پنجگور… مخلوط تعلیم کو خطرہ
بلوچستان تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے ۔۔۔
پنجگور کی آبادی 4 لاکھ 80 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کا ایک حصہ کھیتی باڑی خاص طور پر کجھور کے باغات میں کام کرتا ہے۔ اکثریت ایران سے تجارتی معاملات سے روزگار حاصل کرتی ہے۔ بہت سے لوگ خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں روزگار میں مصروف ہیں۔ ایران سے تجارت اور خلیجی ممالک میں روزگار کی بناء پر کچھ خوشحالی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے۔
پنجگور میں 48 پرائمری اسکول ہیں جن میں 40 لڑکوں کے ہیں اس طرح 18 مڈل اسکول ہیں جن میں 3 لڑکیوں کے ہیں۔26 ہائی اسکولوں میں 10 لڑکیوں کے اسکول ہیں اس چھوٹے سے شہر میں ایک ٹیچر ٹریننگ کالج ایک کیڈٹ کالج اور ایک ڈگری کالج ہے۔ پنجگور میں تمام غیر سرکاری اسکول بند ہو گئے۔ تنظیم الاسلام الفرقان کے کارکنوں نے دھمکی دی تھی کہ شہر کے تمام غیر سرکاری اسکول بند کر دیے جائیں کیونکہ ان اسکولوں میں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے۔ مخلوط تعلیم اسلام کی تعلیم کے منافی ہے۔ شہر میں 23 نجی اسکول اور انگریزی زبان کو بہتر بنانے والے کوچنگ سینٹر قائم ہیں۔
پنجگور کے صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں تحریر کیا ہے کہ شروع میں تنظیم الاسلام الفرقان کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر جب 13 مئی کو اس تنظیم کے کارکنوں نے ایک پرائیویٹ اسکول کے استاد حسین علی کو روکا اور طالبات کو وین سے اتار کر وین کو نذر آتش کر دیا اور طالبات کو ہدایت کی کہ وہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں کیونکہ ان اسکولوں میں مخلوط تعلیم کا طریقہ نہیں ہے۔ تو اس واقعے کے بعد پنجگور کے تمام نجی اسکول غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے گئے ۔
بلوچستان تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ صوبے میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح پورے ملک میں سب سے کم ہے اور طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم اثر نے گزشتہ سال تعلیم کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان کے اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد دوسرے صوبوں سے خاصی کم ہے پھر اسکولوں میں اساتذہ کے نہ ہونے، بنیادی سہولتوں کی کمی کی بناء پر پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعلیمی استعداد گلگت بلتستان کے طلبہ سے کم ہے۔
یوں بلوچستان کا طلباء معیار تعلیم کے لیے پنجاب اور پختونخوا سے خاصے پیچھے ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو امن و امان اور شفاف نظام کے تناظر میں خطرات لاحق ہیں اب انتہا پسندی سے خطرہ ہے۔ بلوچستان میں یوں تو اس صدی کے آغاز سے تعلیمی شعبے کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی مگر سیاسی کارکنوں کے اغواء کے ساتھ صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی پھر نواب اکبر بگٹی کے قتل کے ساتھ حالات خراب ہونے لگے۔ بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے کارکنوں نے دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں میں ڈاکٹر، وکلاء، صحافی، پولیس افسران، دکاندار، حجام اور اساتذہ شامل تھے۔
ان انتہا پسندوں نے یونیورسٹی کے اساتذہ سے لے کر پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی استاد پروفیسر فاطمہ طالب ان انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنی۔ اس صورتحال کی بناء پر اسکولوں، کالجوں اور بلوچستان یونیورسٹی کے بہت سے اساتذہ جان بچانے کے لیے دوسرے صوبوں کو چلے گئے یوں تعلیمی نظام مکمل طور پر معطل ہو گیا۔ بلوچستان کے تعلیمی نظام کو منظم کرنے میں دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے اساتذہ کا ہم حصہ تھا۔
