اگلے دس سال اور دنیا
مغربی دنیا کی خیرہ کُن کامیابیوں کے پیچھے اہم ترین وجوہات میں سے ایک کلیدی وجہ پوری دنیا کے بارے میں مسلسل معلومات جمع کرنے کا بندوبست ہے ۔ جب سے مغربی دنیا نے سب کچھ چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ حصول علم پر مرکوز کی ان کے عالمی اقتدار کا سورج طلوع ہونا شروع ہو گیا۔
آپ حیران ہوں گے کہ 1665 میں جب لندن طاعون کی وبا کا شکار ہوا 'جس میں ایک لاکھ کے قریب شہری موت کا شکار ہوئے تھے' اُس دور کے ڈاکٹروں کے وہ رجسٹر آج تک موجود ہیں جن میں علاج کے لیے آنے والے ہر مریض کی علامات کا اندراج کیا گیا ہے۔
برطانیہ میں، 1200 کے دور کے ایسے رجسٹر بھی قابل رسائی ہیں جن میں امراض کی علامات، مریض کی کیفیت اس کا علاج اور ادویات کے اثرات کی تفصیلات درج ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس نوعیت کے ریکارڈ کی موجودگی کے باعث ہی مغربی اقوام تسلسل کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل ہوئیں۔ یہ سلسلہ نہ صرف یہ کہ آج بھی جاری ہے بلکہ اس نے انتہائی متنوع شکل اختیار کر لی ہے۔
معلومات کا استعمال بھی سو طریقوں سے ہوتا ہے اور اسے صرف رہنمائی کے لیے نہیں دوسروں کی رائے کو مخصوص سمت دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ادارے دنیا بھر سے معلومات جمع کرتے ہیں، ماہرین سے تجزیے کراتے ہیں اور ان معلومات کو مختلف اعشاریوں پر جانچ پرکھ کر مستقبل کے ممکنا منظر نامے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ پھر ان تجزیاتی رپورٹوں کو میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جاتا ہے جس سے یقیناً رائے عامہ بھی متاثر ہوتی ہے۔
امریکا کی اٹلانٹک کونسل بھی ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ لگانے پر مامور ہے۔ اس کونسل کے تحت کام کرنے والے 'سکیوکرافٹ سینٹر فار اسٹرٹیجی اینڈ سیکیورٹی' نے حال ہی میں چوٹی کے تزویراتی ماہرین اور موجودہ حالات کی بنیاد پر مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کی شہرت رکھنے والی شخصیات سے استفادہ کر کے دنیا میں آیندہ دس برس میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
اس رپورٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بے لاگ تجزیوں کے ساتھ خواہشات اور ارادوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ اگلے دس برسوں میں روس کی موجودہ شکل و صورت برقرار نہیں رہ پائے گی۔ تجزیہ نگار ماہرین کی اکثریت کی رائے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا یہ ملک یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والی منفی صورتحال کے نتیجے میں اپنا موجودہ وجود قائم رکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔
40 فیصد ماہرین کا ماننا ہے کہ 2033 تک روس کے اندر انقلاب آسکتا ہے، خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے یا پھر سیاسی طور پر شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ 14 فیصد ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس عرصے میں روس ایٹمی ہتھیار کا استعمال کرسکتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے مزید ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ ماہرین کی غالب اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ اگلی دہائی میں ایٹمی ممالک کی تعداد بڑھے گی۔ 68 فیصد کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 2033 تک ایران ایک ایٹمی طاقت ہوگا۔ ان ماہرین میں سے اٹلانٹک کونسل سے وابستہ میتھیو کوئنگ کا خیال ہے کہ ایران ایک سال میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلے گا۔
ماہرین نے ایک انتہائی اہم نقطہ اُٹھایا ہے کہ عالمی سیاست میں ایٹمی صلاحیت کے ظہور نے تنازعات کے حل کا راستہ بند کر دیا ہے اور ان تنازعات ہی نے ملکوں کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
اگر ایران ایسا کرتا ہے تو سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا۔ اسی طرح 57 فیصد ماہرین کا خیال ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کریں گے۔ اس حوالے سے مثبت بات یہ رہی کہ 58 فیصد ماہرین کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ اکثریت کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف عالمی تعاون کمزور پڑجائے گا۔
