دو پاکستان کی کہانی

کسی دل جلے کا یہ قول درست ہے کہ پاکستان اصل میں دو ملک ہیں

jamilmarghuz1@gmail.com

چارلس ڈکنز کے مشہور ناول ''Tale of Two Cities'' میں مصنف نے فرانسیسی ڈاکٹر مانیٹی کی کہانی بیان کی ہے۔ وہ انقلاب فرانس کے دوران 18سال تک پیرس کی بسٹائل جیل میں رہے' رہائی کے بعد وہ لندن آگئے' اس ناول میں دو شہروں پیرس اور لندن کی زندگی کا موازنہ کیا گیا ہے۔

آج کے کالم میں ہم Tale of two Pakistans کی کہانی بیان کریں گے' کسی دل جلے کا یہ قول درست ہے کہ پاکستان اصل میں دو ملک ہیں۔ ''ایک اشرافیہ کا اور دوسرا عوام کا پاکستان''۔ صدر ایوب خان نے جب عوام کو ووٹ دینے کے قابل نہیں سمجھا اور 80ہزار بی ڈی ممبران کو ووٹ کا حق دیا ۔ تب حبیب جالب بولا: ''دس کروڑ یہ گدھے' نام جن کا ہے عوام''۔

آج کی کہانی دو اخباری خبروں سے شروع کرتے ہیں۔ 2نومبر 2023 کے اخبارات کی ایک حیران کن خبر۔ وزارت خزانہ نے MP سکیل کی تنخواہوں اور مراعات میں 45 فیصد اضافہ کر دیا' نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا اور اس پر یکم اکتوبر سے عمل درآمد ہوگا۔

MP-1 سکیل کے لیے کم از کم تنخواہ 554,600 روپے اور زیادہ سے زیادہ 699,250 تھی جو اب کم از کم 80,4180 اور زیادہ سے زیادہ 1103,920 روپے کر دی گئی ہے' اس سکیل کے لیے ٹرانسپورٹ الائونس 95,910 روپے رہے گا۔

MP-2 کے لیے کم از کم تنخواہ 255,750 روپے اور زیادہ سے زیادہ 413,600 روپے تھی جو اب کم از کم 370,850 روپے اور زیادہ سے زیادہ 599,740 روپے ہوگئی ہے۔

MP-3 سکیل کی کم از کم تنخواہ 165,855 روپے تھی جو 240,460 روپے کر دی گئی ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ 233,750 سے بڑھا کر 338,960 کر دی گئی ہے' اس سکیل کے لیے ٹرانسپورٹ الائونس 65,060 ماہانہ ہوگی۔

صحافی عمر چیمہ کی' 15نومبر کی ایک خبر کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ملک کو ڈالرز کی قلت کا سامنا ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے ملک کو بیرونی ملک اپنے سفارتی عملے کو تنخواہیں ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، اس وقت کچھ ایسے ریٹائرڈ افسران بھی ہیں' جن کو حکومت پاکستان' غیرملکی کرنسی میں پنشن کی ادائیگی کرتی ہے۔

وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایسے پنشنرز کی تعداد 164 بتائی گئی ہے' یہاں پر ریٹائرڈ ملازمین ملکی کرنسی میں ہی پنشن کی عدم ادائیگی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ایک شہری نعیم صادق نے بڑی مشکلوں سے یہ معلومات عدلیہ کے ذریعے حاصل کیںکیونکہ ہر محکمہ معلومات دینے سے انکاری تھا۔


دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا ہے، کم از کم میرے علم نہیں ہے، اگر کسی کے پاس ہو تو مجھے بھی آگاہ کر دے تو مہربانی ہو گی، اندازہ کریں پاکستان ایک ایک ڈالر کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ پاکستان اپنی مالی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اشرافیہ پھر بھی ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایک کہانی یاد آئی ہے کہ ایک پسماندہ اور غیریب گاؤں کی مسجد کے پیش امام کی گذراوقات بڑی مشکل سے ہوتی تھی۔ لوگ غریب تھے لہٰذا پیش امام بھی غریب تھے۔ جب کوئی فوت ہوتا تو قبر پر سخات (خیرات) میں کچھ مل جاتا تھا، گاؤں والے کھانا روٹی فراہم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اتنا زیادہ نہ ہوتا کیونکہ گاؤں غریب تھا۔ ایک دن ہمسایہ گا ؤں میں ایک امیر آدمی فو ت ہوگیا' اتفاقاً یہ مولوی صاحب اس دن وہاں موجود تھے' اس امیر شخص کے اقرباء نے ان مولوی صاحب کو نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔

جنازہ پڑھانے کے بعد جب (سخات) خیرات کا مرحلہ آیا تو مردے کے لواحقین نے جنازہ پڑھانے والے صاحب کو اعلیٰ کوالٹی کے دو جوڑے کپڑے، تولیے، صا بن اور موٹی نقد ر قم ادا کر دی۔ مولوی صاحب خوشی خوشی اپنے غریب گاؤں وا پس آئے اور اپنے حجر ے میں آنے والے لوگوں کو بتانے لگے ''مردہ ہو تو ایسا' ہما رے گاؤں میں بھی قبر میں لیٹ کر مردے کہلانے کے شوقین ہوتے ہیں' مردہ تو ساتھ والے گاؤں کے ''خان صا حب'' جیسا امیر مردہ 'جس کے مرنے سے بہت سے غریبوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔''

یہ واقعہ مجھے محکمہ خزانہ کی مندرجہ بالا رپورٹ دیکھ کر یاد آیا' یہ رپورٹ دیکھ کر میں بھی حیران رہ گیا کہ یہ سب پاکستان میں ہو رہا ہے' ہمارے سرکاری ملازمین اپنے طرزعمل کے لحاظ سے کوئی آئیڈیل مخلوق نہیں ہیں' عوام اکثر ان کے طرزعمل کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن ان سب خرابیوں کے باوجود ملک برا یا بھلا' ان ہی کے دم قدم سے چل رہا ہے' مہنگائی کے اس دور میں واقعی ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں' ہمارے کلرک اور سرکاری ملازمین ہر وقت تنخواہیں بڑھانے کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔

سال دوسال میں کہیں جا کر حکومت جب بڑا تیر مارتی ہے تو تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کر دیتی ہے۔ میرا ایک دوست دس گریڈ میں تھا اور اس کی تنخواہ دس ہزار روپے ماہانہ تھی' جب تنخواہ میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا تو میں نے حساب لگا کر اس سے کہا کہ تمہاری تنخواہ میں 1500 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے تو اس نے کہا ہماری اتنی قسمت کہاں' اضافہ تو بنیادی تنخواہ پر دیا جاتا ہے' میری بنیادی تنخواہ تو چار ہزار روپے ہے، اس لیے اضافہ بھی اسی پر ہو گا' اس طرح اس کی تنخواہ میں کل اضافہ صرف600 روپے ہوا' تنخواہیں بڑھاتے وقت حکومت ہمیشہ وسائل نہ ہونے کا رونا روتی ہے اور اضافے کا اعلان اس طرح کرتی ہے جیسا کہ ملازمین پر کو ئی احسان کر رہی ہو' ان تنخواہوں میں گھر چلانا ناممکن ہے' کوئی بھی شخص ان تنخواہوں میں ایک آسودہ زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

اب دوسرے پاکستان یعنی ہم اور آپ کے پاکستان کی ایک خبر۔ پشاور میں تعلیم' سی اینڈ ڈبلیو' آبپاشی اور دیگر سرکاری ملازمین کا پریس کلب کے سامنے احتجاج' حکومتی پالیسی مسترد' بیورو کریسی کی مراعات کم کی جائیں' تنخواہوں میں کٹوتی کسی صورت قبول نہیں۔ ملازمین کا مطالبہ۔خیبرپختونخوا کے مختلف اداروں کے سرکاری ملازمین، پنشن اصلاحات اور تنخواہوں میں مجوزہ کٹوتی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے' انھوں نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے تنخواہوں میں کمی کی تو احتجاج میں شدت لائیں گے۔

ایک دوسری خبرکے مطابق۔ خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے 2023/24 کے بجٹ میں صرف چارماہ قبل سرکاری ملازمین کی تنخواہوں' پنشن اور مختلف الائونسوں میں اضافہ کیا گیا تھا' سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ ایک سے 16 تک 35 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک تنخواہوں میں 35 فیصد جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کیا گیا تھا' اس اضافہ کی وجہ سے صوبے کے خزانے پر 41 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑا ہے جو صوبائی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہے اس لیے کے پی حکومت یہ اضافہ واپس لینے پر غور کر رہی ہے۔

اس فیصلے کے خلاف سرکاری ملازمین کا احتجاج جاری ہے۔ دوسری خبر کے مطابق۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے انشورنس کمپنی کو فنڈز کی عدم ادائیگی پر صوبے میں صحت کارڈ پر مفت علاج کی سہولت معطل کر دی ہے۔ باقی کہانی پھر سہی۔
Load Next Story