مزاحمت اور سیاست
کیاسیاسی اورمعاشی ابتری کے اس ہیجان خیزی میں اقتداری سیاسی جماعتیں ’’عوامی مزاحمت‘‘ کے سیاسی شعورکوآگے بڑھاسکیں گی؟
عوام اور خاص طور پر عوامی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے ذہن میں پاکستان کی سیاست اور سیاسی حکومتوں کی تشکیل کے بعد یہ سوال مسلسل گردش کرتا رہتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی سیاسی حکومتیں آخرکار عوام کے سیاسی، معاشی، سماجی اور آئینی حقوق دینے یا ان کا دفاع کرنے میں کیوں ناکام رہتی چلی آرہی ہیں اور وہ کیا وجہ ہے کہ عوام تک جمہوریت کے ثمرات نہ پہنچنے پر بھی عوام کے اندر اپنے حقوق لینے کے لیے مزاحمت کا رویہ یا تو ختم ہوچکا ہے، ختم کیا جا رہا ہے یا عوامی مزاحمت میں وہ سیاسی قوت اور عوامی یکسوئی نہیں رہی، جس کے نتیجے میں حکومتیں مجبور ہو کر عوام کے غم و غصہ کی قدر کرتے ہوئے اور انھیں حقیقی جمہوری آواز مانتے ہوئے ان کے بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔
پاکستان کے عوامی حقوق سے محروم ملک میں یہ سوال جہاں سیاسی جماعتوں کی پریشانی کا سبب ہے وہیں عوامی مزاحمت کے یکسو نہ ہونے یا حکومتی زیادتیوں پر مزاحمت سے بے پرواہ ہونے کا سوال پورے سماج کے ''سیاسی اور سماجی فیبرکس'' کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ عوام کی سیاسی مزاحمت جمہوریت اور حکومت کی جہاں اصلاح اور توجہ دلانے کا سبب ہوتی ہے وہیں سیاسی مزاحمت سے زندہ اور سوچنے والے سماج کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
سیاسی ہلچل سے جہاں عوام کی سیاسی تربیت ہوتی ہے، وہیں مزاحمت کے نتیجے میں سماج میں سیاسی اور معاشی بحث و مباحث کے دریچے وا ہوتے ہیں جو سماج اور افراد میں برداشت اور اختلاف کے شائستہ رویوں کو جنم دے کر ایک تندرست اور باشعور سماج کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے پسماندہ اور تعلیمی نا خواندہ معاشرے میں اقتداری قوتوں کی جانب سے ہمیشہ '' عوامی مزاحمت'' کو ''ملکی سلامتی کے خلاف غداری'' بتا کر ناخواندہ عوام میں جہاں ''خوف'' اور '' اقتداری طاقت'' سے ٹکرانے کے عمل کو غلط رنگ دیا جاتا ہے، وہیں اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کو چند عناصر کی خود سری سے تعبیرکر کے دراصل عوام سے ان کے جمہوری حقوق چھیننے کا وہ جرم کیا جا رہا ہوتا ہے، جس کا شکار عمومی طور سے '' امن'' کے نام پر ہمارے ملک کا دانشور، میڈیا اور غیر تربیت یافتہ سیاسی جماعتیں ہوجاتی ہیں، جس کا لازمی نتیجہ اقتدار کے ایوانوں کے '' طاقتور عناصر'' کو پہنچتا ہے اور وہ ملکی سلامتی اور امن و امان کے نام پر عوامی حقوق کی مزاحمت کو دبانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سماج میں سیاسی لاتعلقی کی بنیاد دراصل عوام کی معاشی آزادی کے چھن جانے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے،جس کو پاکستان کے موجودہ سماج میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے، اپنے تجزیوں میں عوام کے معاشی محرومی کے نالے اور جمہوری آزادی نہ دینے کے شکوے مسلسل دیکھے اور لکھے جا رہے ہیں ، لیکن کیا عوام کے دکھ درد کو الفاظ کے پیراہن پہنا کر ہمارے سیاسی اور معاشی تجزیہ کار یا اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتیں عوام کو ان کے ''سیاسی، جمہوری اور معاشی ''حقوق دلوا پائی ہیں؟