ان کی ہجرت سے تعلیم کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا پھر باہر سے آنے والے اساتذہ کی ہجرت کا معاملہ حل نہ ہوا تھا کہ بلوچ سیاسی کارکنوں، طلباء اور ہمدردوں کے اغواء اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اغواء ہونے والے اساتذہ میں پرائمری اسکول سے یونیورسٹی تک کے اساتذہ اور طالب علم شامل ہیں، ان میں سے بہت سے افراد کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے ساحلی علاقے کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوئیں یوں تعلیمی ادارے احتجاج، بھوک ہڑتال، جلسے جلوسوں کا مرکز بن گئے۔
کوئٹہ اور نواحی علاقوں میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملوں میں کئی اساتذہ اور طالب علم شہید ہوئے۔ انتہا پسندوں نے کئی بار انفارمیشن یونیورسٹی اور سردار بہادر خواتین یونیورسٹی کی بسوں کو نشانہ بنایا یوں اس دہشت گردی کی صورتحال سے براہ راست تعلیمی شعبہ متاثر ہوا۔ بلوچستان یوں تو گزشتہ 65 سال سے بحرانوں کا شکار ہے۔ اس صوبے میں 5 بار فوجی آپریشن ہو چکے ہیں مگر 21 ویں صدی کے آغاز کے بعد سے صوبے کے حالات زیادہ خراب ہیں۔ اگرچہ 2002ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں صوبائی حکومت قائم ہوئی مگر انتخابات میں عوام کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
اس بناء پر جام یوسف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا دارومدار بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر تھا، فرنٹیئر کانسٹبلری نے نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد عملی طور پر صوبے کا نظا م سنبھال لیا تھا۔ جام یوسف کی صوبائی حکومت صوبے میں اپنی حکومت کی عملداری قائم نہ کر سکی، اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ لوٹنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں صوبے کے تعلیمی حالات مزید خراب ہوئے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی نے سردار اسلم رئیسانی کو وزیر اعلیٰ بنایا تو سردار رئیسانی خاصے پرجوش تھے انھوں نے لاپتہ سیاسی کارکنوں کا مسئلہ حل کرنے، تعلیمی نظام کی بہتری کے وعدے کیے مگر ان کی حکومت صرف کوئٹہ میں عملداری قائم کر سکی۔
باقی علاقے فرنٹیئر کانسٹبلری کے زیر تسلط رہے اور بگٹی، مری اور اطراف کے پہاڑی سلسلہ میں بلوچ لبریشن آرمی کی عملداری قائم ہوئی۔ رئیسانی حکومت سرکاری فنڈز کی خورد برد کر کے اپنے منطقی انجام کو پہنچی یوں بلوچستان کا مسئلہ مزید شدید ہو گیا وہ اب خواتین کو جدید تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں انتہا پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے تا کہ بلوچوں کی قوت کو تقسیم کیا جائے اور قومی تحریک کمزور ہو جائے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچ انتہا پسند ہزارہ برادری کی نسل کشی میں ملوث رہے پھر ان عناصر نے قوم پرست کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا وہ بلوچستان کے شہر خضدار کے مضافاتی علاقے میں اجتماعی قبروں کے معاملے میں ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم ملوث ہے۔ انتہا پسندوں نے بلوچستان میں خواتین کو تعلیم سے محروم کر کے قبائلی علاقوں اور سوات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر پنجگور میں ہزاروں افراد کے مظاہرے جن میں خواتین، بچے سیاسی کارکن شامل تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ عوام خاص طور پر خواتین اپنے تعلیم حاصل کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کی ہے وہ انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے پر عزم ہیں مگر انھیں بلوچستان کی آزادی کے سحر میں گرفتار نوجوانوں سے مزاحمت کا سامنا ہے، ان نوجوانوں کو انتہا پسندی کے خطرے کو محسوس کرنا چاہیے۔ بلوچستان میں آباد تمام باشعور افراد مشترکہ جدوجہد کر کے تعلیم دشمن سوچ کا محاسبہ کر سکتے ہیں۔
