آدمی

جب ان کے خلاف کی گئی غیبت ان تک پہنچتی تو وہ دکھی ہو کر خاموش ہو جاتے


Rafiuzzaman Zuberi November 19, 2023

عرفان جاوید نے ''چند زندگی بردوش، عجوبۂ روزگار، نادرہ کار لوگوں کی داستانیں، فکر آفریں، زندگی آموز'' کے عنوان سے اپنی کتاب ''آدمی'' میں تحریرکی ہیں۔

پہلی داستان کا عنوان ہے '' نیا پرانا آدمی، آصف اسلم فرخی'' عرفان جاوید لکھتے ہیں۔ '' آصف صاحب اصول پسند اور اصول پرست آدمی تھے مگر ان کی جب کسی محبوب شخصیت کا معاملہ ہوتا تو وہ خود متعین کردہ ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اس شخص کے لیے جی جان سے بچھ بچھ جاتے۔ ان کے شناسا اور دوست انھیں ایک منضبط مزاج اور پُرتکلف آدمی کے طور پر جانتے تھے جسے شیشے کے ایک ایسے شفاف خول میں بند ہوکر اسے دیکھا تو جا سکے مگر چھوا نہ جاسکے، جس سے شناسائی، یہاں تک کہ دوستی تو قائم ہو سکتی ہو پر یاری نہ لگائی جاسکتی ہو۔ وہ ہمیشہ ایک فاصلہ، ایک تکلف قائم رکھتے، لیے دیے رہتے تھے۔ بھرے مجمع میں گم سم ہو جانا، بات کرتے کرتے خاموش ہو جانا، غیر رسمی مباحثے کے دوران سوچوں میں کھو جانا، کسی شناسا کے قریب سے اپنے خیالوں میں غلطاں، اجنبیت سے گزر جانا، پل میں پُرجوش، پل میں لاتعلق، کبھی تم کبھی آپ، ایک ہی شخص پر کئی رنگ آ کر گزر جاتے۔''

عرفان جاوید لکھتے ہیں '' اگر کوئی شیشے کے خول کے اندر جھانک پاتا تو اسے اندر جذبات کا شعلہ بھڑکتا نظر آ ہی جاتا۔ یہ شعلہ عشق کا تھا۔ یہ وہی عشق تھا جس کی خاطر وہ اصولوں کو خال خال بالائے طاق رکھ دیا کرتے تھے۔ انھیں عشق تھا ہر طرح کی کتابوں سے، ادب سے چند ادیبوں سے، کراچی سے، گنگا جمنی تہذیب سے، اردو سے، اپنی بیٹیوں سے اور اپنے والد اسلم فرخی سے۔''

عرفان جاوید لکھتے ہیں '' اسلام آباد میں میری ان سے چند ملاقاتیں ہی رہیں۔ البتہ ذاتی مراسم تب قائم ہوئے جب میں مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگیا۔ کراچی میں آ کر میں نے اصل آصف فرخی کو جانا۔ جنوں پیشہ آصف فرخی ایک حساس انسان، ایک فرماں بردار بیٹے، کھلے دروازے اور وسیع دسترخوان والے میزبان۔ بڑے سے بڑا غم اپنے اندر پی جانے والے آدمی۔

اپنے غم دوسروں سے چھپا لینے والے گہرے، منضبط مزاج، بڑے حوصلے والے دوست، ادب و فن سے گہرا لگاؤ بلکہ مجنونانہ عشق رکھنے والے ایک ایسے ادیب پرور ادیب جنھوں نے بے شمار لوگوں کو متعارف کروایا، ان کی تحسین کی مگر نہ تو اپنی تخلیقات پر چھاتی پھیلائی اور نہ ہی اپنے زیر اہتمام پروگرام اپنی تحریروں کے حوالے سے کروائے بلکہ اپنی تخلیقی کاوشوں پر عجزکا رویہ اختیارکیا، ان چند قیمتی لوگوں میں سے ایک جنھوں نے انگریزی اور اردو کے درمیان رابطے کا کام انجام دیا۔

ایک ایسا آدمی جو اپنی زندگی کی آخری دہائی میں نام و نمود کی غرض رکھنے والے غرض مندوں میں یوں گھرگیا کہ مخلص دوستوں اور غرض آلود لوگوں میں تفریق مشکل ہوگئی، ایک ایسا متین اور وضع دار شخص جس کے لبوں سے میں نے نہ تو دشنام سنا اور نہ اسے کسی کی دل آزاری کرنے والا تلخ لہجہ اختیارکرتے دیکھا۔

جب ان کے خلاف کی گئی غیبت ان تک پہنچتی تو وہ دکھی ہو کر خاموش ہو جاتے۔ یہ میں نے بارہا دیکھا۔ وہ تجزیہ کار اور ناقد تھے اور قلم ان کے ہاتھ میں تھا، ان کی تحریر دانش مندوں سے لے کر عام آدمی تک اپنا اثر رکھتی تھی مگر انھوں نے اپنی تحریر سے کسی کا دل نہ دکھایا، نہ تو کسی کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور نہ کسی کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کی۔

موجودہ دور میں یہ بہت اہم اور قابل توجہ خوبی ہے۔ وہ یہ سب کچھ کر سکتے تھے مگر ان کی خاندانی نجابت اور مزاج کی متانت اور وضع داری انھیں ایسا کرنے سے کجا، سوچنے سے بھی روکتی تھی۔''