عوام کو سیاسی اور معاشی محرومیوں میں مبتلا رکھنے کی کوششوں کے مختصر جائزے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عوامی جمہوری مزاحمت کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پاکستان میں اوائل ہی سے پہلی کوشش '' سیاسی مزاحمت '' کو ملک کی تعمیر نو کے سلسلے میں روکنے سے شروع کی گئی، جس میں '' ریاستی راز'' کے بہانے جناح کے مرض کو عوام سے محض اس واسطے چھپایا کہ کہیں عوامی مزاحمت یا عوام میں بے چینی کی لہر پیدا نہ ہوجائے اور ملک کی تعمیر نو میں رکاوٹ نہ پیدا ہوجائے۔
یہ امور مملکت میں عوامی عدم شرکت کا وہ فارمولا تھا، جس کی ظاہر میں کوئی حیثیت دکھائی نہیں دیتی، مگر عوام کا امور ریاست سے باخبر ہونے سے روکنے کا '' اقتداری طاقت'' کی جانب سے یہ وہ حربہ یا جواز تھا، جس کے نتیجے میں امور مملکت سے عوام کو دور رکھنے کی76 سالہ تاریخ آج عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کو بے رحمی سے دبائے ہوئے ہے اور ہمارے ایوان میں جانے والی سیاسی جماعتیں بھی عوام کے سامنے ریاستی امور کے اصل حقائق سے عوام کو محروم رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہوکر '' ریاستی اقتدار'' کے مزے لوٹ رہی ہیں اور نیرو کی بانسری کے اقتداری سروں میں مست و مگن ہیں۔
عوام کے سیاسی مزاحمت کے سیاسی طریقہ کار کے ذریعے حکومت کو عوامی رائے سے آگاہ رکھنے کے شعور کو50اور60کی دہائیوں میں بلاشبہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ فکر کی سیاسی جماعتوں نے شاندار سیاسی فروغ دیا اور ریاست کو عوام کے جمہوری اور سیاسی حقوق دلوانے کے لیے عوامی مزاحمت کی پالیسی اپنائی تو ریاست نے1953میں سوشلسٹ فکر کے طلبا کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنس فیڈریشن کے میڈیکل حقوق کے سلسلے میں مزاحمتی تحریک کے آگے پسپائی دکھائی اور میڈیکل کے طلبا کو ان کے تعلیمی حقوق دیے۔
اسی طرح سوشلسٹ فکر کے مزدوروں کی مزاحمتی تحریکوں نے ریاست کو مجبورکیا کہ وہ صنعتی ماحول میں مزدور حقوق کو تسلیم کرکے مزدوروں کے منتخب نمایندوں کو صنعتی امور میں شریک کریں تو مزدور مزاحمت اپنے حقوق لینے میں کامیاب دکھائی دی، یہی نہیں بلکہ جب ملک میں پہلا غیر سیاسی اور غیر قانونی اقتدار منتخب نمایندوں کے بجائے جنرل ایوب کے مارشل لا کے سپردکیا گیا، توکمیونسٹ فکر اور سوشلسٹ سیاسی تربیت نے عوام میں سیاسی شعورکے ذریعے غیر قانونی مارشل لا کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور جنرل ایوب کے غیر قانونی '' ون یونٹ'' کے خلاف عوام کو متحرک کیا اور جنرل ایوب کو سیاسی مزاحمت کے نتیجے میں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ '' ون یونٹ'' کے غیر قانونی اقدام کو واپس لے اور جنرل ایوب کو عوام کی سیاسی مزاحمت کے نتیجے میں یہ قدم واپس لینا پڑا۔
بات یہاں پر آکر ختم نہیں ہوئی بلکہ جنرل ایوب کی منشا پر لیاقت علی خان کے سیٹو اور سینٹو کے خلاف بھی عوامی مزاحمتی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا، یہ وہ وقت تھا جب کمیونسٹ فکر سیاسی جماعتوں نے صحافتی تنظیموں سے لے کر محکوم طبقات کی تمام تر تنظیموں میں عوام کی سیاسی شرکت اور جڑت کو یقینی بنایا، جس کے نتیجے میں جنرل ایوب کے صحافتی اور شہری آزادی کے پریس و پبلیکیشن کے سیاہ قانون کے خلاف صحافتی مزاحمت کے ساتھ عوام کا ساتھ رہا اور صحافتی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا۔
معاشی میدان میں سوشلسٹ جماعتوں اور طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی جنرل ایوب کے خلاف چینی کی قیمت میں اضافے یا بسوں کے کرایہ بڑھانے پر عوام کی شرکت سے بھرپور عوامی مزاحمت کی گئی اور جنرل ایوب کو اپنا یہ قدم واپس لینا پڑا۔ اب تک طلبہ کی تنظیموں کو سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود کیوں بحال نہیں کیا جا رہا۔
