث صنعتی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور عالمی تجارتی نظام کو کچھ اس طرح سے ڈھالا گیا ہے کہ غریب ممالک کی زرعی پیداوار ہو یا ان کی زراعت پر مبنی مصنوعات ہوں یا دیگر ہلکی پھلکی مصنوعات ان تمام کے دام انتہائی سستے لگائے جاتے ہیں اور مغربی ممالک کی مصنوعات یا وہاں کی ٹرانسپورٹ گڈز اور دیگر بے شمار اشیا ان کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔
پاکستان کو اس کا اچھا خاصا تجربہ ہے پاکستان کی برآمدات کی ویلیو کم ہی رہتی ہے اور درآمدات مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے باعث اسے زبردست تجارتی خسارہ ہوتا ہے اور بالآخر آئی ایم ایف کے چنگل میں جا پھنستا ہے۔
ایک دو سال ہی ہوئے ہیں کہ اب اس مسئلے کا حل نکالا جا رہا ہے۔ درآمدات میں کمی لائی جا رہی ہے جس کے باعث پاکستان پر مالی دباؤ کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اور امیر اسلامی ممالک اور دیگر اسلامی ممالک میں اب یہ کلچر فروغ پا چکا ہے کہ قیمتی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور ان کی قیمت اب لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے میں ہے۔
یہاں تک کہ 5 یا 6 یا 9 کروڑ کی گاڑیاں اب سڑکوں پر عام نظر آتی ہیں۔ ہمارا لاکھوں من غلہ، لاکھوں گز کپڑا، ہزاروں کی تعداد میں لیدر گارمنٹ دے کر ان کی ایک یا دو ہی مشینریاں ہوں یا مہنگی کاریں ہوں وہ ہم درآمد کرتے ہیں۔ عربوں اور دیگر اسلامی ممالک کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہزاروں لیٹر تیل فراہم کرکے کہیں جا کر مہنگی اشیا امپورٹ کرتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک معاشی پہلو پر توجہ دیں اور باہمی تجارت کو فروغ دیں اور دیگر معاشی معاملات کو طے کرنے کی خاطر عالمی اسلامک اقتصادی فورم کو فوری طور پر متحرک کریں۔