پنجگور میں 48 پرائمری اسکول ہیں جن میں 40 لڑکوں کے ہیں اس طرح 18 مڈل اسکول ہیں جن میں 3 لڑکیوں کے ہیں۔26 ہائی اسکولوں میں 10 لڑکیوں کے اسکول ہیں اس چھوٹے سے شہر میں ایک ٹیچر ٹریننگ کالج ایک کیڈٹ کالج اور ایک ڈگری کالج ہے۔ پنجگور میں تمام غیر سرکاری اسکول بند ہو گئے۔ تنظیم الاسلام الفرقان کے کارکنوں نے دھمکی دی تھی کہ شہر کے تمام غیر سرکاری اسکول بند کر دیے جائیں کیونکہ ان اسکولوں میں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے۔ مخلوط تعلیم اسلام کی تعلیم کے منافی ہے۔ شہر میں 23 نجی اسکول اور انگریزی زبان کو بہتر بنانے والے کوچنگ سینٹر قائم ہیں۔
پنجگور کے صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں تحریر کیا ہے کہ شروع میں تنظیم الاسلام الفرقان کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر جب 13 مئی کو اس تنظیم کے کارکنوں نے ایک پرائیویٹ اسکول کے استاد حسین علی کو روکا اور طالبات کو وین سے اتار کر وین کو نذر آتش کر دیا اور طالبات کو ہدایت کی کہ وہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں کیونکہ ان اسکولوں میں مخلوط تعلیم کا طریقہ نہیں ہے۔ تو اس واقعے کے بعد پنجگور کے تمام نجی اسکول غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے گئے ۔
بلوچستان تعلیمی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ صوبے میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح پورے ملک میں سب سے کم ہے اور طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم اثر نے گزشتہ سال تعلیم کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان کے اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد دوسرے صوبوں سے خاصی کم ہے پھر اسکولوں میں اساتذہ کے نہ ہونے، بنیادی سہولتوں کی کمی کی بناء پر پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعلیمی استعداد گلگت بلتستان کے طلبہ سے کم ہے۔
یوں بلوچستان کا طلباء معیار تعلیم کے لیے پنجاب اور پختونخوا سے خاصے پیچھے ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو امن و امان اور شفاف نظام کے تناظر میں خطرات لاحق ہیں اب انتہا پسندی سے خطرہ ہے۔ بلوچستان میں یوں تو اس صدی کے آغاز سے تعلیمی شعبے کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی مگر سیاسی کارکنوں کے اغواء کے ساتھ صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی پھر نواب اکبر بگٹی کے قتل کے ساتھ حالات خراب ہونے لگے۔ بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے کارکنوں نے دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں میں ڈاکٹر، وکلاء، صحافی، پولیس افسران، دکاندار، حجام اور اساتذہ شامل تھے۔
ان انتہا پسندوں نے یونیورسٹی کے اساتذہ سے لے کر پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی استاد پروفیسر فاطمہ طالب ان انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنی۔ اس صورتحال کی بناء پر اسکولوں، کالجوں اور بلوچستان یونیورسٹی کے بہت سے اساتذہ جان بچانے کے لیے دوسرے صوبوں کو چلے گئے یوں تعلیمی نظام مکمل طور پر معطل ہو گیا۔ بلوچستان کے تعلیمی نظام کو منظم کرنے میں دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے اساتذہ کا ہم حصہ تھا۔