کیا سیاسی جماعتیں 9 مئی ایسے سیاسی انتشار پیدا کرکے بادی النظر میں ''طاقتور اشرافیہ '' کے ہاتھ مضبوط کر کے عوام کو حکومتی امور میں شرکت سے دور تو نہیں کر رہیں یا اقتداری ضرورت میں عوامی مزاحمت سے کنارہ کر کے مناسب وقت پر '' طاقتور اقتداری کلب '' کے ممبر کے طور اپنی باری کا انتظار تو نہیں کر رہی ہیں۔ کیا سیاسی اور معاشی ابتری کے اس ہیجان خیزی میں اقتداری سیاسی جماعتیں '' عوامی مزاحمت '' کے سیاسی شعور کو آگے بڑھا سکیں گی ؟
پاکستان کے عوامی حقوق سے محروم ملک میں یہ سوال جہاں سیاسی جماعتوں کی پریشانی کا سبب ہے وہیں عوامی مزاحمت کے یکسو نہ ہونے یا حکومتی زیادتیوں پر مزاحمت سے بے پرواہ ہونے کا سوال پورے سماج کے ''سیاسی اور سماجی فیبرکس'' کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ عوام کی سیاسی مزاحمت جمہوریت اور حکومت کی جہاں اصلاح اور توجہ دلانے کا سبب ہوتی ہے وہیں سیاسی مزاحمت سے زندہ اور سوچنے والے سماج کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
سیاسی ہلچل سے جہاں عوام کی سیاسی تربیت ہوتی ہے، وہیں مزاحمت کے نتیجے میں سماج میں سیاسی اور معاشی بحث و مباحث کے دریچے وا ہوتے ہیں جو سماج اور افراد میں برداشت اور اختلاف کے شائستہ رویوں کو جنم دے کر ایک تندرست اور باشعور سماج کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے پسماندہ اور تعلیمی نا خواندہ معاشرے میں اقتداری قوتوں کی جانب سے ہمیشہ '' عوامی مزاحمت'' کو ''ملکی سلامتی کے خلاف غداری'' بتا کر ناخواندہ عوام میں جہاں ''خوف'' اور '' اقتداری طاقت'' سے ٹکرانے کے عمل کو غلط رنگ دیا جاتا ہے، وہیں اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کو چند عناصر کی خود سری سے تعبیرکر کے دراصل عوام سے ان کے جمہوری حقوق چھیننے کا وہ جرم کیا جا رہا ہوتا ہے، جس کا شکار عمومی طور سے '' امن'' کے نام پر ہمارے ملک کا دانشور، میڈیا اور غیر تربیت یافتہ سیاسی جماعتیں ہوجاتی ہیں، جس کا لازمی نتیجہ اقتدار کے ایوانوں کے '' طاقتور عناصر'' کو پہنچتا ہے اور وہ ملکی سلامتی اور امن و امان کے نام پر عوامی حقوق کی مزاحمت کو دبانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سماج میں سیاسی لاتعلقی کی بنیاد دراصل عوام کی معاشی آزادی کے چھن جانے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے،جس کو پاکستان کے موجودہ سماج میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے، اپنے تجزیوں میں عوام کے معاشی محرومی کے نالے اور جمہوری آزادی نہ دینے کے شکوے مسلسل دیکھے اور لکھے جا رہے ہیں ، لیکن کیا عوام کے دکھ درد کو الفاظ کے پیراہن پہنا کر ہمارے سیاسی اور معاشی تجزیہ کار یا اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتیں عوام کو ان کے ''سیاسی، جمہوری اور معاشی ''حقوق دلوا پائی ہیں؟
عوام کو سیاسی اور معاشی محرومیوں میں مبتلا رکھنے کی کوششوں کے مختصر جائزے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عوامی جمہوری مزاحمت کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پاکستان میں اوائل ہی سے پہلی کوشش '' سیاسی مزاحمت '' کو ملک کی تعمیر نو کے سلسلے میں روکنے سے شروع کی گئی، جس میں '' ریاستی راز'' کے بہانے جناح کے مرض کو عوام سے محض اس واسطے چھپایا کہ کہیں عوامی مزاحمت یا عوام میں بے چینی کی لہر پیدا نہ ہوجائے اور ملک کی تعمیر نو میں رکاوٹ نہ پیدا ہوجائے۔
