پاکستان تنزلی کا شکار
حکومت پاکستان یہ بات سوچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے کہ عوام کی زندگی کس کرب سے گزر رہی ہے
پاکستان کا ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے، جن اداروں کی کارکردگی شفاف ہونی چاہیے تھی وہاں بھی لوٹ مار، اقربا پروری، دروغ گوئی کو عروج حاصل ہے۔
انصاف اور تعلیم یہ دو ادارے ایسے ہیں جن میں ناانصافی اور جعل سازی کو فروغ حاصل ہے اور دوسرے محکموں کی طرح ان کی شفافیت داغ دار ہو چکی ہے، حکومتوں کی ناقص پالیسی اور دولت کے حصول نے صاحبان اختیارات کو اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کے لیے مجبورکردیا ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ جہاں سے اور جن لوگوں کے ذریعے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور دوسرے ذرایع سے بھی ذاتی تجوریوں کو بھرا جاتا ہے، ان سب سے بنا کر رکھنا پڑتا ہے، اگر ان کا ہی محاسبہ کرنے بیٹھ جائیں اور ان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بات بنتے بنتے بگڑنے کا امکان سو فیصد ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرتی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ بالائی سطح سے نچلی سطح تک ہر شخص بددیانتی، چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتا ہے، اپنی ان خوبیوں کے باعث اپنے بڑوں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتا ہے اور اسی انداز میں اس کی اپنی بھی بچت اور فائدہ ہے ایک طرف دونوں ہاتھوں سے روپے پیسے کا حصول یقینی ہو جاتا ہے، تو دوسری طرف غربا و مساکین پر دھونس جما کر ان کی ہلال کی کمائی کو بھی بڑی آسانی سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے، ان تمام برائیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ہماری پولیس کا کارنامہ ہے۔
کراچی میں کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے جب دو چار لوگوں کا قتل نہ ہو جائے، اغوا، تشدد، ڈاکا، چوری روز کا معمول بن چکا ہے، '' پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی'' یہ نعرہ بھی جھوٹا اور شرمناک ثابت ہوا ہے، شرفا کے بجائے ڈاکوؤں اور قاتلوں کی ہر طرح معاونت کی جاتی ہے، پولیس ڈپارٹمنٹ سالہا سال سے ایسی ہی مدد کر رہا ہے، کالی بھیڑوں کا کردار بھی سامنے آتا ہے چونکہ وہ ہر محکمے میں پائی جاتی ہیں، کبھی گرفتاریاں بھی سامنے آتی ہیں لیکن بے سود، ناانصافی کی فضا ایسے بدکردار لوگوں کے لیے ہموار رہتی ہے، گویا چوبیس گھنٹے کی سروس ان بد اعمالیوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔
کراچی کے مکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس کے ساتھ ہی بے شمار لوگ تعلیم سے بے بہرہ ہیں لیکن والدین کی تربیت سے آراستہ ہیں، یہ سب رزق حلال کماتے ہیں، انھی میں سے بہت سے مفلوک الحال نوجوان بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں اس کی وجہ غربت اور مہنگائی ہے، جس نے بہت سے برائیوں کو جنم دیا ہے۔
حکومت پاکستان یہ بات سوچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے کہ عوام کی زندگی کس کرب سے گزر رہی ہے، لوگ اپنے بیٹوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے انھیں بیرون ملک بھیج رہے ہیں چونکہ یہاں پر تو معمولی سی بات پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، ان دنوں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ جاری ہے، یہ جنگ بھی کیا ہے نہتے مسلمانوں پر حملہ ہے، اگر پاکستان کے حالات دیکھے جائیں تو بے شمار لوگ قتل ہو چکے ہیں، اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں جگہ جگہ یہاں بھی مورچے بنے ہوئے ہیں جو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر ان نوجوانوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں، ان کا قصور اتنا ہے کہ انھوں نے سگنل توڑ دیا، محض جلد بازی کے نتیجے میں، یا پھر راست بازی کا علم بلند کرنے کے جرم میں۔
