سفارتکاری کے حوالے سے اسمارٹ چال
مودی کی Core Constituency کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جو ہندو انتہا پسندی کے تعصب میں پاکستان سے شدید نفرت کرتے ہیں
بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کے لیے بنائی گئی تنظیم سارک میں شامل تمام ممالک کے سربراہان کو بھی دعوت بھیج دی ہے۔ یہ کالم لکھنے تک میں کسی مستند ذریعے سے یہ نہیں جان پایا کہ نواز شریف صاحب اس تقریب میں خود شامل ہوں گے یا اپنے کسی صفِ اوّل کے معتمد کو بھجوا دیں گے۔ جبلّی طور پر اگرچہ میں اس شک میں ضرور مبتلا ہوں کہ شاید وہ خود دہلی جانے کا فیصلہ کریں گے۔
وجہ میرے شک کی صرف اسلام آباد کا وہ دورہ ہے جو نریندر مودی کے دو بااعتماد افراد نے خفیہ طور پر بھارت کی انتخابی مہم مکمل ہو جانے کے چند روز بعد کیا۔ مودی کے پیغامبروں نے یقینا کچھ وعدے وغیرہ بھی کیے ہوں گے۔ شاید ان کے دورے کے دوران ہی یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اگر نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو پاکستان کے وزیر اعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کریں گے۔ مودی کی Core Constituency کی اکثریت مگر ان افراد پر مشتمل ہے جو ہندو انتہاء پسندی کے تعصب میں پاکستان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ مودی وزیر اعظم بنتے ہی اس ملک کے وزیر اعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کرتے تو یہ لوگ ناراض ہو جاتے۔
اسی لیے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا ہے کہ بجائے نواز شریف کو اکیلا مدعو کرنے کے سارک ممالک کے تمام سربراہان کو حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دے دی جائے۔ محض سفارت کاری کے حوالے سے یہ بڑی اسمارٹ چال ہے۔ میں مودی کی ذات اور سیاست کے بارے میں اپنے تمامتر تحفظات کے باوجود اسے سراہنے پر مجبور ہوں۔ مودی کی دعوت پر غور کرتے ہوئے میرے دماغ میں کچھ یادوں کا باب بھی کھل گیا۔ غالباََ 1994ء کے آخر یا 1995ء کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے۔ سارک ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس ان دنوں نئی دہلی میں منعقد ہونا تھا۔ نرسمہا رائو ان دنوں بھارت کے وزیر اعظم تھے اور پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت چل رہا تھا۔
مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ بجائے نئی دہلی میں ہونے والی اس سربراہ کانفرنس میں خود شرکت کرنے کے محترمہ نے اس وقت کے صدر سردار فاروق خان لغاری کو وہاں جانے پر آمادہ کر لیا۔ مجھے ان کا یہ فیصلہ عجیب اس وجہ سے بھی لگا کہ پارلیمانی نظام کے بنیادی اصولوں کے مطابق وزیر اعظم ہی کسی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی یہ نظام رائج ہے۔ وہاں ایک اہم کانفرنس اور وہ بھی علاقائی تعاون کے لیے بنائی گئی تنظیم کے اتنے اہم اجلاس کے لیے پاکستان کے صدر کا انتخاب مجھے تو اور بھی عجیب لگا۔ میری تمام تر کاوشوں کے باوجود مگر کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
پھر یوں ہوا کہ تاجکستان کے اس وقت کے صدر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے لیے ایک سرکاری ڈنر کا اہتمام بھی کیا تھا۔ مجھے بطور صحافی اس ڈنر میں شمولیت کی دعوت ملی تو وزارتِ اطلاعات کے متعلقہ افسران سے معذرت کر لی۔ وجہ اس معذرت کی صرف اتنی تھی کہ سوٹ ٹائی سمیت اپنی گاڑی خود ڈرائیور کرتے ہوئے سرکاری ضیافتوں میں جانا اور وہاں کے پروٹوکول سے جی اُکتا چکا تھا۔ میری معذرت کے باوجود مگر وزیر اعظم کے دفتر سے متعلق ایک اہم افسر کا فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو میری اس ڈنر میں شمولیت کو یقینی دیکھنا چاہ رہی ہیں۔ حکمِ حاکم گویا مرگِ مفاجات ہو گیا۔
بہرحال جب یہ ڈنر اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہا تھا تو وزیر اعظم کے اسٹاف سے ایک آدمی نے میری کرسی کی پشت پر کھڑے ہو کر میرے کان میں بتایا کہ اس کھانے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو چند صحافیوں کے ساتھ چائے کافی کے لیے ملیں گی۔ مجھے مزید سمجھایا گیا کہ میں ڈنر ختم ہوتے ہی ضیافتی ہال سے نکل کر وزیر اعظم ہائوس کے ایک اور کمرے میں خاموشی سے جا کر بیٹھ جائوں۔
اس کمرے میں پہنچا تو میرے تین محترم سینئر پہلے سے وہاں موجود تھے۔ سب سے نمایاں (H.K) ایچ کے برکی مرحوم تھے جو کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد صحافیوں میں سے ایک مانے جاتے تھے۔ پھر وزیر اعظم تشریف لائیں۔ انھوں نے اپنے لیے آئس کریم کا حکم دیا۔ باقی اسٹاف نے ہماری ترجیحات دریافت کیں اور پھر ''آف دی ریکارڈ'' گپ شپ شروع ہو گئی۔ زیادہ تر گفتگو برکی صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوتی رہی۔
ہم جونیئر صحافیوں سے کہیں زیادہ محترمہ اپنے مرحوم والد کے اس دوست کی دل سے عزت کرتی تھیں۔ وہ بہت احترام سے برکی صاحب کی باتیں سنتی رہیں۔ مگر میں یہ نوٹس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ وہ ''آف دی ریکارڈ'' ان لمحات کو کوئی بڑی بات کہنے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہی ہیں۔ مگر برکی صاحب کی وجہ سے ٹیک آف نہیں کر پا رہیں۔ بالآخر بڑی شفقت سے انھوں نے مجھے براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے جاننا چاہا کہ میں جو ہر وقت بقول ان کے ''فضول، فضول'' سوالات کرتا رہتا ہوں خاموشی سے ایک کونے میں دبکا کیوں بیٹھا ہوں۔ ان کے طنزیہ استفسار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے تڑاخ سے پوچھ لیا کہ سارک جیسی اہم کانفرنس میں وہ اپنی جگہ صدر صاحب کو کیوں بھیج رہی ہیں۔
میرا سوال سنتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اپنے جذبات پر فوری قابو پانا بھی لیکن انھیں خوب آتا تھا۔ تھوڑے ہی وقفے کے بعد مسکرا کر بولیں:" Had I Gone' They Might Have..." فقرہ چونکہ کافی لمبا ہے اس لیے اُردو میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ محترمہ کو خدشہ تھا کہ وہ اگر خود سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئیں تو ان کے مخالفین پراپیگنڈہ کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ ''کشمیر کا سودا'' کرنے گئی ہیں۔ "They Won't Say Such Things About Farooq" ان کا آخری فقرہ تھا جو وہ کہہ کر اُٹھ گئیں اور مجھے اسی وقت سمجھ آ گئی کہ سردار فاروق خان لغاری اب ان کے لیے ''فاروق بھائی'' نہیں رہے، صدرِ پاکستان بن چکے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