یہ امور مملکت میں عوامی عدم شرکت کا وہ فارمولا تھا، جس کی ظاہر میں کوئی حیثیت دکھائی نہیں دیتی، مگر عوام کا امور ریاست سے باخبر ہونے سے روکنے کا '' اقتداری طاقت'' کی جانب سے یہ وہ حربہ یا جواز تھا، جس کے نتیجے میں امور مملکت سے عوام کو دور رکھنے کی76 سالہ تاریخ آج عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کو بے رحمی سے دبائے ہوئے ہے اور ہمارے ایوان میں جانے والی سیاسی جماعتیں بھی عوام کے سامنے ریاستی امور کے اصل حقائق سے عوام کو محروم رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہوکر '' ریاستی اقتدار'' کے مزے لوٹ رہی ہیں اور نیرو کی بانسری کے اقتداری سروں میں مست و مگن ہیں۔
عوام کے سیاسی مزاحمت کے سیاسی طریقہ کار کے ذریعے حکومت کو عوامی رائے سے آگاہ رکھنے کے شعور کو50اور60کی دہائیوں میں بلاشبہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ فکر کی سیاسی جماعتوں نے شاندار سیاسی فروغ دیا اور ریاست کو عوام کے جمہوری اور سیاسی حقوق دلوانے کے لیے عوامی مزاحمت کی پالیسی اپنائی تو ریاست نے1953میں سوشلسٹ فکر کے طلبا کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنس فیڈریشن کے میڈیکل حقوق کے سلسلے میں مزاحمتی تحریک کے آگے پسپائی دکھائی اور میڈیکل کے طلبا کو ان کے تعلیمی حقوق دیے۔
اسی طرح سوشلسٹ فکر کے مزدوروں کی مزاحمتی تحریکوں نے ریاست کو مجبورکیا کہ وہ صنعتی ماحول میں مزدور حقوق کو تسلیم کرکے مزدوروں کے منتخب نمایندوں کو صنعتی امور میں شریک کریں تو مزدور مزاحمت اپنے حقوق لینے میں کامیاب دکھائی دی، یہی نہیں بلکہ جب ملک میں پہلا غیر سیاسی اور غیر قانونی اقتدار منتخب نمایندوں کے بجائے جنرل ایوب کے مارشل لا کے سپردکیا گیا، توکمیونسٹ فکر اور سوشلسٹ سیاسی تربیت نے عوام میں سیاسی شعورکے ذریعے غیر قانونی مارشل لا کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور جنرل ایوب کے غیر قانونی '' ون یونٹ'' کے خلاف عوام کو متحرک کیا اور جنرل ایوب کو سیاسی مزاحمت کے نتیجے میں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ '' ون یونٹ'' کے غیر قانونی اقدام کو واپس لے اور جنرل ایوب کو عوام کی سیاسی مزاحمت کے نتیجے میں یہ قدم واپس لینا پڑا۔
بات یہاں پر آکر ختم نہیں ہوئی بلکہ جنرل ایوب کی منشا پر لیاقت علی خان کے سیٹو اور سینٹو کے خلاف بھی عوامی مزاحمتی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا، یہ وہ وقت تھا جب کمیونسٹ فکر سیاسی جماعتوں نے صحافتی تنظیموں سے لے کر محکوم طبقات کی تمام تر تنظیموں میں عوام کی سیاسی شرکت اور جڑت کو یقینی بنایا، جس کے نتیجے میں جنرل ایوب کے صحافتی اور شہری آزادی کے پریس و پبلیکیشن کے سیاہ قانون کے خلاف صحافتی مزاحمت کے ساتھ عوام کا ساتھ رہا اور صحافتی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا۔
معاشی میدان میں سوشلسٹ جماعتوں اور طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی جنرل ایوب کے خلاف چینی کی قیمت میں اضافے یا بسوں کے کرایہ بڑھانے پر عوام کی شرکت سے بھرپور عوامی مزاحمت کی گئی اور جنرل ایوب کو اپنا یہ قدم واپس لینا پڑا۔ اب تک طلبہ کی تنظیموں کو سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود کیوں بحال نہیں کیا جا رہا۔
کیا سیاسی جماعتیں 9 مئی ایسے سیاسی انتشار پیدا کرکے بادی النظر میں ''طاقتور اشرافیہ '' کے ہاتھ مضبوط کر کے عوام کو حکومتی امور میں شرکت سے دور تو نہیں کر رہیں یا اقتداری ضرورت میں عوامی مزاحمت سے کنارہ کر کے مناسب وقت پر '' طاقتور اقتداری کلب '' کے ممبر کے طور اپنی باری کا انتظار تو نہیں کر رہی ہیں۔ کیا سیاسی اور معاشی ابتری کے اس ہیجان خیزی میں اقتداری سیاسی جماعتیں '' عوامی مزاحمت '' کے سیاسی شعور کو آگے بڑھا سکیں گی ؟