اس رپورٹ کے مطابق تائیوان کے خلاف چین کی فوجی کارروائی متوقع ہے۔ امریکی ماہرین اس بات سے مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ چین 2027 سے پہلے پہلے تائیوان پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک فوجی کارروائی کرے گا۔ زیر نظر سروے بھی اسی رائے کی تصدیق کر رہا ہے۔
آیندہ برسوں میں یوکرین پر روس امریکا تصادم کے اندیشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ غالب اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر چڑھائی کی تو امریکا جنگ میں کُود پڑے گا۔ ان کے تجزیے کے مطابق بڑی طاقتوں میں جنگ کا میدان یورپ کے بجائے ایشیا ہوگا۔
ماہرین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ چین، امریکا معاشی جنگ بدستور جاری رہے گی۔ امریکا چین معاشی کشمکش اور کھینچا تانی کے ڈرامائی اختتام کی کوئی اُمید نہیں۔ ایک دوسرے پر تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں دونوں کا ایک دوسرے پر معاشی انحصار کافی حد تک کم ہوجائے گا۔ جیسے روس پر پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نئے روسی کمرشل جیٹ جہازوں نے روسی ساختہ انجنوں اور دیگر آلات کے ساتھ پروازیں شروع کر دی ہیں۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکا بدستور بڑی عالمی طاقت رہے گا لیکن اس کا عالمی تسلط کمزور ہو گا۔ اکثریت کا خیال ہے کہ امریکا کی ایک بڑی فوجی طاقت کی حیثیت اگلے دس برس بھی قائم رہے گی لیکن دوسرے ملکوں پر اس کا زور اُس طرح نہیں چل سکے گا جیسا اب ہے۔
چین کی عسکری جدت امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ نصف ماہرین کے خیال میں امریکا کی ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری قائم رہے گی۔ اس حوالے سے تقریباً سبھی ماہرین نے سوال اُٹھایا ہے کہ اگر امریکا کی معاشی اور سفارتی برتری جاتی رہی تو باقی شعبوں میں برتری کیونکر قائم رہ سکتی ہے۔
42 فیصد ماہرین اگلے دس برسوں میں منفی موسمی تغیرات پر عالمی تعاون میں مزید اضافہ دیکھتے ہیں۔ عالمی رہنما اس مسئلے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 2025 تک کاربن کے اخراج کی مقدار بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی اور 47 فیصد ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا مزید بحرانوں کے لیے تیار رہے غالب اکثریت کا تجزیہ یہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں ویسی ہی شدت کا معاشی بحران آسکتا ہے جیسا 2008-9 میں آیا تھا جب کہ مزید 18 فیصد کہتے ہیں کہ ایک نہیں، دو یا اس سے بھی زیادہ معاشی جھٹکے آسکتے ہیں۔ 49 فیصد کووڈ19- جیسی عالمی وباء کا خطرہ دیکھ رہے ہیں جب کہ مزید 16 فیصد کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ وباؤں کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جمہوری اور آمرانہ طرز حکمرانی میں کشمکش بڑھے گی، جس میںجمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا۔
اگلے دس برسوں میں جمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا۔ 29 فیصد کا خیال ہے کہ جمہوری ممالک میں اضافہ ہوگا۔ 35 فیصد کا اندازہ ہے کہ جمہوری ریاستوں میں کمی یا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک دلچسپ اقلیتی رائے یہ سامنے آئی ہے کہ اگلے دس برسوں میں امریکا جمہوریت سے آمریت کی طرف مائل ہوجائے گا۔ دنیا کے جمہوری ملکوں کو قوم پرست اور محروم طبقات کے حقوق کی تحریکوں کا سامنا رہے گا۔
انھیں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار، ہوشربا ترقی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ آیندہ دس برسوں میں مقبول ترین عوامی تحریکوں کے سوال پر محض پانچ فیصد ماہرین نے جمہوری تحریکوں کا نام لیا جب کہ غالب اکثریت قوم پرست اور محروم طبقات کی جدوجہد میں اضافہ دیکھ رہی ہے۔
53 فیصد ماہرین سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا جمہوری ممالک کے لیے منفی اثرات کا باعث ہوگا۔ 57 سے 68 فیصد ماہرین نے کوانٹم کمپیوٹنگ، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی دماغ کی طرح کام کرنے والی مشینوں کے کامیاب استعمال کے آغاز کی خبر دی ہے۔ جہاں ان ٹیکنالوجیز سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوں گے وہیں بہت سے چیلنج بھی سامنے آئیں گے جن میں ملازمتوں، عوامی صحت اور تحفظ کے معاملات شامل ہوں گے۔
