کیا ہم ماضی سے سبق سیکھ سکیں گے

بادشاہت پر مبنی نظام یا مرکزیت یا افراد پر کھڑا نظام جو عام آدمی کے مفادات کے برعکس ہے

salmanabidpk@gmail.com

شعوری یا لاشعوری طور پرماضی کی غلطیوں پر ماتم نہیں کرنا چاہیے بلکہ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جانا چاہیے۔

یہ ہی سوچ وفکر ہمیں بہتری کی جانب گامزن کرتی ہے کیونکہ غلطی ہونا فطری بات ہے لیکن لگاتار غلطیاں کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم میں سبق سیکھنے کی اہلیت نہیں ہے۔جس ریاست کا مقتدر طبقہ ماضی میں رہنا چاہتا ہے یا اسے غلطیوں کا کوئی ادراک نہیں ہے تو ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

ایک ریاست کا خود مختار ہونا اور معاشی استحکام حاصل کرنا ، اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب سیاسی قیادت اور سسٹم پر قابض مقتدر لوگ ہوس پرستی، تعصب اور اقربا پروری کے زہر سے آلودہ نہ ہوں، تدبر اور فہم و فراست کے مالک ہوں ۔ ایک فعال اور ذمے دار ریاست سے مراد شفافیت پر مبنی نظام، آئین اورقانون کی بالادستی رکھنے والی ریاست ہے۔ جذباتیت او رمحض کسی کو خوش کرنے کے لیے جذباتی نعروں پر مبنی سیاست یا محض ہیرو ازم پر مبنی پالیسی سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔

ہمارے مسائل کا حل ہم سے ٹھوس بنیادوں پر فیصلے چاہتا ہے او رایسے فیصلے جن میں عقل ودانش کا پہلو بھی ہو اور درست سمت کی عکاسی بھی ہو تو تب ہی ہم اپنے لیے نئے امکانات کو پیدا کرسکتے ہیں ۔لیکن ہماری ریاست کا مسئلہ یہ ہے کہ اس پر ہمیشہ ایک مہم جوئی کا بھوت سوار رہتا ہے اور ہم نے جذباتیت کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی سوچ ہمیں مسلسل بحران کی جانب دکھیل رہی ہے یا ہم جان بوجھ کر دکھیلے جارہے ہیں ۔

ایک بنیادی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ہم فوری طور پر نتائج چاہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ترقی یا بہتری کا راستہ بدتدریج آگے بڑھتا ہے اور اس میں جلدی کی بنیاد پر فیصلے ہمیں پیچھے کی طرف پھینک دیتے ہیں ، جب تک ہم کسی ایک نظام پر متفق نہیں ہونگے اور اس نظام کو اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کے لیے وقت نہیں دیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں ۔تبدیلی کا عمل ایک جدوجہد مانگتا ہے او رایسی جدوجہد جس میں سمت کا تعین درست طو رپر کیا گیا ہو اورآپ کی ترجیحات ریاستی ترجیحات یا جددیت کے پہلووں کی مکمل عکاسی کرتی ہو۔

اپنی مرضی اور خواہشات کی بنیاد پر حکومتوں کو بنانے ،بگاڑنے یا ختم کرنے کے کھیل نے ہمیں جمہوری سیاست سے بھی دور کردیا ہے ۔یہ جو کچھ یہاں سیاست او رجمہوریت کے نام پر ہورہا ہے اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی درست سمت میں جارہے ہیں او رکیا ہمارا طرز عمل یا اقدامات جمہوری سیاست کو مستحکم کرنے کا سبب بن رہا ہے، تو جواب نفی میں ہی ملے گا۔


سیاسی نظام اور سیاسی قیادتوں کو مصنوعی انداز سے سیاسی نظام کا حصہ بنانا خود سیاست او رجمہوریت کے حقیقی نظام کی عکاسی کی نفی کرتا ہے او رہمیں درست راستوں کے بجائے غلط راستوں کا مسافر بنادیتا ہے ۔

