سب کے ترجمان بنیں

tauceeph@gmail.com

سپریم کورٹ کی جانب سے 8 فروری 2024 کو انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ ملک میں کئی سیاسی جماعتوں کو نگران حکومت کی پالیسیوں پر تحفظات ہیں، جن میں تحریک انصاف کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بار بار کہہ رہے ہیں کہ پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی مسلسل بڑ ھ رہی ہے، اس دہشت گردی کا نشانہ جمعیت علمائے اسلام بن رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیانیہ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مسلسل نشر ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں ہے۔ بلاول کہتے ہیں کہ سندھ میں نگران حکومت کے آنے کے بعد سابقہ منتخب حکومتی اراکین کی کوششوں سے منظور ہونے والی اسکیموں کو روک دیا گیا ہے۔

سندھ میں مکمل طور پر بیوروکریسی کی تطہیرکی گئی ہے مگر پنجاب میں حکومت میں انتظامی فرائض انجام دینے والے افسران بدستور تعینات ہیں۔ سابقہ ادوار میں منظور ہونے والی اسکیموں پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔

متحدہ قومی مومنٹ نے بھی سندھ کی نگراں حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل قرار دیا ہے جب کہ جی ڈی اے والے بھی یہ الزام بار بار لگا رہے ہیں کہ سندھ میں پولیس اور انتظامی افسران عدم تعاون کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ایسی ہی شکایات پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ہیں۔ اے این پی کے رہنما حیدر ہوتی نے تو انتخابات میں دھاندلی کے خدشہ کا اظہارکیا ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو وہ نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔ ایسا ہی مؤقف جے یو آئی کا بھی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل صوبہ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی جماعت نے خضدار سے کوئٹہ تک ایک احتجاجی مارچ بھی کیا تھا۔ اختر مینگل نے خود پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اختر مینگل سے یکجہتی کے لیے اس احتجاجی دھرنا میں شرکت کی تھی۔ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا معاملہ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی موجود رہا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کراچی، کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد میں بھی دھرنے دیے تھے مگر کبھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا تھا ۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کا گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو بحث کا موضوع بنا رہا۔ انھوں نے اس انٹرویو میں کہہ دیا کہ وہ صدر کے عہدہ پر تعینات نہ ہوتے تو جیل میں ہوتے۔ اپوزیشن جماعتوں کے موقف کے مطابق ان کے لیے صدر علوی کا دور ایک متنازعہ دور قرار دیا جاسکتا ہے۔


انھوں نے تحریک انصاف کے 4سالہ دور میں اپنی حکومت کی کسی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا۔ انھوں نے ٹی وی انٹرویو میں جسٹس فائز عیسیٰ کی کارکردگی کی خاصی تعریف کی تھی۔ کچھ سینئر صحافیوں نے متنازعہ کارٹون کے وائرل ہونے پر فرانس کے خلاف احتجاج کے موقع پر صدر صاحب کے رویے کو ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے خطرناک قرار دیا تھا۔ فرانس کی حکومت نے بھی اس وقت صدر علوی کے ایک بیان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

صدر علوی کا ایک اور بیان وفاق کے زیرِ انتظام قائم یونیورسٹیوں کی بدحالی کے حوالے سے سامنے آیا۔ وہ چار سے زیادہ وفاقی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔ صدر صاحب ان یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں کے اجلاسوں کی صدارت کرتے رہے مگر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے پسند کے افراد کو ان یونیورسٹیوں کے اداروں مثلاً سینیٹ اور سنڈیکیٹ وغیرہ میں رکن کی حیثیت سے نامزد کرتے رہے۔ صدر علوی اپنے تعلیمی دور میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے منسلک تھے اور اس دور میں چلنے والی تحریکوں میں متحرک رہے۔

ان سے یہ توقعات وابستہ کی گئی تھیں کہ وہ طلبہ یونین کی بحالی کو یقینی بنائیں گے اور علمی آزادی کا ادارہ تقویت پائے گا مگر عملاً ایسا نہیں ہوسکا۔ البتہ ایک اور حقیقت گزشتہ دنوں واضح ہوئی جب چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ نے قائد اعظم یونیورسٹی کی سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کی اور فوراً اس رائے کا اظہار کیا کہ قانونی طور پر طلبہ یونین پر پابندی نہیں ہے، اس لیے طلبہ یونین کے انتخابات ہونے چاہئیں۔

طلبہ یونین پر قانونی پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں وزارت قانون سابق صدر ممنون حسین کے دور میں ایوانِ صدر کو یہ رائے بھجواچکی ہے کہ سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ایک قرارداد بھی منظور ہوئی تھی مگر اس اہم معاملے پر توجہ نہیں دی گئی۔

وفاقی اردو یونیورسٹی میں گزشتہ چار برسوں میں (سوائے ایک ماہ کے مختصر عرصہ کے ) کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے ۔ صدر عارف علوی کی صدارت میں ہونے والے یونیورسٹی کے سینیٹ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے قانون میں ترامیم کی جائیں اور یہ قانون ویسا ہونا چاہیے جیسا ملک کی دیگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا ہے مگر بعض افراد نے اس قانون کی ترامیم کے مسودہ کو سینیٹ کے ایجنڈا میں شامل نہیں ہونے دیا۔

جب منتخب پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا تو اس قانون کو واپس کردیا۔ اسلام آباد سے کئی صحافیوں نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کا قانون منظور کیا تو صدر صاحب نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، یوں اپنے قائد اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک ہی وقت میں خوش کرنے کی کوشش کی۔

سپریم کورٹ نے 8فروری کے انتخابات کرانے کے فیصلہ میں لکھا ہے کہ سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی تو ڈاکٹر علوی کو چیئرمین تحریک انصاف کی ایڈوائز پر قومی اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے یہ اقدام اٹھا کر آئین سے انحراف کیا ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے انتہائی مناسب بات کی ہے کہ صدر مملکت عارف علوی کسی ایک سیاسی جماعت کے ترجمان بننے کے بجائے سب کے ترجمان بنیں۔ دنیا کے جمہوری ممالک میں رائج روایات کے تحت تو صدر کو اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے ساتھ ہی صدارت کا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
Load Next Story