آپ حیران ہوں گے کہ 1665 میں جب لندن طاعون کی وبا کا شکار ہوا 'جس میں ایک لاکھ کے قریب شہری موت کا شکار ہوئے تھے' اُس دور کے ڈاکٹروں کے وہ رجسٹر آج تک موجود ہیں جن میں علاج کے لیے آنے والے ہر مریض کی علامات کا اندراج کیا گیا ہے۔
برطانیہ میں، 1200 کے دور کے ایسے رجسٹر بھی قابل رسائی ہیں جن میں امراض کی علامات، مریض کی کیفیت اس کا علاج اور ادویات کے اثرات کی تفصیلات درج ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس نوعیت کے ریکارڈ کی موجودگی کے باعث ہی مغربی اقوام تسلسل کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل ہوئیں۔ یہ سلسلہ نہ صرف یہ کہ آج بھی جاری ہے بلکہ اس نے انتہائی متنوع شکل اختیار کر لی ہے۔
معلومات کا استعمال بھی سو طریقوں سے ہوتا ہے اور اسے صرف رہنمائی کے لیے نہیں دوسروں کی رائے کو مخصوص سمت دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ادارے دنیا بھر سے معلومات جمع کرتے ہیں، ماہرین سے تجزیے کراتے ہیں اور ان معلومات کو مختلف اعشاریوں پر جانچ پرکھ کر مستقبل کے ممکنا منظر نامے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ پھر ان تجزیاتی رپورٹوں کو میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلایا جاتا ہے جس سے یقیناً رائے عامہ بھی متاثر ہوتی ہے۔
امریکا کی اٹلانٹک کونسل بھی ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ لگانے پر مامور ہے۔ اس کونسل کے تحت کام کرنے والے 'سکیوکرافٹ سینٹر فار اسٹرٹیجی اینڈ سیکیورٹی' نے حال ہی میں چوٹی کے تزویراتی ماہرین اور موجودہ حالات کی بنیاد پر مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کی شہرت رکھنے والی شخصیات سے استفادہ کر کے دنیا میں آیندہ دس برس میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
اس رپورٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بے لاگ تجزیوں کے ساتھ خواہشات اور ارادوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ اگلے دس برسوں میں روس کی موجودہ شکل و صورت برقرار نہیں رہ پائے گی۔ تجزیہ نگار ماہرین کی اکثریت کی رائے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا یہ ملک یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والی منفی صورتحال کے نتیجے میں اپنا موجودہ وجود قائم رکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔
40 فیصد ماہرین کا ماننا ہے کہ 2033 تک روس کے اندر انقلاب آسکتا ہے، خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے یا پھر سیاسی طور پر شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ 14 فیصد ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس عرصے میں روس ایٹمی ہتھیار کا استعمال کرسکتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے مزید ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ ماہرین کی غالب اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ اگلی دہائی میں ایٹمی ممالک کی تعداد بڑھے گی۔ 68 فیصد کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 2033 تک ایران ایک ایٹمی طاقت ہوگا۔ ان ماہرین میں سے اٹلانٹک کونسل سے وابستہ میتھیو کوئنگ کا خیال ہے کہ ایران ایک سال میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلے گا۔
ماہرین نے ایک انتہائی اہم نقطہ اُٹھایا ہے کہ عالمی سیاست میں ایٹمی صلاحیت کے ظہور نے تنازعات کے حل کا راستہ بند کر دیا ہے اور ان تنازعات ہی نے ملکوں کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
اگر ایران ایسا کرتا ہے تو سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا۔ اسی طرح 57 فیصد ماہرین کا خیال ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کریں گے۔ اس حوالے سے مثبت بات یہ رہی کہ 58 فیصد ماہرین کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ اکثریت کا ماننا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف عالمی تعاون کمزور پڑجائے گا۔