عرفان جاوید لکھتے ہیں ''دنیا کے لیے آصف فرخی میرے لیے اپنے آصف صاحب تھے۔ جب میں عروس البلاد کراچی میں اجنبی تھا اور میں یہاں کسی کو نہ جانتا تھا، کمرے میں اکیلا پڑا چھت کو گھورتا رہتا یا کتابوں میں غرق رہتا تھا تو انھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے کئی گھرانوں میں لے کر گئے، کتابوں کی دکانوں سے متعارف کرایا، ادیبوں، فنکاروں سے ملوایا اور فنون لطیفہ کے مراکز اور مباحثوں کے فورموں میں ساتھ لے گئے۔''

'' وہ تازہ ادب پرگہری نظر رکھتے تھے۔ عموماً سینئر ادیب نئے ادیبوں کی تحریریں یا تو پڑھتے نہیں ہیں یا پھر ان پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ حال ان ادیبوں کا بھی ہے جو ایوارڈوں اور انعاموں کے مختلف پینلوں میں ہوتے ہیں۔ آصف صاحب نہ صرف سامنے آنے والی تازہ تحریریں پڑھتے تھے، ان کا جا بہ جا تذکرہ کرتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کی خوب حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ آصف صاحب جن ادیبوں کی پہچان بنے ان کی ایک طویل فہرست ہے۔''

عجوبہ روزگار لوگوں کی داستانوں میں دوسری داستان زائچہ نویس، ستارہ شناس اسحاق نورکی ہے۔

عرفان جاوید لکھتے ہیں ''اسحاق نور ایک ایسا لازوال کردار تھا جس کی تلاش اور انتظار میں کئی نامراد ناول نگار قبروں میں اتر جاتے ہیں۔ ایک ایسا نجومی جو ٹیلی وژن اور اخبارات کی رونق تھا۔ اپنی زندگی کا آغازگجرات کے ایک گاؤں سے کرنے والا، کئی چھوٹی بڑی ملازمتیں، بے شمار کاروبار بہ شمول انارکلی بازار میں پرانے ڈائجسٹ بیچنے، موسیٰ پاک ٹرین پر ریوڑیاں فروخت کرنے سے لے کر اگربتی کا کارخانہ لگانے والا، نوجوانی کا خاصا حصہ ہیرا منڈی میں ایک کوٹھے پر ملازمت کر کے اور گاہک تاڑ کر لانے کی بلامعاوضہ خدمات پیش کر کے بازار حسن کے جوبن کے دورکا نقیب، نائیکاؤں کا خدمت گزار اور طوائفوں کی رازدار سہیلی بن کر، جوانی بتانے والا، پورے ملک کے طول و عرض پر ستر سال کی عمر تک بسوں، ویگنوں، ٹرینوں میں سفر کرکے میلوں ٹھیلوں عرسوں میں شریک ہونے والا، درویشوں کا حلیہ بنا کر قریہ قریہ اپنا لیپ ٹاپ بغل میں دابے پھرنے والا، کم تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ادب عالی کا شائق، مودودی سے ٹالسٹائی تک اور برٹرینڈ رسل سے لے کر ارون دھتی رائے تک کو نہ صرف پڑھنے بلکہ موقع بہ موقع ان کے برمحل حوالہ جات دینے والا، بہ ظاہر فقر و فاقہ میں خوش، خود مگن درویش درحقیقت اعلیٰ صنعت کاروں، بیورو کریٹوں اور بینکاروں کا دوست، ایسا یار دل دار کہ اس کے ہوٹلوں میں مفت قیام، بلامعاوضہ کھانا اور وہاں علم نجوم کے کاروبار کے لیے گوشوں کا اعزازی انتظام کیا جاتا، سر پر کسی مہاراجہ جیسی رنگین پگڑی جمائے، ایک قدم کراچی میں تو دوسرا لاہور میں۔''

عرفان جاوید لکھتے ہیں ''اسحاق نور نے اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق اپنی شرائط پر دکھائوے سے مبرا گزاری، بے شک ایسی زندگی پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی۔ اس کے لیے ایک جنون چاہیے۔ دنیا کے قابل ذکر افراد میں اگر کوئی شے مشترک ہے تو وہ جنون ہی ہے۔''

عرفان جاوید کی کتاب میں ایک داستان مطیع الرحمن کی ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''مطیع الرحمن ان لوگوں میں سے ایک تھا جو معمولی نقدی کے عوض امید اور جینے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ صاحب علم تھا۔ علم دست شناسی کے برحقیقت ہونے پر تو دو رائے ہو سکتی ہیں مگر مطیع کی اس علم میں مہارت ماورائے شک ہے۔ اس نے 2001 میں دست شناسی پر ایک وقیع کتاب '' سب لکیریں ہاتھ کی'' تصنیف کی تھی جس میں آٹھ سو پچاس سے زائد ہاتھوں کے خاکے اور ان چھ کلائنٹوں کی کہانیاں شامل تھیں جن کے ہاتھ یا وہ خود اسے منفرد اور یادگار لگے۔ انھی کہانیوں میں ایک کہانی میری اس سے ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں سے بھی متعلق تھی جسے اس نے '' پچھلا جنم '' کے عنوان سے رقم کیا تھا۔''

عرفان جاوید مطیع الرحمن سے اپنی اس ملاقات کا ذکر کیا ہے جب وہ اس کو اپنا ہاتھ دکھانے گئے تھے۔ پھر یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں