انھیں پڑھیے اور سر دُھنیے
ہم نے تقریباً تمام باقیات اقبال کے نسخوں سے استفادہ کیا ہے تاکہ اس گلدستے میں ہر وہ پھول شامل رہے
برصغیر دو نیم ہوا تو لاکھوں انسانوں نے نقل مکانی کی۔ ان میں دو اہم ادبی ادارے بھی تھے۔ ایک ماہنامہ '' عصمت'' تھا اور دوسرا '' انجمن ترقی اردو۔''
انجمن 1903 میں شبلی نعمانی، محسن الملک اور دوسروں نے قائم کی۔ 1912 میں مولوی عبدالحق نے اس کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر یہ وہی تھے کہ تقسیم برصغیر کے بعد اسے دلی سے کراچی لائے ۔ وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزر کر انجمن کو پرنسس اسٹریٹ (چاند بی بی روڈ) پر آباد کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ نورالحسن، جمیل الدین عالی اور دیگر اصحاب کی کوششوں سے اس نہج پر پہنچا ہے کہ اس کی دو منزلہ عمارت کراچی یونیورسٹی روڈ پر سر اٹھائے کھڑی ہے۔ دوست اس پر ناز کرتے ہیں اور وہ جو چشمک رکھتے ہیں، اس کو غور سے دیکھتے ہیں۔ یہاں وقتاً فوقتاً دوسرے ملکوں اور شہروں سے آئے ہوئے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی ہوتی ہے اور اس پذیرائی میں شہر بھر کے سامعین شریک ہوتے ہیں۔
ہماری انجمن کے صدر عبدالواجد جواد اور ان کے مشیر مالیات عابد رضوی ادب سے خصوصی شغف رکھتے ہیں واجد صاحب کو غالب کے اشعارنوک بر زباں ہیں۔ ان کی گفتگو کا وہ عالم ہوتا ہے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ گزشتہ دنوں واجد اور عابد صاحبان نے اردو کی صف اول کی شاعرہ کشور ناہید کی پذیرائی کی اور اس کے بعد ڈاکٹر تقی عابدی کینیڈا سے تشریف لائے جن کی میزبانی کا ہمیں شرف حاصل ہوا۔
'' باقیات اقبال'' کے بارے میں تقی عابدی لکھتے ہیں۔ '' اقبال کا تقریباً چالیس، بیالیس فیصد اردو کلام... ماخذات اور تفصیلات کی وجہ سے سود مند ہوگا'' تقی عابدی نے کار فرہادکیا ہے۔ '' باقیات اقبال'' 718 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ وہ'' گلستان ہند'' جو تصنیف منشی بال مکند کی ہے اردو، گورمکھی اور فارسی میں ہے۔ 1871میں طبع ہوئی تھی تحفہ ٔخاص ہے۔
منشی بال مکند کی تصنیف '' گلستان ہند'' پڑھتے ہوئے ساٹھ سترکی دہائی کے جو لوگ ہیں انھیں '' گلستان سعدی'' اور '' بوستان'' کی بطور خاص یاد آئے گی۔ یہ کتاب 1871 میں شہر سہارن پور میں لکھی گئی اور میرٹھ سے طبع ہوئی۔
خود اقبال نے کہا تھا... اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔
نومبرکا مہینہ اقبال کی یاد سے مخصوص ہوچکا ہے، واجد اور عابد صاحبان نے '' باقیات اقبال'' کے اجراء کے لیے اس مہینے کو مناسب جانا۔ تقی عابدی صاحب انجمن تشریف لائے اور انھوں نے اس بارے میں کہا کہ دگر دانائے راز آید کہ ناید... یہ سچ ہے کہ ایک عظیم فنکار کی فن شناسی صرف اس کے فن پاروں کی تفہیم اور تشخیص سے مکمل نہیں ہوسکتی بلکہ فن ابتدا سے انتہا تک ہر رنگ وجہت میں اور ہر پست و بالا تخلیقی کاوش کا متقاضی اس لیے رہتا ہے کہ اسے اس تاریک و روشن نشیب و فراز کے مقامات پر اپنے کمالات، کرشمات اور محدودیات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ فنکار کے فن کی ارتقائی رہ گزر کا مسافر منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔
فن کارکی شخصیت اور اس کے فن کو سمجھنے کے لیے فن اور شخصیت دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس کو مزید محکم اور مستند کرنے کے لیے ان کے کلام ہی سے مدد لینا ضروری ہے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا سارا مستند کلام خواہ وہ متداول شکل میں ہو یا متروکہ، باقیات کی شکل میں اقبال شناسوں کے سامنے پیش ہو، تاکہ اقبال کے فن کا پوری طرح سے جائزہ لے کر اقبال کی فن کاری کا مقام متعین کیا جاسکے۔
گزشتہ ستر (70) برسوں میں تقریباً نو دس باقیات کے مجموعے اسی لیے زیور طباعت سے مجہز ہوکر مقبول بھی ہوئے ہیں۔ اقبال کا تقریباً چالیس بیالیس فیصد اردوکلام ان کے متداول میں شامل نہ ہوسکا، اگرچہ اس متروکہ کلام میں وہ اشعار بھی ہیں جو زباں زد عام ہو گئے تھے۔ ہم نے یہاں باقیات اقبال کی اہمیت اور افادیت کو مستند حوالوں سے اقبال شناسی کے لیے ضروری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اقبال کی شاعری کے بہت سے مسائل اور ان کا پس منظر، ان کی شاعری کا ارتقا، ان کے موضوعات، رجحانات، شاعری کے مختلف ادوار میں باقیات کی مدد سے تلاش کرنے کی یہاں کوشش بھی شامل رہی ہے۔ ''باقیات اقبال'' عامی، عالم اور بالخصوص اسکالرز کے لیے ماخذات اور تفصیلات کی وجہ سے سود مند ہوگا۔
ہم نے پہلی بار فارسی اشعارکا سلیس اردو ترجمہ بھی اس میں شامل کیا ہے۔ ہم نے تقریباً تمام باقیات اقبال کے نسخوں سے استفادہ کیا ہے تاکہ اس گلدستے میں ہر وہ پھول شامل رہے جس کی ہمارے بزرگوں نے گل چینی کی ہے۔ ہم نے اقبال سے منسوب الحاقی کلام کا نمونہ بھی درج کیا ہے۔ یہ باقیات یقیناً ناتمام ہے، چونکہ آئے دن کہیں نہ کہیں اقبال کا شعر رسالوں، بیاضوں اور ڈائریوں کے افق سے طلوع ہوتا رہتا ہے۔
میں مشکور ہوں جناب سجاد حیدر (سرپرست اقبال اکادمی، کینیڈا)کا، جنھوں نے چند کمیاب نسخے مجھے عنایت کیے۔ ناصر دہلوی اور محمد اقبال پارس نے بڑی محنت اور لگن سے کتابت کی اور امر شاہد، گگن شاہد نے فلکِ سخن پر باقیات ٹانک کر اسے امر کر دیا ۔''اور اب کچھ ذکر ان کے دوسرے تحفے '' گلستان ہند'' کا ہوجائے۔ یہ مختصر سی کتاب گلستان بوستان کی یاد دلاتی ہے۔ اس کی چند حکایتیں آپ کی ضیافت کے لیے:
کہتے ہیں کہ جن دنوں دلی کی جامع مسجد تعمیر ہوتی تھی۔ بعض متعصب امیروں نے شاہ جہاں کو یہ صلاح دی کہ اکثر مندروں میں بیش قیمت سنگ اور جواہرات خوش رنگ نصب ہیں، مندر توڑکر نکلوائے اور منگوائے جاویں اور مسجد میں لگوائے جاویں کہ مسجد کو آب و تاب ہو اور ظل سبحانی کو ثواب۔ بادشاہ نے کہا '' اول تو غصب کا مال لینا غضب ہے اور بادشاہوں کی ذات سے عجب۔ اور مفت کا مال مسجد میں لگانا بڑا عذاب ہے نہ کہ ثواب۔ دوسرے جو زمانے کے انقلاب سے مسلمانی سلطنت کو زوال ہوا اور ہندوئوں کا اقبال، تو کیا عجب ہے وہ مسجد کو ڈھادیں اور اپنے اور ہمارے قیمتی پتھر لے جاویں اور مندروں میں لگاویں، عقل کے نزدیک دور اندیشی ضروری ہے اور تھوڑے نفع کے لیے بہت نقصان اٹھانا عقل سے دور۔''
ایک دن شاہ جہاں بادشاہ باغ میں سیر کرتا تھا۔ ایک شخص اجنبی کو درختوں میں پھرتا دیکھا۔ سعداللہ وزیر سے پوچھا '' یہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے؟'' کہا کہ '' میں اس کو نہیں جانتا لیکن اتنا بتلا سکتا ہوں کہ قوم کا نجار اور اس کا نام سعداللہ ہے۔'' بادشاہ نے اس کو بلا کر جو پوچھا تو اس نے ذات اور نام اپنا وہی بتایا جو وزیر نے کہا تھا۔
بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ '' تم نے بے جان پہچان اس کی ذات اور نام کوکیسے جان لیا ؟ '' جواب دیا کہ '' جب سے یہاں آیا ہوں اس کی نگاہ جڑ اور شاخ پر درختوں کی دیکھتا ہوں۔ اسی سے جانا کہ وہ بڑھئی ہے اور آپ نے جو مجھے پکارا تھا تو اس نے پیچھے کو دیکھا تھا اس سے پہچانا کہ اس کا نام سعد اللہ ہے'' بادشاہ نے اس کی دانائی کی داد دی اور آفرین و تحسین کی۔
شاہ جہاں کو دریافت ہوا کہ راج پوت عربی یا پارسی لغت زبان پر نہیں لاتے ہیں۔ واسطے امتحان کے پردہ اور مشک کہ جس کی کچھ ہندی نہیں، منگوا کر دیوان خاص میں رکھوائی اور جسونت سنگھ راٹھور، جودھ پور کے راجہ سے پوچھا کہ '' ان چیزوں کے کیا نام ہیں۔'' بلاتامل کہا کہ '' یہ کپڑے کی اوٹ ہے اور یہ پانی کی پوٹ ہے۔''
اورنگ زیب عالمگیر نے بعد فتح ہونے کے گول کنڈہ کے، وہاں کے بادشاہ ابوالحسن معروف تانا شاہ سے فخریہ یہ کہا تھا کہ میں نے ملک اور مال کی طمع سے یہ فساد نہیں کیا بلکہ توکافر ہے تجھ پر جہاد کیا ہے۔ وہ سن کر چپ ہورہا۔ اس وقت کچھ نہ کہا۔ جب خزانوں کی ضبطی کا وقت آیا ۔ جہاں جہاں خزینہ اور دفینہ تھا۔ ابوالحسن نے بتلایا۔ جب دفینہ کہیں باقی نہ رہا اور عالمگیر نے واسطے بتانے کے مجبورکیا تو اس نے ایک مسجد کی نیو میں دفینہ اور بتادیا۔ حکم ہوا کہ مسجد کو ڈھا دو اور خزانہ نکال لو۔ غرض کہ مسجد مسمارکی گئی۔ اینٹ سے اینٹ مار دی گئی۔
انھیں پڑھیے اور سر دھنیے کہ کیا لوگ تھے اور ان کی کہی ہوئی کیا کہانیاں تھیں۔
انجمن 1903 میں شبلی نعمانی، محسن الملک اور دوسروں نے قائم کی۔ 1912 میں مولوی عبدالحق نے اس کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر یہ وہی تھے کہ تقسیم برصغیر کے بعد اسے دلی سے کراچی لائے ۔ وہ بہت سے نشیب و فراز سے گزر کر انجمن کو پرنسس اسٹریٹ (چاند بی بی روڈ) پر آباد کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ نورالحسن، جمیل الدین عالی اور دیگر اصحاب کی کوششوں سے اس نہج پر پہنچا ہے کہ اس کی دو منزلہ عمارت کراچی یونیورسٹی روڈ پر سر اٹھائے کھڑی ہے۔ دوست اس پر ناز کرتے ہیں اور وہ جو چشمک رکھتے ہیں، اس کو غور سے دیکھتے ہیں۔ یہاں وقتاً فوقتاً دوسرے ملکوں اور شہروں سے آئے ہوئے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی ہوتی ہے اور اس پذیرائی میں شہر بھر کے سامعین شریک ہوتے ہیں۔
ہماری انجمن کے صدر عبدالواجد جواد اور ان کے مشیر مالیات عابد رضوی ادب سے خصوصی شغف رکھتے ہیں واجد صاحب کو غالب کے اشعارنوک بر زباں ہیں۔ ان کی گفتگو کا وہ عالم ہوتا ہے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ گزشتہ دنوں واجد اور عابد صاحبان نے اردو کی صف اول کی شاعرہ کشور ناہید کی پذیرائی کی اور اس کے بعد ڈاکٹر تقی عابدی کینیڈا سے تشریف لائے جن کی میزبانی کا ہمیں شرف حاصل ہوا۔