ان کی ہجرت سے تعلیم کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا پھر باہر سے آنے والے اساتذہ کی ہجرت کا معاملہ حل نہ ہوا تھا کہ بلوچ سیاسی کارکنوں، طلباء اور ہمدردوں کے اغواء اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اغواء ہونے والے اساتذہ میں پرائمری اسکول سے یونیورسٹی تک کے اساتذہ اور طالب علم شامل ہیں، ان میں سے بہت سے افراد کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے ساحلی علاقے کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوئیں یوں تعلیمی ادارے احتجاج، بھوک ہڑتال، جلسے جلوسوں کا مرکز بن گئے۔
کوئٹہ اور نواحی علاقوں میں ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملوں میں کئی اساتذہ اور طالب علم شہید ہوئے۔ انتہا پسندوں نے کئی بار انفارمیشن یونیورسٹی اور سردار بہادر خواتین یونیورسٹی کی بسوں کو نشانہ بنایا یوں اس دہشت گردی کی صورتحال سے براہ راست تعلیمی شعبہ متاثر ہوا۔ بلوچستان یوں تو گزشتہ 65 سال سے بحرانوں کا شکار ہے۔ اس صوبے میں 5 بار فوجی آپریشن ہو چکے ہیں مگر 21 ویں صدی کے آغاز کے بعد سے صوبے کے حالات زیادہ خراب ہیں۔ اگرچہ 2002ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں صوبائی حکومت قائم ہوئی مگر انتخابات میں عوام کو آزادی سے ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
اس بناء پر جام یوسف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا دارومدار بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر تھا، فرنٹیئر کانسٹبلری نے نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد عملی طور پر صوبے کا نظا م سنبھال لیا تھا۔ جام یوسف کی صوبائی حکومت صوبے میں اپنی حکومت کی عملداری قائم نہ کر سکی، اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ لوٹنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں صوبے کے تعلیمی حالات مزید خراب ہوئے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی نے سردار اسلم رئیسانی کو وزیر اعلیٰ بنایا تو سردار رئیسانی خاصے پرجوش تھے انھوں نے لاپتہ سیاسی کارکنوں کا مسئلہ حل کرنے، تعلیمی نظام کی بہتری کے وعدے کیے مگر ان کی حکومت صرف کوئٹہ میں عملداری قائم کر سکی۔
باقی علاقے فرنٹیئر کانسٹبلری کے زیر تسلط رہے اور بگٹی، مری اور اطراف کے پہاڑی سلسلہ میں بلوچ لبریشن آرمی کی عملداری قائم ہوئی۔ رئیسانی حکومت سرکاری فنڈز کی خورد برد کر کے اپنے منطقی انجام کو پہنچی یوں بلوچستان کا مسئلہ مزید شدید ہو گیا وہ اب خواتین کو جدید تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی کے ارتقاء پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں انتہا پسندی کو ہوا دی جا رہی ہے تا کہ بلوچوں کی قوت کو تقسیم کیا جائے اور قومی تحریک کمزور ہو جائے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچ انتہا پسند ہزارہ برادری کی نسل کشی میں ملوث رہے پھر ان عناصر نے قوم پرست کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا وہ بلوچستان کے شہر خضدار کے مضافاتی علاقے میں اجتماعی قبروں کے معاملے میں ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم ملوث ہے۔ انتہا پسندوں نے بلوچستان میں خواتین کو تعلیم سے محروم کر کے قبائلی علاقوں اور سوات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر پنجگور میں ہزاروں افراد کے مظاہرے جن میں خواتین، بچے سیاسی کارکن شامل تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ عوام خاص طور پر خواتین اپنے تعلیم حاصل کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کی ہے وہ انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے پر عزم ہیں مگر انھیں بلوچستان کی آزادی کے سحر میں گرفتار نوجوانوں سے مزاحمت کا سامنا ہے، ان نوجوانوں کو انتہا پسندی کے خطرے کو محسوس کرنا چاہیے۔ بلوچستان میں آباد تمام باشعور افراد مشترکہ جدوجہد کر کے تعلیم دشمن سوچ کا محاسبہ کر سکتے ہیں۔