معمولی، معمولی باتیں طاقتوروں کے لیے اشتعال کا باعث ہوتی ہیں اور یہ لوگ طاقت کے بل پر مار دیتے ہیں، یا مروا دیتے ہیں، یہ کہانی پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنے بیانیے کے ساتھ گشت کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی طاقت کے استعمال میں بعض جگہوں پر ظلم ہورہا ہے، اگر قانون دان، انصاف پسند ہوتے، سچائی کی روشنی میں فیصلے کرتے تو اس قدر بے اعتباری اور خوف پروان نہیں چڑھتا۔
اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ افسران کی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے، جس کی گھٹی میں شرافت و نیکی شامل ہوتی ہے، وہ انسانوں کی بقا کی بات کرتے ہیں، فنا کی نہیں، درسگاہیں طلبا کو ایک ایسے راستے کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں کامیابی اور خوشی یکجا ہوکر بغل گیر ہوتی ہے اور انسانی قدریں، تہذیب و تمدن پوری دنیا میں سورج کی طرح روشنی بکھیرتے ہیں، اچھے اور صالح اعمال کی خوشبو دور دور تک سفر کرتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح گھناؤنے اور ناپسندیدہ افعال کی بو دور تک جاتی ہے اور اتنا تعفن پھیلتا ہے کہ ممالک غیر کے لوگ بھی اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک دو روز پرانی خبر ہے جب معمول کے مطابق سامنے آئی کہ اربوں کا بجٹ لینے والے کراچی کے 88 سرکاری کالج غیر معیاری قرار دے دیے گئے۔ اس کی وجہ اساتذہ کی کمی، تجربہ گاہوں میں سائنسی آلات کا فقدان اور لائبریری کتابوں سے خالی سندھ کے سرکاری کالج اور تدریسی عملے کا یہ حال آج سے نہیں کئی عشروں سے ہے ایسے ہی کالجوں و اسکولوں کے داخلہ لینے والے طلبا اب ہتھیار لے کر گھوم رہے ہیں اور گھوسٹ اساتذہ تنخواہ تو وصول کرنے آ جاتے ہیں لیکن فرائض سے غافل، وصول کرنیوالے گھوسٹ اساتذہ اپنے کرپٹ ساتھیوں کو بھی ان کا حصہ دیتے ہیں اور پھر یہ رقم اوپر تک جاتی ہے۔
بددیانتی کے کاموں میں تعلیمی امور سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات انجام سے بے خبر ہو کر مستفید ہوتے ہیں، تمام اداروں کا یہی حال ہے ۔ طلبا سے تعلیم کا مضبوط اور خوبصورت ہتھیار چھین کر ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دیا گیا ہے، ادارے کے سربراہان اور سرپرست اعلیٰ کو سوچنے سمجھنے کی فرصت نہیں کہ یہ ملک کہاں جا رہا ہے؟ اپنے ملک کے وقار اور ملک کے نوجوانوں کی زندگیوں کو درندگی میں بدلنے والے دشمن ملک سے نہیں آئے ہیں، ان کے ہم وطن اور کلمہ گو ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان ان کے رفقا کار کی محنت، جدوجہد کو رائیگاں کر دیا گیا ہے۔
محض اس چیز کے لیے جو کبھی ساتھ نہیں دیتی ہے ہر روز دوسرے کی جیب کو گرم کر دیتی ہے اور یہی وہ چیز جس کا عذاب قبر تک ساتھ جاتا ہے۔ اللہ کا خوف اور اپنے اٹھائے ہوئے حلف کی اہمیت ہو تو یہ ظلم و زیادتی اور بے قصور لوگوں کا قتل روز و شب ہرگز نہ ہو۔ مایوس کن حالات کے تناظر میں فیض احمد فیض کی نظم کا ایک بند یاد آگیا ہے۔
اے روشنیوں کے شہر
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی، اٹھتی رہتی ہے
کہرکی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہرکے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر، اے روشنیوں کے شہر