'' باقیات اقبال'' کے بارے میں تقی عابدی لکھتے ہیں۔ '' اقبال کا تقریباً چالیس، بیالیس فیصد اردو کلام... ماخذات اور تفصیلات کی وجہ سے سود مند ہوگا'' تقی عابدی نے کار فرہادکیا ہے۔ '' باقیات اقبال'' 718 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ وہ'' گلستان ہند'' جو تصنیف منشی بال مکند کی ہے اردو، گورمکھی اور فارسی میں ہے۔ 1871میں طبع ہوئی تھی تحفہ ٔخاص ہے۔
منشی بال مکند کی تصنیف '' گلستان ہند'' پڑھتے ہوئے ساٹھ سترکی دہائی کے جو لوگ ہیں انھیں '' گلستان سعدی'' اور '' بوستان'' کی بطور خاص یاد آئے گی۔ یہ کتاب 1871 میں شہر سہارن پور میں لکھی گئی اور میرٹھ سے طبع ہوئی۔
خود اقبال نے کہا تھا... اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔
نومبرکا مہینہ اقبال کی یاد سے مخصوص ہوچکا ہے، واجد اور عابد صاحبان نے '' باقیات اقبال'' کے اجراء کے لیے اس مہینے کو مناسب جانا۔ تقی عابدی صاحب انجمن تشریف لائے اور انھوں نے اس بارے میں کہا کہ دگر دانائے راز آید کہ ناید... یہ سچ ہے کہ ایک عظیم فنکار کی فن شناسی صرف اس کے فن پاروں کی تفہیم اور تشخیص سے مکمل نہیں ہوسکتی بلکہ فن ابتدا سے انتہا تک ہر رنگ وجہت میں اور ہر پست و بالا تخلیقی کاوش کا متقاضی اس لیے رہتا ہے کہ اسے اس تاریک و روشن نشیب و فراز کے مقامات پر اپنے کمالات، کرشمات اور محدودیات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ فنکار کے فن کی ارتقائی رہ گزر کا مسافر منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔
فن کارکی شخصیت اور اس کے فن کو سمجھنے کے لیے فن اور شخصیت دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس کو مزید محکم اور مستند کرنے کے لیے ان کے کلام ہی سے مدد لینا ضروری ہے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا سارا مستند کلام خواہ وہ متداول شکل میں ہو یا متروکہ، باقیات کی شکل میں اقبال شناسوں کے سامنے پیش ہو، تاکہ اقبال کے فن کا پوری طرح سے جائزہ لے کر اقبال کی فن کاری کا مقام متعین کیا جاسکے۔
گزشتہ ستر (70) برسوں میں تقریباً نو دس باقیات کے مجموعے اسی لیے زیور طباعت سے مجہز ہوکر مقبول بھی ہوئے ہیں۔ اقبال کا تقریباً چالیس بیالیس فیصد اردوکلام ان کے متداول میں شامل نہ ہوسکا، اگرچہ اس متروکہ کلام میں وہ اشعار بھی ہیں جو زباں زد عام ہو گئے تھے۔ ہم نے یہاں باقیات اقبال کی اہمیت اور افادیت کو مستند حوالوں سے اقبال شناسی کے لیے ضروری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اقبال کی شاعری کے بہت سے مسائل اور ان کا پس منظر، ان کی شاعری کا ارتقا، ان کے موضوعات، رجحانات، شاعری کے مختلف ادوار میں باقیات کی مدد سے تلاش کرنے کی یہاں کوشش بھی شامل رہی ہے۔ ''باقیات اقبال'' عامی، عالم اور بالخصوص اسکالرز کے لیے ماخذات اور تفصیلات کی وجہ سے سود مند ہوگا۔
ہم نے پہلی بار فارسی اشعارکا سلیس اردو ترجمہ بھی اس میں شامل کیا ہے۔ ہم نے تقریباً تمام باقیات اقبال کے نسخوں سے استفادہ کیا ہے تاکہ اس گلدستے میں ہر وہ پھول شامل رہے جس کی ہمارے بزرگوں نے گل چینی کی ہے۔ ہم نے اقبال سے منسوب الحاقی کلام کا نمونہ بھی درج کیا ہے۔ یہ باقیات یقیناً ناتمام ہے، چونکہ آئے دن کہیں نہ کہیں اقبال کا شعر رسالوں، بیاضوں اور ڈائریوں کے افق سے طلوع ہوتا رہتا ہے۔