اس رپورٹ کے مطابق تائیوان کے خلاف چین کی فوجی کارروائی متوقع ہے۔ امریکی ماہرین اس بات سے مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ چین 2027 سے پہلے پہلے تائیوان پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک فوجی کارروائی کرے گا۔ زیر نظر سروے بھی اسی رائے کی تصدیق کر رہا ہے۔
آیندہ برسوں میں یوکرین پر روس امریکا تصادم کے اندیشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ غالب اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر چڑھائی کی تو امریکا جنگ میں کُود پڑے گا۔ ان کے تجزیے کے مطابق بڑی طاقتوں میں جنگ کا میدان یورپ کے بجائے ایشیا ہوگا۔
ماہرین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ چین، امریکا معاشی جنگ بدستور جاری رہے گی۔ امریکا چین معاشی کشمکش اور کھینچا تانی کے ڈرامائی اختتام کی کوئی اُمید نہیں۔ ایک دوسرے پر تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں دونوں کا ایک دوسرے پر معاشی انحصار کافی حد تک کم ہوجائے گا۔ جیسے روس پر پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نئے روسی کمرشل جیٹ جہازوں نے روسی ساختہ انجنوں اور دیگر آلات کے ساتھ پروازیں شروع کر دی ہیں۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکا بدستور بڑی عالمی طاقت رہے گا لیکن اس کا عالمی تسلط کمزور ہو گا۔ اکثریت کا خیال ہے کہ امریکا کی ایک بڑی فوجی طاقت کی حیثیت اگلے دس برس بھی قائم رہے گی لیکن دوسرے ملکوں پر اس کا زور اُس طرح نہیں چل سکے گا جیسا اب ہے۔
چین کی عسکری جدت امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ نصف ماہرین کے خیال میں امریکا کی ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری قائم رہے گی۔ اس حوالے سے تقریباً سبھی ماہرین نے سوال اُٹھایا ہے کہ اگر امریکا کی معاشی اور سفارتی برتری جاتی رہی تو باقی شعبوں میں برتری کیونکر قائم رہ سکتی ہے۔
42 فیصد ماہرین اگلے دس برسوں میں منفی موسمی تغیرات پر عالمی تعاون میں مزید اضافہ دیکھتے ہیں۔ عالمی رہنما اس مسئلے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 2025 تک کاربن کے اخراج کی مقدار بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی اور 47 فیصد ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا مزید بحرانوں کے لیے تیار رہے غالب اکثریت کا تجزیہ یہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں ویسی ہی شدت کا معاشی بحران آسکتا ہے جیسا 2008-9 میں آیا تھا جب کہ مزید 18 فیصد کہتے ہیں کہ ایک نہیں، دو یا اس سے بھی زیادہ معاشی جھٹکے آسکتے ہیں۔ 49 فیصد کووڈ19- جیسی عالمی وباء کا خطرہ دیکھ رہے ہیں جب کہ مزید 16 فیصد کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ وباؤں کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جمہوری اور آمرانہ طرز حکمرانی میں کشمکش بڑھے گی، جس میںجمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا۔
اگلے دس برسوں میں جمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا۔ 29 فیصد کا خیال ہے کہ جمہوری ممالک میں اضافہ ہوگا۔ 35 فیصد کا اندازہ ہے کہ جمہوری ریاستوں میں کمی یا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک دلچسپ اقلیتی رائے یہ سامنے آئی ہے کہ اگلے دس برسوں میں امریکا جمہوریت سے آمریت کی طرف مائل ہوجائے گا۔ دنیا کے جمہوری ملکوں کو قوم پرست اور محروم طبقات کے حقوق کی تحریکوں کا سامنا رہے گا۔
انھیں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار، ہوشربا ترقی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ آیندہ دس برسوں میں مقبول ترین عوامی تحریکوں کے سوال پر محض پانچ فیصد ماہرین نے جمہوری تحریکوں کا نام لیا جب کہ غالب اکثریت قوم پرست اور محروم طبقات کی جدوجہد میں اضافہ دیکھ رہی ہے۔
53 فیصد ماہرین سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا جمہوری ممالک کے لیے منفی اثرات کا باعث ہوگا۔ 57 سے 68 فیصد ماہرین نے کوانٹم کمپیوٹنگ، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی دماغ کی طرح کام کرنے والی مشینوں کے کامیاب استعمال کے آغاز کی خبر دی ہے۔ جہاں ان ٹیکنالوجیز سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوں گے وہیں بہت سے چیلنج بھی سامنے آئیں گے جن میں ملازمتوں، عوامی صحت اور تحفظ کے معاملات شامل ہوں گے۔