اللہ کو حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہے اور ظلم کی ٹہنی ہمیشہ ہری نہیں رہتی ہے، خزاں کو ایک دن آنا ہی آنا ہے انشا اللہ۔
انصاف اور تعلیم یہ دو ادارے ایسے ہیں جن میں ناانصافی اور جعل سازی کو فروغ حاصل ہے اور دوسرے محکموں کی طرح ان کی شفافیت داغ دار ہو چکی ہے، حکومتوں کی ناقص پالیسی اور دولت کے حصول نے صاحبان اختیارات کو اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کے لیے مجبورکردیا ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ جہاں سے اور جن لوگوں کے ذریعے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور دوسرے ذرایع سے بھی ذاتی تجوریوں کو بھرا جاتا ہے، ان سب سے بنا کر رکھنا پڑتا ہے، اگر ان کا ہی محاسبہ کرنے بیٹھ جائیں اور ان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بات بنتے بنتے بگڑنے کا امکان سو فیصد ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرتی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ بالائی سطح سے نچلی سطح تک ہر شخص بددیانتی، چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتا ہے، اپنی ان خوبیوں کے باعث اپنے بڑوں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتا ہے اور اسی انداز میں اس کی اپنی بھی بچت اور فائدہ ہے ایک طرف دونوں ہاتھوں سے روپے پیسے کا حصول یقینی ہو جاتا ہے، تو دوسری طرف غربا و مساکین پر دھونس جما کر ان کی ہلال کی کمائی کو بھی بڑی آسانی سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے، ان تمام برائیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ہماری پولیس کا کارنامہ ہے۔
کراچی میں کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے جب دو چار لوگوں کا قتل نہ ہو جائے، اغوا، تشدد، ڈاکا، چوری روز کا معمول بن چکا ہے، '' پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی'' یہ نعرہ بھی جھوٹا اور شرمناک ثابت ہوا ہے، شرفا کے بجائے ڈاکوؤں اور قاتلوں کی ہر طرح معاونت کی جاتی ہے، پولیس ڈپارٹمنٹ سالہا سال سے ایسی ہی مدد کر رہا ہے، کالی بھیڑوں کا کردار بھی سامنے آتا ہے چونکہ وہ ہر محکمے میں پائی جاتی ہیں، کبھی گرفتاریاں بھی سامنے آتی ہیں لیکن بے سود، ناانصافی کی فضا ایسے بدکردار لوگوں کے لیے ہموار رہتی ہے، گویا چوبیس گھنٹے کی سروس ان بد اعمالیوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔
کراچی کے مکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس کے ساتھ ہی بے شمار لوگ تعلیم سے بے بہرہ ہیں لیکن والدین کی تربیت سے آراستہ ہیں، یہ سب رزق حلال کماتے ہیں، انھی میں سے بہت سے مفلوک الحال نوجوان بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں اس کی وجہ غربت اور مہنگائی ہے، جس نے بہت سے برائیوں کو جنم دیا ہے۔
حکومت پاکستان یہ بات سوچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے کہ عوام کی زندگی کس کرب سے گزر رہی ہے، لوگ اپنے بیٹوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے انھیں بیرون ملک بھیج رہے ہیں چونکہ یہاں پر تو معمولی سی بات پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، ان دنوں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ جاری ہے، یہ جنگ بھی کیا ہے نہتے مسلمانوں پر حملہ ہے، اگر پاکستان کے حالات دیکھے جائیں تو بے شمار لوگ قتل ہو چکے ہیں، اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں جگہ جگہ یہاں بھی مورچے بنے ہوئے ہیں جو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر ان نوجوانوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں، ان کا قصور اتنا ہے کہ انھوں نے سگنل توڑ دیا، محض جلد بازی کے نتیجے میں، یا پھر راست بازی کا علم بلند کرنے کے جرم میں۔
