قافلے دل کے چلے
یوں محسوس ہوتا جیسے قدرت بے رحم ہو گئی ہو اور پوری وادی خاکستر کر دینے پر تلی ہو
الطاف حسن قریشی صاحب سے فقط ایک بھرپور ملا قات ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود حد درجہ فعال انسان نظر آئے۔ سادہ ساگھر' بناوٹ سے کوسوں دور، دل میں گھر کر لینے والی گفتگو۔ مہربانی فرمائی کہ اپنے صاحبزادے اور پوتے سے بھی ملاقا ت کرائی۔
میرے جیسے طالب علم کے لیے تو خیر یہ ملاقات حددرجے کمال تھی۔ قریشی صاحب پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کے عینی شاہد ہیں۔ آئین پاکستان مرتب ہوتے دیکھا۔ پوچھا کہ آپ تو جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔
ان کا جواب حیرت انگیز تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بھی پابند سلاسل رہا ہوں۔ ہاں بعد میں ان سے تعلقات بہتر ہو گئے۔ میرے لیے یہ اچنبے کی بات تھی کہ ہر سیاسی فرعون کے دور کی طرح' قریشی صاحب' ضیا صاحب کے زمانے میں بھی سرکاری گرم جوشی کا شکار رہے۔ خیر مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے اسباب سے لے کر' ہر قیامت انھوں نے دریدہ دلی کے ساتھ قلم کی ہے۔ چند دن قبل شام کے وقت ان کا فون آیا۔
فرمانے لگے، بھئی میں نے اپنی نئی کتاب آپ کو بھجوائی تھی، کیا مل گئی ہے؟ جواب دیا کہ ابھی تک تو موصول نہیں ہوئی۔ قریشی صاحب نے حیرت کا اظہار کیا کہ دو تین دن قبل بھجوائی تھی۔ خیر اگلے دن دفتر سے واپس آ یا۔ تو پاکستان پوسٹ کے ذریعے ان کی نئی کتاب ''قافلے دل کے چلے'' اسٹڈی میں پڑی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ کتاب کے بارے میں عرض کروں' ابتدایے کی طرف آتا ہوں۔ مجیب الرحمن شامی' عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان نے بہترین کلمات درج کیے ہیں۔ شامی صاحب سے تو کبھی ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔
میرے ایک قریبی عزیز' رانا اسلم صاحب کے سسر محترم سے ان کا حد درجہ تعلق تھا۔ اس کے باوجود ان سے ذاتی سطح پر نشست نہیں ہو پائی۔ قاسمی صاحب سے خیر بہاولپور میں متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ تب بھی آج کی طرح با کمال لکھاری تھے۔ اوریا مقبول جان تو خیر ایک خوشبودار انسان ہے۔
سول سروس میں میرا بیچ میٹ اور قریبی دوست ہے۔ چٹان کی طرح اپنے نظریات پر کھڑا رہنے والا انسان ۔ میری نظر میں وہ سول سروس کے کسی بھی منصب سے بڑا آدمی ہے۔ پھر کوئٹہ میں جس طرح اس نے اپنے کولیگز کا خیال رکھا، وہ مہمان نوازی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ ناراض ہوئے تو مجھے بلوچستان ٹرانسفر کردیا گیا تو راقم ' محسن حقانی' مبشر رضا نقوی' افتخار چوہدری اور دیگر بیچ میٹ ' اوریا کے ہی ذاتی مہمان تھے۔
خدا' اوریا اور اس کے اہل خانہ کو ہمیشہ آسودہ رکھے۔بات' قریشی صاحب کی نئی کتاب ''قافلے دل کے چلے'' کی ہو رہی تھی۔ دراصل یہ کتاب قلم سے نہیں' بلکہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر' جذبات کے فاوئن ٹین پین سے ضبط تحریر ہوئی ہے۔ اس کے پرنٹر بردارم عبدالستار عاصم ہیں۔ اس اعلیٰ کتاب کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
منیٰ میں خادم الحرمین شاہ فیصل سے پہلی ملاقات: قصیدوں کے بعد شاہ فیصل سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں تیسری قطار میں تھا' اس لیے دس پندرہ منٹ بعد میری باری آئی۔ ملک فیصل نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے اور ہماری نگاہیں ایک دوسرے کو سلام کہنے کے بعد جھک گئیں۔
میں نے عربی میں کہا، میں پاکستان سے آیا ہوں اور صحافت کے پیشے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ان کی نیم وا سوچتی ہوئی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں' ان کے اندر مسکراہٹ کی ہلکی سی دھاری نمودار ہوئی اور ان کے ہونٹوں پر ''مرحبا مرحبا'' کے الفاظ بار بار آئے۔ ان کی خاموشی وجاہت نے مجھ پہ کچھ ایسا اثر کیا کہ میں ان الفاظ کے سوا کچھ نہ کہہ سکا:''اہل پاکستان آپ کی سلامتی اور عظمت اسلام کی دعائیں مانگتے ہیں''۔
ملک فیصل نے جواب میں فرمایا:''اﷲ پاکستان پہ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے!''
