خدارا ہمیں اپنا مستقبل سنوارنے کیلیے بچوں کو تحفظ دینا ہوگا ایکسپریس فورم

پنجاب میں بچوں کیلیے بہترین قانون سازی ہوئی، سیکریٹری انسانی حقوق ڈاکٹرشعیب


بچوں سے متعلق پالیسی میں ان کی رائے شامل کی جائے،حسن علی۔ فوٹو: ایکسپریس

ماحولیاتی تبدیلی اور معاشی و معاشرتی مسائل سے بچے زیادہ متاثر ہورہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں 'چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ' ہے اور نہ ہی ' کلائمیٹ ایکشن پلان '، اب اسموگ بچوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے، خدارا ! ہمیں اپنا مستقبل سنوارنے کیلیے بچوں کو تحفظ دینا ہوگا۔

پنجاب میں گزشتہ 10 برس میں بچوں کی جبری مشقت، چائلڈ لیبر، بھٹہ مزدوری، گھریلو ملازمت، جنسی تشدد سمیت بیشتر مسائل کے حل کیلیے اچھی قانون سازی کی گئی تاہم بعض قوانین کے تاحال رولز آف بزنس نہیں بن سکے، قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم یقینی بنایا جائے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن بنایا گیا، پنجاب چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو آئندہ دو برس میں ہر ضلع میں قائم کر دیا جائیگا، بچوں سے متعلق قانون بنانے اور پالیسی سازی میں ان کی رائے کو لازمی شامل کیا جائے، گھر کی سطح سے ہی بچوں کو اظہار رائے کا حق دینے سے ان میں اعتماد پیدا ہوگا اور ملک کا مستقبل روشن ہوگا، چائلڈ لیبر کے ذریعے بچوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں، اس کی حوصلہ شکنی کریں اور بچوں کا مستقبل بہتر بنائیں۔ ان خیالات کا اظہار شرکاء نے '' بچوں کے عالمی دن '' کے حوالے سے منعقدہ '' ایکسپریس فورم '' میں کیا۔

سیکرٹری برائے انسانی حقوق پنجاب ڈاکٹر شعیب اکبر نے کہا کہ بچے سٹیک ہولڈر نہیں ' رائٹس ہولڈر' ہیں وہ اپنے حقوق رکھتے ہیں جن کا تحفظ یقینی بنانا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے، انسانی حقوق میں سب سے اہم بچوں کے حقوق ہیں وہ انسان بھی ہیں اور انھوں نے معاشرے کا کارآمد شہری بننا ہے لہٰذا بچوں کیلیے خصوصی حقوق اور اقدامات ضروری ہیں، پنجاب میں گزشتہ 10 برس میں بچوں کے حوالے سے بہترین قانون سازی ہوئی، بجٹ بھی خرچ کیا گیا جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو صرف صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں تھا، 2 برس میں یہ ہر ضلع میں ہوگا۔

نمائندہ سول سوسائٹی افتخار مبارک نے کہا کہ رواں برس بچوں کے عالمی دن کا موضوع ' ہر بچے کیلیے ہر حق ' ہے، پاکستان میں گزشتہ 12 برس میں وفاقی و صوبائی سطح پر اچھی قانون سازی ہوئی، پنجاب میں بھی قانون سازی تو ہوگئی لیکن رولز نہیں بن سکے، اگر قوانین پر رولز بنا کر عملدرآمد کیا جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوگا اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔

نمائندہ سول سوسائٹی راشدہ قریشی نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہمارا مستقبل 'بچے' شدید متاثر ہورہے ہیں، وقت ہے کہ ہمیں کلائمیٹ ایکشن کی طرف جانا چاہیے، ملک ماحولیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے، اب سموگ شہریوں کی جان کیلیے خطرہ بن چکی ہے مگر ملک میں کلائیمیٹ ایکشن پالیسی موجود ہی نہیں، ریاست کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔

بچوں کے نمائندہ سید حسن علی شاہ نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے چارٹر کا آرٹیکل 12 بچوں کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے، اگر بچوں سے متعلق معاملات میں ان کی رائے لی جائے تو بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوگی جو ان کے مستقبل کیلیے بہترین ہے، حکومتی سطح پر بھی بچوں سے متعلق پالیسی یا قانون سازی میں ان کی رائے کو لازمی شامل کیا جائے۔

بچوں کی نمائندہ عبیہہ بتول نے کہا کہ بچوں کے حوالے سے موجود قانون سازی کو مزید بہتر کیا جائے اور عملدرآمد یقینی بنا کر بچوں کو دلدل سے نکالا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