معمولی، معمولی باتیں طاقتوروں کے لیے اشتعال کا باعث ہوتی ہیں اور یہ لوگ طاقت کے بل پر مار دیتے ہیں، یا مروا دیتے ہیں، یہ کہانی پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنے بیانیے کے ساتھ گشت کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی طاقت کے استعمال میں بعض جگہوں پر ظلم ہورہا ہے، اگر قانون دان، انصاف پسند ہوتے، سچائی کی روشنی میں فیصلے کرتے تو اس قدر بے اعتباری اور خوف پروان نہیں چڑھتا۔
اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ افسران کی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے، جس کی گھٹی میں شرافت و نیکی شامل ہوتی ہے، وہ انسانوں کی بقا کی بات کرتے ہیں، فنا کی نہیں، درسگاہیں طلبا کو ایک ایسے راستے کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں کامیابی اور خوشی یکجا ہوکر بغل گیر ہوتی ہے اور انسانی قدریں، تہذیب و تمدن پوری دنیا میں سورج کی طرح روشنی بکھیرتے ہیں، اچھے اور صالح اعمال کی خوشبو دور دور تک سفر کرتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح گھناؤنے اور ناپسندیدہ افعال کی بو دور تک جاتی ہے اور اتنا تعفن پھیلتا ہے کہ ممالک غیر کے لوگ بھی اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک دو روز پرانی خبر ہے جب معمول کے مطابق سامنے آئی کہ اربوں کا بجٹ لینے والے کراچی کے 88 سرکاری کالج غیر معیاری قرار دے دیے گئے۔ اس کی وجہ اساتذہ کی کمی، تجربہ گاہوں میں سائنسی آلات کا فقدان اور لائبریری کتابوں سے خالی سندھ کے سرکاری کالج اور تدریسی عملے کا یہ حال آج سے نہیں کئی عشروں سے ہے ایسے ہی کالجوں و اسکولوں کے داخلہ لینے والے طلبا اب ہتھیار لے کر گھوم رہے ہیں اور گھوسٹ اساتذہ تنخواہ تو وصول کرنے آ جاتے ہیں لیکن فرائض سے غافل، وصول کرنیوالے گھوسٹ اساتذہ اپنے کرپٹ ساتھیوں کو بھی ان کا حصہ دیتے ہیں اور پھر یہ رقم اوپر تک جاتی ہے۔
بددیانتی کے کاموں میں تعلیمی امور سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات انجام سے بے خبر ہو کر مستفید ہوتے ہیں، تمام اداروں کا یہی حال ہے ۔ طلبا سے تعلیم کا مضبوط اور خوبصورت ہتھیار چھین کر ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دیا گیا ہے، ادارے کے سربراہان اور سرپرست اعلیٰ کو سوچنے سمجھنے کی فرصت نہیں کہ یہ ملک کہاں جا رہا ہے؟ اپنے ملک کے وقار اور ملک کے نوجوانوں کی زندگیوں کو درندگی میں بدلنے والے دشمن ملک سے نہیں آئے ہیں، ان کے ہم وطن اور کلمہ گو ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان ان کے رفقا کار کی محنت، جدوجہد کو رائیگاں کر دیا گیا ہے۔
محض اس چیز کے لیے جو کبھی ساتھ نہیں دیتی ہے ہر روز دوسرے کی جیب کو گرم کر دیتی ہے اور یہی وہ چیز جس کا عذاب قبر تک ساتھ جاتا ہے۔ اللہ کا خوف اور اپنے اٹھائے ہوئے حلف کی اہمیت ہو تو یہ ظلم و زیادتی اور بے قصور لوگوں کا قتل روز و شب ہرگز نہ ہو۔ مایوس کن حالات کے تناظر میں فیض احمد فیض کی نظم کا ایک بند یاد آگیا ہے۔
اے روشنیوں کے شہر
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی، اٹھتی رہتی ہے
کہرکی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہرکے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر، اے روشنیوں کے شہر
اللہ کو حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ہے اور ظلم کی ٹہنی ہمیشہ ہری نہیں رہتی ہے، خزاں کو ایک دن آنا ہی آنا ہے انشا اللہ۔