کینیڈا کا انسان دوست پاکستانی

کینیڈین حکومت نے بھی میجر عباس کی انسانی اور کمیونٹی خدمات کے اعتراف میں ان کی زندگی میں ہی بہت سے اعزازات سے نوازا

فوٹوفائل

اگر ہم دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگوں کی ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو انڈیا سے مدر ٹریسا، پاکستان سے عبدالستار ایدھی اور کینیڈا سے پاکستانی نژاد میجر محمد عباس علی کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔

ممکن ہے کہ ہماری نئی نسل ان کی شخصیت اور انسانیت کی بہتری کے لیے ان کی خدمات سے آگاہ نہیں ہوگی۔ انسانی خدمت کے عظیم ترکاز کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں سٹی آف ٹورانٹو نے اسکار بورو میں ایک پارک کو ان کے نام سے منسوب کر دیا۔ میجر عباس علی پارک کینیڈا میں ایشیائی بالخصوص پاکستانی نژاد کینیڈینز کے سب سے بڑے شہر کے رہنے والوں کو ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

آج میجر عباس اور حال ہی میں انتقال کرنے والے ان کی شریک حیات ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن دکھی انسانیت کی بے لوث خدمات کی جو مثال میجر عباس اور ان کی بیگم قائم کر گئے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی خواہش اور وصیت پر عملدرآمد کے لیے مسلم ویلفیئر سینٹر پاکستان میں بھی تعلیم کو عام کرنے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ میجر عباس علی کی پوری زندگی انسانی خدمت سے عبارت رہی، تاہم انھوں نے بعض ایسے شعبوں میں ناقابل فراموش کام انجام دیے جو رہتی دنیا تک ان کا نام روشن رکھیں گے۔

غیر ممالک بالخصوص یورپی ممالک میں جانے والے مسلمان ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ حلال گوشت اور حلال خوراک کا حصول کتنا دشوارکام ہوتا ہے۔ انھوں نے پہلے ہی مرحلے میں فوڈ بینک میل آن وہیل کا نہ صرف تصور پیش کیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ بے گھر یا ٹھکرائی ہوئی خواتین کے لیے شیلٹر ہومزکا قیام بھی ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

مفت ادویات کی بالخصوص ایسے افراد کو فراہمی جو اس سہولت کا استحقاق نہ رکھنے کے باعث انتہائی مشکلات میں مبتلا تھے اب مسلم ویلفیئر سینٹر سے حسب ضرورت ادویات اور علاج کی سہولت حاصل کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے غیر ممالک میں پینے کے پانی کی فراہمی اور قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پر امداد کو بھی تا دیر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

میجر عباس نے اپنی اہلیہ محترمہ سرور جہاں بیگم کی معاونت سے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے کر وہاں ''حلال فوڈ بینک'' کی بنیاد رکھی، جہاں ضرورت مندوں کو مفت خوراک مہیا کی جاتی تھی۔ 23 مارچ 1994کو انسانی خدمت کے لیے ادارہ مسلم ویلفیئر سینٹر کو رجسٹرڈ کرا لیا گیا۔ انسانی خدمت کے لیے سینٹر کا ابتدائی مرحلہ کامیابی سے ہم کنار ہوا تو ان کے جوش و خروش میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

میجر عباس دنیا بھر میں کئی چیری ٹیبل تنظیموں کی مدد کے لیے واک کے حوالے سے بہت شہرت رکھتے تھے۔ انھوں نے یونیسیف ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اسپورٹس ایڈ، انٹرنیشنل اسلامک ہاسپیٹلز سوسائٹی، کینیڈین آرتھرٹس سوسائٹی سوسائٹی فار دی ان بورن چلڈرن (یو کے)، چلڈرن اِن نیڈ پروگرام۔ بی بی سی( یو کے ) دی کینیڈین ایسوسی ایشن آف پاکستانی میڈیا، محبان پاکستان اور دیگر شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کسی جھجک کے بغیر اپنے ساتھیوں کو ٹورانٹو سے آٹوہ تک پیدل سفر کر کے فنڈ ریزنگ کی تجویز پیش کی، تاہم ابتدا میں تو لوگ یہ تجویز سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔


کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ70سال کی عمر میں میجر عباس اتنا طویل سفر پیدل طے کر سکتے ہیں، تاہم ان کا حوصلہ اور عزم صمیم دیکھ کر ساتھی بھی اس مشکل ہدف کے حصول پر تیار ہوگئے۔ اس طویل واک میں 36,000 ڈالر جمع ہوگئے۔ واک سے واپسی پر مسلم ویلفیئر سینٹر کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ کارکنان میں بھی اپنے معمر قائد کا عزم جواں دیکھ کر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوگیا۔

کارکنان نے لوگوں کی مدد کے لیے پرانے کپڑے جمع کیے اور انھیں دھونے اور استری کرنے کے بعد میجر عباس کی نگرانی میں ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے شروع کر دیے۔ فلاحی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تو ضرورت مندوں کی تعداد بھی روز بہ روز بڑھنے لگی۔ ضرورت مندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے1994میں فنڈ ریزنگ کی ایک اور تقریب منعقد کی گئی۔

تقریب میں ایک خدا ترس شخص نے جو کہ ان کی ٹیم کی شبانہ روز جدوجہد کو دیکھ رہے تھے ، ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا۔ اس موقع پر 121,000ڈالر جمع ہو گئے۔ میجر عباس علی کی سحر انگیز اور بے لوث شخصیت کی وجہ سے مسلم ویلفیر سینٹر کی انسانی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع ہوتا گیا۔ جلد ہی ریونیو کینیڈا نے اسے چیریٹی تنظیم تسلیم کر کے ٹیکس سے استثنیٰ کے تحت عطیات وصول کرنے کی اجازت دے دی۔

اس وقت بھی مسلم ویلفیئر سینٹر کی تمام شاخوں سے ضرورت مند خاندانوں کو حلال غذا فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ1996میں اونٹاریو کے شہر وٹھبی میں ضرورت مند بے سہارا عورتوں کے لیے 45 بستروں کا ایک شیلٹر بھی قائم کیا گیا۔ جہاں اب تک سیکڑوں تنہا عورتوں کو پناہ دی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ 1997 میں '' کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر '' قائم کیا گیا۔ پھر ان لوگوں کے لیے جن کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہوتا، ایک '' فری میڈیکل کلینک'' قائم کیا گیا۔ جہاں سے وہ ابتدائی طبی امداد حاصل کرسکیں۔

میجر عباس (1921-2009) 15 نومبر1921کو بمبئی میں پیدا ہوئے اور اپنی بیشتر ابتدائی تعلیم کلکتہ میں حاصل کی۔87 برس کی فعال عمر پائی، انھیں1943میں برٹش انڈین آرمی میں کمیشن ملا تھا اور دوسری جنگِ عظیم میں خدمات انجام دیں۔1986سے آخری دم تک 10,000 کلو میٹر سے زیادہ چیریٹی واکس کیں۔

مسلم ویلفیئر سینٹر کی فنڈ ریزنگ کے لیے میجر عباس نے اسکائی ڈائیو لگانے کا فیصلہ کیا اس وقت ان کی عمر75سال تھی۔ اس عمر میں یہ خطرناک کام جان لیوا بھی ہو سکتا تھا، مگر اس بہادر سابق فوجی کے دل میں انسانی خدمت کا جنون تھا۔ ان کی پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ بعد ازاں میجر عباس کی خواہشات اور جوش و جذبہ دیکھتے ہوئے انھیں پیرا جمپنگ کی اجازت دے دی گئی۔

اس طرح میجر عباس پیرا جمپنگ کے ذریعے بھی مستحق افراد کے لیے فنڈ ریزنگ کے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے اپنی موت کے بعد بھی انسانی خدمت کو جاری رکھنے کا جو عزم کیا تھا وہ نہ صرف مسلم ویلفیئر سینٹر کی صورت میں مستحق افراد کی ضروریات پوری کر کے تکمیل تک پہنچ رہا ہے بلکہ وہ بعد از مرگ اپنی آنکھیں کسی بینائی سے محروم شخص اور اعضاء میڈیکل سائنس کے اسٹوڈنٹس کو عطیہ کر گئے۔

تاہم کینیڈا بالخصوص اونٹاریو میں انسانی خدمت کی تاریخ میجر عباس اور ان کی ٹیم کی جانب سے مسلم ویلفیئر سینٹر کے پلیٹ فارم سے کی گئی انسانی خدمات کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ کینیڈین حکومت نے بھی میجر عباس کی انسانی اور کمیونٹی خدمات کے اعتراف میں ان کی زندگی میں ہی بہت سے اعزازات سے نوازا۔
Load Next Story