روضہ رسولؐ کے پہلو میں ناقابل فراموش روحانی تجربہ: دھڑکتے دل اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ شفیع المذنبین اور رحمتہ اللعالمین کے سامنے حکایت دل بیان کرنا چاہی' مگر الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔ آنسوؤں سے مدد مانگی' وہ بھی خشک ہو گئے۔
تڑپ کے رہ گیا اور اسی عالم میں ایک ریلا آیا اور مجھے بہا کر لے گیا۔ اس بار چبوترے کے سامنے آ نکلا جہاں لذت کشان عشق قرآن کی تلاوت میں محوتھے۔ راستہ بنایا اور چبوترے کی جالی کے قریب آ بیٹھا۔ مجھ سے ذرا آگے ایک برقع پوش خاتون کھڑی تھیں ' ہر طرف درود و سلام کا غلغلہ تھا اور نالے' قلب و جگر کو چیرتے چلے جاتے تھے' مگر وہ خاتون خاموش تھی۔تھوڑی سی جگہ بنا کر نوافل کی نیت باندھ لی۔ میرا سر سجدے میں تقریباً اسی جگہ گیا جہاں وہ خاتون سرجھکائے کھڑی تھیں۔
سجدے میں ذرا دیر لگی' تو میں نے اپنے بائیں کان پر کوئی گرم گرم چیز گرتی ہوئی محسوس کی ۔ ہاتھ لگا کر دیکھا' پانی کے چندقطرے تھے۔ نوافل سے فارغ ہو کر دیکھا' اس جگہ پہ قالین آنسوؤں سے ترتھا اور قطرے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
مجھے اس عورت کی ارجمندی پر رشک آتا رہا۔ اس کے نصیب ' اسی کے نصیب ہیں۔ وہ اپنے سینے میں عشق رسول ؐ کا کس قدر خاموش طوفان سمیٹے کھڑی ہے اور اس پہ ضبط کا یہ عالم جیسے کوئی بت ہو' کوئی آہ نہ کوئی بکا' بس ایک مضطرب سی ادائے تسلیم و رضا۔
سعودی عرب میں پہلا پاکستانی اسکول: یہ عظیم الشان کام صرف ایک شخص کے عزم و ہمت کا رہین منت ہے۔ ملک عباس اس اسکول پہ اپنے پاس سے ستر ہزار ریال خرچ کر چکے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کو سعودی حکومت سے کچھ ملتا ہے نہ حکومت پاکستان اسے کوئی گرانٹ دیتی ہے۔
حالانکہ حکومت پاکستان کو اس عظیم ادارے کی سرپرستی کرنی چاہیے جس میں ڈھائی سو پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے علاوہ ملک عباس عشق کی حد تک اس کے لیے وقف ہو گئے ہیں۔ اگر چہ وہ تنہا نہیں'چند احباب بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں' لیکن سرد گرم تھپڑے وہ خود ہی برداشت کرتے ہیں۔
ملک عباس نے وہ تکلیف دہ روداد بھی سنائی جو غالباً ہر مسلمان معاشرے کا مقدر بن چکی ہے۔ مخالفتیں' اعتراضات اور قدم قدم پر رکاوٹیں۔ ابھی تک ایک طبقہ اس اسکول کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہے۔ روانگی کے وقت مجھے پتہ چلا کہ اب مخالف گروپ کے بچے بھی اسی اسکول میں آنے لگے ہیں۔الخیر میں پاکستانی اسکول ٹوٹی ہمتوں کے لیے ایک عظیم سہارا اور روشنی کا ایک بڑا مینارہ ہے۔
تیس برس بعد حج کا صبر آزما تجربہ:''تحریک پاکستان کا بنیادی مقصد اسلامی تہذیب و تمدن کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لیے آزاد وطن کاحصول تھا۔ قائداعظم اگر ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد نہ کرتے' توبرصغیر کے مسلمانوں کاوہی حال ہوتا جو آج بلقانی ریاستوں کے مسلمانوں کا ہے جو اپنے تہذیبی ورثے اور شناخت سے محروم کر دیے گئے ہیںاور شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔
پاکستان بنا' تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قومیں یکے بعد دیگرے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی گئیں۔ مسلمانوں کے اندر آزادی کی تحریکیں قیام پاکستان سے شروع ہوئیں اور اس نے ان تحریکوں کی حوصلہ افزائی میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور اب مسلم امہ ایک سیاسی اور اقتصادی قوت بنتی چلی گئی۔وادی منیٰ میں محشر کی گھڑی کا آنکھوںدیکھا حال: وادی میں ہوا کی رفتار اچانک تیز ہو گئی۔ یہ تقریباً ایک بجے کا عمل تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے ہوا وادی میں پھنس کر رہ گئی ہو اور ایک دائرے کی شکل میں گھوم رہی ہو۔ اس کی رفتار تیس میل فی گھنٹہ سے کسی طرح کم نہ تھی۔ ہم نے سڑک پہ تیز تیز قدموں سے چلنا شروع کر دیا ۔