اسی طرح ہمیں قومی ترقی اور ایک مضبوط ریاست یا حکمرانی کے نظام کے لیے متبادل نقطہ نظر یا متبادل ترقی کی سوچ درکار ہے ۔ یہ عمل یقینی طور پر روزمرہ کی سوچ اور فکر کے مقابلے میں ایک غیر معمولی سوچ اور فکر کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ مسئلہ روائتی نہیں بلکہ مسئلہ کی گہرائی کو سمجھ کر ہی ہم مسئلہ کے درست علاج کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔لیکن یہاں متبادل نقطہ نظر کو ہمارا ریاستی بیانیہ ایک دشمنی اور تعصب کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔

کوئی کسی کو برداشت یا کسی کی بات یا نقطہ نظر کو سمجھنے کے بجائے سیاسی فتووں کا سہارا لیتا ہے اور یہ عمل قومی سطح پر ایک بڑے عدم برداشت کے کلچر کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ جو ہم افراد کی بنیاد پر اپنا نظام قائم رکھنے پر بضد ہیں اور ہمیشہ افراد کو بنیاد بنا کر مسیحا تلاش کرتے ہیں اور ایسا مسیحا جو عوام سے جڑت بھی بھی نہ رکھتا ہو لیکن طاقت کے مراکز میں وہ ہیرو ہو یا اسے حالات کی وجہ سے ہیرو بنانا پڑرہا ہے نئی خرابیوں کو پیدا کرتا ہے ۔

سیاسی دشمنی کے کھیل سے باہر نکلنا ہے ۔ داخلی ، علاقائی اور عالمی سیاست کے نئے انداز میں ہماری حیثیت تعلقات کو مضبوط بنانے، امکانات کو پیدا کرنے اور تنازعات سے باہر نکل کر جنگوں کے مقابلے میں امن اور سیاسی و معاشی خود مختاری کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے سے جڑی ہوئی ہے۔لوگوں پر اعتماد کرنا ہوگا اور خاص طور پر نئی نسل کو ترقی کی بنیاد کا اہم اور مرکزی حصہ بنانا ہوگا ۔ نئی نسل کو محض گالیاں دینا ، انتہا پسندی یا منفی رجحانات کو بنیاد بنا کر ان کی تصویر کشی کرنا یا ان کو مسائل کی وجہ سمجھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر نوجوانوں میں یہ مسائل پیدا ہورہے ہیں تو ان کی کیا وجوہات ہیں اورکیا ان وجوہات کو پیدا کرنے میں ہمارے نظام میں موجود پالیسیاں نہیں جو نوجوانوںمیں ردعمل کی سیاست کو پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔یہ سارا سیاسی ، معاشی یا قانون وانصاف سے جڑا نظام مختلف طرز کے بڑے بڑے مافیوں کے گٹھ جوڑ کا حصہ بن گیا ہے۔

ایسا نظام جو اپنے اندر اقربا پروری ، بدعنوانی، کرپشن اور منفی سوچ سمیت ذاتی مفادات پر مبنی رجحانات رکھتا ہو ۔ جہاں سیاست اور جمہوریت کو عوام کی حالت بدلنے کے بجائے طاقتور گروپوں کے ایلیٹ کلب میں تبدیل کردیا جائے تو ایسے نظام کی سیاسی و سماجی ساکھ نہیں بن سکے گی ۔

بنیادی مسئلہ حکمرانی کے بحران کا ہے ۔ بادشاہت پر مبنی نظام یا مرکزیت یا افراد پر کھڑا نظام جو عام آدمی کے مفادات کے برعکس ہے ہمیں عملی طور پر جدید حکمرانی کے نظام سے دورکررہا ہے ۔ہم اول تو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور دوئم ماضی کی غلطیوں میں مزید نئی غلطیوں کو پیدا کرکے اپنے لیے بھی او رملک کے لیے بھی خرابیوں کو پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔
Load Next Story