پاکستان ایک نظر میں خان صاحب دھرنے چھوڑیے خیبر پختونخوا کو مثالی صوبہ بنائیے
خان صاحب خدارااپنے ووٹرز اور قوم کی امیدوں پر پانی مت پھیریں۔ اس جمہوری نظام کو چلنے دیں.
کہنے کو تو پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ ملک کم اور تجربہ گاہ زیادہ ہے ۔ یہاں پر سیاستدان کم ہیں اور لوٹے زیادہ ہیں ۔ اِس وطن عزیز میں ایسے بھی لوگ اور سیاسی جماعتیں ہیں جن کو شاید ان کے گھر والے بھی ووٹ نہ ڈالیں مگر بات وہ ملک بچانے کی کرتے ہیں۔
لوگ یہاں پر سیاست نہیں بلکہ اداکاری اور تماشہ کرتے ہیں ۔ کچھ اسمبلیوں میںتو کچھ ٹیلی ویژن پراور کچھ گلی کوچوں میں کرتے ہیں اور اس ملک میں سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ سیاست کی فیکٹریاں ہیں۔ یہاں پر لوگ جمہوری نظام کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنی ذات، خاندان اور سیاسی جماعت میں غیر جمہوری طریقہ کار کو تر جیح دیتے ہیں۔
اگر موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورتحال1977ء جیسی بنتی جا رہی ہے جہاں تحریک تو دھاندلی کے خلاف ہوئی تھی لیکن جمہوریت مخالف قوتوں نے اُس کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے جمہوریت کی ٹرین کو 11 سال پٹری سے اتاردیا۔ اور اب ایک بار پھر جمہوریت کی کشتی مہنگائی ، لودشیڈنگ اور دھاندلی کے طوفان میںپھنس گئی ہے ۔ جس سے باہر نکلنا بظاہر مشکل لگ رہا ہے اور اگر خدانخواستہ اِس بار بھی جمہوری نظام کو دھچکا پہنچتا ہے تو اِس میں غیروں کی غلطیاں کم ہوں گی اور اپنوں کی زیادہ۔ میری تو ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر حکومت عمران خان کی جانب سے لگائے گئے کے دھاندلی کے الزامات کو سنجیدگی سے لے لیا ہوتا توگلی ، کوچوں اور محلوں میں ہونے والے احتجاج کو روکا جاسکتا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ میں اِس کشمکش کا بھی شکار ہوں کہ اگر اُن چار حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے جس کا عمران خان شش و مد سے مطالبہ کررہے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیا عمران خان پھر پورے ملک میں ووٹر گنتی کا مطالبہ کریں گے؟ یا پھر مڈٹرم انتخابات کی طرف جائیں گے؟ اس سارے معاملے میں اگر پاکستان مخالف قوتیں فائدہ اٹھاتیں ہیں، جن میں اندرونی اور بیرونی بھی ہو سکتیں ہیں تو اس ملک کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ خان صاحب آپ غلط کہتے ہیں اور بولتے ہیں یا پھر آپ کے مطالبات صحیح نہیں ہیں ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ ان مطالبوں کے لیے یہ وقت اور آپکا طریقہ کار ٹھیک نہیں ۔آپ کا وہ غریب ووٹر جس نے بہت سی اُمیدوں کو سجائے آپکو ووٹ دیا تھاکیا آپ نے اس کے حقوق کے لیے کوئی آواز اٹھائی۔ کیا اس کے مسائل کے حل کے لیے کوئی احتجاج اور دھرنا کیا۔اور وہ نوجوان نسل جس کے بل بوتے پر آج آپ ایک صوبے پر برسرِ اقتدار ہیں اُن کی بے روز گاری کو ختم کرنے کے لیے کچھ کام کیا۔
جناب اگر ایک غریب اور عام آدمی کے مسائل اگر احتجاج اور دھرنے سے ہی حل ہونے ہوتے تو اس کا آپ کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ وہ یہ سارے کام تو خود بھی کر سکتا تھا۔ خان صاحب خدارااپنے ووٹرز اور قوم کی امیدوں پر پانی مت پھیریں۔ اس جمہوری نظام کو چلنے دیں ۔اس ملک میں ریاستی ادارے کام کررہے ہیں آپ اپنے مسائل کو ان کے سامنے رکھیں۔ آپ اگر واقعی اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اِس جدوجہد میں مصروف عمل ہوجائیے کہ آخر اِس پریشان حال عوام کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے۔ قدرت نے آپکو ایک صوبے پر حکمرانی کا شرف بخشا ہے بس اب اِس صوبے کو باقی صوبوں کے لیے مثال بنائیں اور پھر آپکو کامیابی ایسے ہی نصیب ہو گی جیسے بھارت میں گجرات کے سابق وزیراعلی نریندر مودی کو حالیہ الیکشن میں ہوئی ہے ۔ اُس نے بھی اپنے صوبے کی عوام کی خدمت اور ترقی کی مثالیں قائم کی ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لوگ یہاں پر سیاست نہیں بلکہ اداکاری اور تماشہ کرتے ہیں ۔ کچھ اسمبلیوں میںتو کچھ ٹیلی ویژن پراور کچھ گلی کوچوں میں کرتے ہیں اور اس ملک میں سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ سیاست کی فیکٹریاں ہیں۔ یہاں پر لوگ جمہوری نظام کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنی ذات، خاندان اور سیاسی جماعت میں غیر جمہوری طریقہ کار کو تر جیح دیتے ہیں۔
اگر موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورتحال1977ء جیسی بنتی جا رہی ہے جہاں تحریک تو دھاندلی کے خلاف ہوئی تھی لیکن جمہوریت مخالف قوتوں نے اُس کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے جمہوریت کی ٹرین کو 11 سال پٹری سے اتاردیا۔ اور اب ایک بار پھر جمہوریت کی کشتی مہنگائی ، لودشیڈنگ اور دھاندلی کے طوفان میںپھنس گئی ہے ۔ جس سے باہر نکلنا بظاہر مشکل لگ رہا ہے اور اگر خدانخواستہ اِس بار بھی جمہوری نظام کو دھچکا پہنچتا ہے تو اِس میں غیروں کی غلطیاں کم ہوں گی اور اپنوں کی زیادہ۔ میری تو ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر حکومت عمران خان کی جانب سے لگائے گئے کے دھاندلی کے الزامات کو سنجیدگی سے لے لیا ہوتا توگلی ، کوچوں اور محلوں میں ہونے والے احتجاج کو روکا جاسکتا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ میں اِس کشمکش کا بھی شکار ہوں کہ اگر اُن چار حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے جس کا عمران خان شش و مد سے مطالبہ کررہے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیا عمران خان پھر پورے ملک میں ووٹر گنتی کا مطالبہ کریں گے؟ یا پھر مڈٹرم انتخابات کی طرف جائیں گے؟ اس سارے معاملے میں اگر پاکستان مخالف قوتیں فائدہ اٹھاتیں ہیں، جن میں اندرونی اور بیرونی بھی ہو سکتیں ہیں تو اس ملک کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ خان صاحب آپ غلط کہتے ہیں اور بولتے ہیں یا پھر آپ کے مطالبات صحیح نہیں ہیں ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ ان مطالبوں کے لیے یہ وقت اور آپکا طریقہ کار ٹھیک نہیں ۔آپ کا وہ غریب ووٹر جس نے بہت سی اُمیدوں کو سجائے آپکو ووٹ دیا تھاکیا آپ نے اس کے حقوق کے لیے کوئی آواز اٹھائی۔ کیا اس کے مسائل کے حل کے لیے کوئی احتجاج اور دھرنا کیا۔اور وہ نوجوان نسل جس کے بل بوتے پر آج آپ ایک صوبے پر برسرِ اقتدار ہیں اُن کی بے روز گاری کو ختم کرنے کے لیے کچھ کام کیا۔
جناب اگر ایک غریب اور عام آدمی کے مسائل اگر احتجاج اور دھرنے سے ہی حل ہونے ہوتے تو اس کا آپ کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ وہ یہ سارے کام تو خود بھی کر سکتا تھا۔ خان صاحب خدارااپنے ووٹرز اور قوم کی امیدوں پر پانی مت پھیریں۔ اس جمہوری نظام کو چلنے دیں ۔اس ملک میں ریاستی ادارے کام کررہے ہیں آپ اپنے مسائل کو ان کے سامنے رکھیں۔ آپ اگر واقعی اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اِس جدوجہد میں مصروف عمل ہوجائیے کہ آخر اِس پریشان حال عوام کے مسائل کو کس طرح حل کیا جائے۔ قدرت نے آپکو ایک صوبے پر حکمرانی کا شرف بخشا ہے بس اب اِس صوبے کو باقی صوبوں کے لیے مثال بنائیں اور پھر آپکو کامیابی ایسے ہی نصیب ہو گی جیسے بھارت میں گجرات کے سابق وزیراعلی نریندر مودی کو حالیہ الیکشن میں ہوئی ہے ۔ اُس نے بھی اپنے صوبے کی عوام کی خدمت اور ترقی کی مثالیں قائم کی ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