گاہے گاہے عربی میں آواز آ رہی تھی۔ بھاگو نکلو!'' میں نے ادھر ادھر دیکھا' مگر کوئی بھی شناسا دکھائی نہیں دیا۔ انسانوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پہ منڈلا رہے تھے اور سلنڈر یوں پھٹ رہے تھے جیسے بم چل رہے ہوں۔
میں قرآنی آیات کا ورد کر تا ہوا ہجوم کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ آگ کے شعلے ہمیں اپنی گرفت میں لینے کے لیے لپکے چلے آ رہے تھے۔
یوں محسوس ہوتا جیسے قدرت بے رحم ہو گئی ہو اور پوری وادی خاکستر کر دینے پر تلی ہو۔ آگ ایک سیکنڈ میں دس میٹر کا فاصلہ طے کر رہی تھی اور اس کے راستے میں کوئی شے حائل نہیں تھی۔ اس کے لیے سڑک عبور کرنا بھی کچھ دشوار نہیں تھا۔
کتاب تو خیر پڑھ چکا ہوں۔ مگر قریشی صاحب سے ایک کام ضرور ہے۔ وہ حجاز مقدس میں تو شیطان کو کنکریاں مارتے رہے۔ وہاں سے کچھ پتھر پاکستان لے آتے ، یہاں زمینی شیاطین کی بہتات ہے، انھیں بھی پتھر مارنے کی ضرورت ہے، کوئی شعبہ بھی ان کی شیطانیوں سے محفوظ نہیں۔ پھر سوچتا ہوں، پاکستان میں سرگرم شیاطین کو مارنے کے لیے پہاڑ در پہاڑ چاہیے!
میرے جیسے طالب علم کے لیے تو خیر یہ ملاقات حددرجے کمال تھی۔ قریشی صاحب پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کے عینی شاہد ہیں۔ آئین پاکستان مرتب ہوتے دیکھا۔ پوچھا کہ آپ تو جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔
ان کا جواب حیرت انگیز تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بھی پابند سلاسل رہا ہوں۔ ہاں بعد میں ان سے تعلقات بہتر ہو گئے۔ میرے لیے یہ اچنبے کی بات تھی کہ ہر سیاسی فرعون کے دور کی طرح' قریشی صاحب' ضیا صاحب کے زمانے میں بھی سرکاری گرم جوشی کا شکار رہے۔ خیر مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے اسباب سے لے کر' ہر قیامت انھوں نے دریدہ دلی کے ساتھ قلم کی ہے۔ چند دن قبل شام کے وقت ان کا فون آیا۔
فرمانے لگے، بھئی میں نے اپنی نئی کتاب آپ کو بھجوائی تھی، کیا مل گئی ہے؟ جواب دیا کہ ابھی تک تو موصول نہیں ہوئی۔ قریشی صاحب نے حیرت کا اظہار کیا کہ دو تین دن قبل بھجوائی تھی۔ خیر اگلے دن دفتر سے واپس آ یا۔ تو پاکستان پوسٹ کے ذریعے ان کی نئی کتاب ''قافلے دل کے چلے'' اسٹڈی میں پڑی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ کتاب کے بارے میں عرض کروں' ابتدایے کی طرف آتا ہوں۔ مجیب الرحمن شامی' عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان نے بہترین کلمات درج کیے ہیں۔ شامی صاحب سے تو کبھی ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔
میرے ایک قریبی عزیز' رانا اسلم صاحب کے سسر محترم سے ان کا حد درجہ تعلق تھا۔ اس کے باوجود ان سے ذاتی سطح پر نشست نہیں ہو پائی۔ قاسمی صاحب سے خیر بہاولپور میں متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ تب بھی آج کی طرح با کمال لکھاری تھے۔ اوریا مقبول جان تو خیر ایک خوشبودار انسان ہے۔