میں مشکور ہوں جناب سجاد حیدر (سرپرست اقبال اکادمی، کینیڈا)کا، جنھوں نے چند کمیاب نسخے مجھے عنایت کیے۔ ناصر دہلوی اور محمد اقبال پارس نے بڑی محنت اور لگن سے کتابت کی اور امر شاہد، گگن شاہد نے فلکِ سخن پر باقیات ٹانک کر اسے امر کر دیا ۔''اور اب کچھ ذکر ان کے دوسرے تحفے '' گلستان ہند'' کا ہوجائے۔ یہ مختصر سی کتاب گلستان بوستان کی یاد دلاتی ہے۔ اس کی چند حکایتیں آپ کی ضیافت کے لیے:
کہتے ہیں کہ جن دنوں دلی کی جامع مسجد تعمیر ہوتی تھی۔ بعض متعصب امیروں نے شاہ جہاں کو یہ صلاح دی کہ اکثر مندروں میں بیش قیمت سنگ اور جواہرات خوش رنگ نصب ہیں، مندر توڑکر نکلوائے اور منگوائے جاویں اور مسجد میں لگوائے جاویں کہ مسجد کو آب و تاب ہو اور ظل سبحانی کو ثواب۔ بادشاہ نے کہا '' اول تو غصب کا مال لینا غضب ہے اور بادشاہوں کی ذات سے عجب۔ اور مفت کا مال مسجد میں لگانا بڑا عذاب ہے نہ کہ ثواب۔ دوسرے جو زمانے کے انقلاب سے مسلمانی سلطنت کو زوال ہوا اور ہندوئوں کا اقبال، تو کیا عجب ہے وہ مسجد کو ڈھادیں اور اپنے اور ہمارے قیمتی پتھر لے جاویں اور مندروں میں لگاویں، عقل کے نزدیک دور اندیشی ضروری ہے اور تھوڑے نفع کے لیے بہت نقصان اٹھانا عقل سے دور۔''
ایک دن شاہ جہاں بادشاہ باغ میں سیر کرتا تھا۔ ایک شخص اجنبی کو درختوں میں پھرتا دیکھا۔ سعداللہ وزیر سے پوچھا '' یہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے؟'' کہا کہ '' میں اس کو نہیں جانتا لیکن اتنا بتلا سکتا ہوں کہ قوم کا نجار اور اس کا نام سعداللہ ہے۔'' بادشاہ نے اس کو بلا کر جو پوچھا تو اس نے ذات اور نام اپنا وہی بتایا جو وزیر نے کہا تھا۔
بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ '' تم نے بے جان پہچان اس کی ذات اور نام کوکیسے جان لیا ؟ '' جواب دیا کہ '' جب سے یہاں آیا ہوں اس کی نگاہ جڑ اور شاخ پر درختوں کی دیکھتا ہوں۔ اسی سے جانا کہ وہ بڑھئی ہے اور آپ نے جو مجھے پکارا تھا تو اس نے پیچھے کو دیکھا تھا اس سے پہچانا کہ اس کا نام سعد اللہ ہے'' بادشاہ نے اس کی دانائی کی داد دی اور آفرین و تحسین کی۔
شاہ جہاں کو دریافت ہوا کہ راج پوت عربی یا پارسی لغت زبان پر نہیں لاتے ہیں۔ واسطے امتحان کے پردہ اور مشک کہ جس کی کچھ ہندی نہیں، منگوا کر دیوان خاص میں رکھوائی اور جسونت سنگھ راٹھور، جودھ پور کے راجہ سے پوچھا کہ '' ان چیزوں کے کیا نام ہیں۔'' بلاتامل کہا کہ '' یہ کپڑے کی اوٹ ہے اور یہ پانی کی پوٹ ہے۔''
اورنگ زیب عالمگیر نے بعد فتح ہونے کے گول کنڈہ کے، وہاں کے بادشاہ ابوالحسن معروف تانا شاہ سے فخریہ یہ کہا تھا کہ میں نے ملک اور مال کی طمع سے یہ فساد نہیں کیا بلکہ توکافر ہے تجھ پر جہاد کیا ہے۔ وہ سن کر چپ ہورہا۔ اس وقت کچھ نہ کہا۔ جب خزانوں کی ضبطی کا وقت آیا ۔ جہاں جہاں خزینہ اور دفینہ تھا۔ ابوالحسن نے بتلایا۔ جب دفینہ کہیں باقی نہ رہا اور عالمگیر نے واسطے بتانے کے مجبورکیا تو اس نے ایک مسجد کی نیو میں دفینہ اور بتادیا۔ حکم ہوا کہ مسجد کو ڈھا دو اور خزانہ نکال لو۔ غرض کہ مسجد مسمارکی گئی۔ اینٹ سے اینٹ مار دی گئی۔
انھیں پڑھیے اور سر دھنیے کہ کیا لوگ تھے اور ان کی کہی ہوئی کیا کہانیاں تھیں۔