قرضے 818 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا تخمینہ
سودی ادائیگیاں8.63 ہزار ارب،بیرونی فنانسنگ کا تخمینہ کم کرکے 1.2 ہزار ارب روپے کردیا
آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے رواں مالی سال کے اختتام تک 81.8 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ جائیں گے، جبکہ بجٹ خسارہ اور سودی ادائیگیاں بھی بجٹ تخمینوں سے بڑھ جائیں گی۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بجٹ کے غیر حقیقی اعداد وشمار کی وجہ سے آئی ایم ایف نے نیا جائزہ جاری کیا ہے، یہ جائزہ حالیہ مذاکرات کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ ڈسکس کیا گیا ہے، جس کے مطابق وفاقی حکومت کا بجٹ 15.4 ہزار ارب روپے ہوگا، جو کہ رواں مالی سال کے آغاز میں قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے بجٹ تخمینے سے 1.1 ہزار ارب روپے زیاد ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پبلک قرضوں اور گارنٹیوں کے 81.8 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے، جو کہ جی ڈی پی کا 77.3 فیصد بنتا ہے، جبکہ بجٹ خسارہ جو پہلے 6.9 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، اب اس کا تخمینہ8.2 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے، جو کہ گزشتہ تخمینے سے 1.3 ہزار ارب روپے زیادہ ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تخمینوں میں ردوبدل کی بنیادی وجہ آمدن، اخراجات اور سودی ادائیگیوں کے غیر حقیقی اعداد و شمار ہیں، آئی ایم ایف نے سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 8.63 ہزار ارب روپے لگایا ہے، جو کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ اندازوں سے برائے نام زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے حجم میں سالانہ بنیادوں پر7.7 فیصد کا اضافہ
یاد رہے کہ دو ماہ قبل ایکسپریس ٹریبیون نے یہ رپورٹ کیا تھا کہ سودی ادائیگیاں بجٹ تخمینوں سے 1 ہزار ارب روپے بڑھ گئی ہیں، جبکہ حکومت کو 4.5 ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ کا بھی سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق بجٹ میں وزارت خزانہ نے سودی ادائیگیوں کا تخمینہ7.3 ہزار ارب روپے لگایا تھا، لیکن حالیہ مذاکرات کے دوران یہ تخمینہ 8.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے، جو کہ آئی ایم ایف کے نئے تخمینے سے اب بھی 140 ارب روپے کم ہے۔
آئی ایم ایف نے ڈومیسٹک قرضوں پر سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 7.5 ہزار ارب روپے لگایا ہے، جو کہ بجٹ تخمینے سے 1.1 ہزار ارب روپے زیادہ ہے جبکہ بیرونی قرضوں پر سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 1.02 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ بجٹ تخمینے سے 150 ارب روپے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 1675 ارب روپے کی نمایاں کمی
بے تحاشا اخراجات کے علاوہ قرضوں اور سودی ادائیگیوں میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ مرکزی بینک کی وجہ سے بلند پالیسی ریٹ ہے، جو اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر 22 فیصد ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کا تخمینہ 2.7 ہزار ارب روپے سے کم کرکے 1.2 ہزار ارب روپے کردیا ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت کی جانب سے تجارتی بینکوں سے قرضوں کے حصول میں مزید اضافہ ہوگا، آئی ایم ایف نے ڈومیسٹک فنانسنگ 6.9 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جو کہ اس سے قبل 4.8 ہزار ارب روپے لگایا گیا تھا۔
آئی ایم ایف نے اخراجات 14.6 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جو کہ بجٹ تخمینے سے 1.24 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، لیکن ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 782 ارب روپے رہے گا جو کہ بجٹ تخمینے کے مقابلے میں 168 ارب روپے کم ہے، نتیجتا بجٹ کا سائز 15.4 ہزار ارب روپے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
آئی ایم ایف نے مجموعی بنیادی توازن کو کسی تبدیلی کے بغیر جی ڈی پی کے 0.4 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بجٹ کے غیر حقیقی اعداد وشمار کی وجہ سے آئی ایم ایف نے نیا جائزہ جاری کیا ہے، یہ جائزہ حالیہ مذاکرات کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ ڈسکس کیا گیا ہے، جس کے مطابق وفاقی حکومت کا بجٹ 15.4 ہزار ارب روپے ہوگا، جو کہ رواں مالی سال کے آغاز میں قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے بجٹ تخمینے سے 1.1 ہزار ارب روپے زیاد ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پبلک قرضوں اور گارنٹیوں کے 81.8 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے، جو کہ جی ڈی پی کا 77.3 فیصد بنتا ہے، جبکہ بجٹ خسارہ جو پہلے 6.9 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، اب اس کا تخمینہ8.2 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے، جو کہ گزشتہ تخمینے سے 1.3 ہزار ارب روپے زیادہ ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تخمینوں میں ردوبدل کی بنیادی وجہ آمدن، اخراجات اور سودی ادائیگیوں کے غیر حقیقی اعداد و شمار ہیں، آئی ایم ایف نے سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 8.63 ہزار ارب روپے لگایا ہے، جو کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ اندازوں سے برائے نام زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے حجم میں سالانہ بنیادوں پر7.7 فیصد کا اضافہ
یاد رہے کہ دو ماہ قبل ایکسپریس ٹریبیون نے یہ رپورٹ کیا تھا کہ سودی ادائیگیاں بجٹ تخمینوں سے 1 ہزار ارب روپے بڑھ گئی ہیں، جبکہ حکومت کو 4.5 ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ کا بھی سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق بجٹ میں وزارت خزانہ نے سودی ادائیگیوں کا تخمینہ7.3 ہزار ارب روپے لگایا تھا، لیکن حالیہ مذاکرات کے دوران یہ تخمینہ 8.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے، جو کہ آئی ایم ایف کے نئے تخمینے سے اب بھی 140 ارب روپے کم ہے۔
آئی ایم ایف نے ڈومیسٹک قرضوں پر سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 7.5 ہزار ارب روپے لگایا ہے، جو کہ بجٹ تخمینے سے 1.1 ہزار ارب روپے زیادہ ہے جبکہ بیرونی قرضوں پر سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 1.02 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ بجٹ تخمینے سے 150 ارب روپے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 1675 ارب روپے کی نمایاں کمی
بے تحاشا اخراجات کے علاوہ قرضوں اور سودی ادائیگیوں میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ مرکزی بینک کی وجہ سے بلند پالیسی ریٹ ہے، جو اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر 22 فیصد ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کا تخمینہ 2.7 ہزار ارب روپے سے کم کرکے 1.2 ہزار ارب روپے کردیا ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت کی جانب سے تجارتی بینکوں سے قرضوں کے حصول میں مزید اضافہ ہوگا، آئی ایم ایف نے ڈومیسٹک فنانسنگ 6.9 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جو کہ اس سے قبل 4.8 ہزار ارب روپے لگایا گیا تھا۔
آئی ایم ایف نے اخراجات 14.6 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جو کہ بجٹ تخمینے سے 1.24 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں، لیکن ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 782 ارب روپے رہے گا جو کہ بجٹ تخمینے کے مقابلے میں 168 ارب روپے کم ہے، نتیجتا بجٹ کا سائز 15.4 ہزار ارب روپے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
آئی ایم ایف نے مجموعی بنیادی توازن کو کسی تبدیلی کے بغیر جی ڈی پی کے 0.4 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