سول سروس میں میرا بیچ میٹ اور قریبی دوست ہے۔ چٹان کی طرح اپنے نظریات پر کھڑا رہنے والا انسان ۔ میری نظر میں وہ سول سروس کے کسی بھی منصب سے بڑا آدمی ہے۔ پھر کوئٹہ میں جس طرح اس نے اپنے کولیگز کا خیال رکھا، وہ مہمان نوازی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ ناراض ہوئے تو مجھے بلوچستان ٹرانسفر کردیا گیا تو راقم ' محسن حقانی' مبشر رضا نقوی' افتخار چوہدری اور دیگر بیچ میٹ ' اوریا کے ہی ذاتی مہمان تھے۔
خدا' اوریا اور اس کے اہل خانہ کو ہمیشہ آسودہ رکھے۔بات' قریشی صاحب کی نئی کتاب ''قافلے دل کے چلے'' کی ہو رہی تھی۔ دراصل یہ کتاب قلم سے نہیں' بلکہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر' جذبات کے فاوئن ٹین پین سے ضبط تحریر ہوئی ہے۔ اس کے پرنٹر بردارم عبدالستار عاصم ہیں۔ اس اعلیٰ کتاب کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
منیٰ میں خادم الحرمین شاہ فیصل سے پہلی ملاقات: قصیدوں کے بعد شاہ فیصل سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں تیسری قطار میں تھا' اس لیے دس پندرہ منٹ بعد میری باری آئی۔ ملک فیصل نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے اور ہماری نگاہیں ایک دوسرے کو سلام کہنے کے بعد جھک گئیں۔
میں نے عربی میں کہا، میں پاکستان سے آیا ہوں اور صحافت کے پیشے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ان کی نیم وا سوچتی ہوئی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں' ان کے اندر مسکراہٹ کی ہلکی سی دھاری نمودار ہوئی اور ان کے ہونٹوں پر ''مرحبا مرحبا'' کے الفاظ بار بار آئے۔ ان کی خاموشی وجاہت نے مجھ پہ کچھ ایسا اثر کیا کہ میں ان الفاظ کے سوا کچھ نہ کہہ سکا:''اہل پاکستان آپ کی سلامتی اور عظمت اسلام کی دعائیں مانگتے ہیں''۔
ملک فیصل نے جواب میں فرمایا:''اﷲ پاکستان پہ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے!''
روضہ رسولؐ کے پہلو میں ناقابل فراموش روحانی تجربہ: دھڑکتے دل اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ شفیع المذنبین اور رحمتہ اللعالمین کے سامنے حکایت دل بیان کرنا چاہی' مگر الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔ آنسوؤں سے مدد مانگی' وہ بھی خشک ہو گئے۔
تڑپ کے رہ گیا اور اسی عالم میں ایک ریلا آیا اور مجھے بہا کر لے گیا۔ اس بار چبوترے کے سامنے آ نکلا جہاں لذت کشان عشق قرآن کی تلاوت میں محوتھے۔ راستہ بنایا اور چبوترے کی جالی کے قریب آ بیٹھا۔ مجھ سے ذرا آگے ایک برقع پوش خاتون کھڑی تھیں ' ہر طرف درود و سلام کا غلغلہ تھا اور نالے' قلب و جگر کو چیرتے چلے جاتے تھے' مگر وہ خاتون خاموش تھی۔تھوڑی سی جگہ بنا کر نوافل کی نیت باندھ لی۔ میرا سر سجدے میں تقریباً اسی جگہ گیا جہاں وہ خاتون سرجھکائے کھڑی تھیں۔
سجدے میں ذرا دیر لگی' تو میں نے اپنے بائیں کان پر کوئی گرم گرم چیز گرتی ہوئی محسوس کی ۔ ہاتھ لگا کر دیکھا' پانی کے چندقطرے تھے۔ نوافل سے فارغ ہو کر دیکھا' اس جگہ پہ قالین آنسوؤں سے ترتھا اور قطرے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
مجھے اس عورت کی ارجمندی پر رشک آتا رہا۔ اس کے نصیب ' اسی کے نصیب ہیں۔ وہ اپنے سینے میں عشق رسول ؐ کا کس قدر خاموش طوفان سمیٹے کھڑی ہے اور اس پہ ضبط کا یہ عالم جیسے کوئی بت ہو' کوئی آہ نہ کوئی بکا' بس ایک مضطرب سی ادائے تسلیم و رضا۔
سعودی عرب میں پہلا پاکستانی اسکول: یہ عظیم الشان کام صرف ایک شخص کے عزم و ہمت کا رہین منت ہے۔ ملک عباس اس اسکول پہ اپنے پاس سے ستر ہزار ریال خرچ کر چکے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کو سعودی حکومت سے کچھ ملتا ہے نہ حکومت پاکستان اسے کوئی گرانٹ دیتی ہے۔
حالانکہ حکومت پاکستان کو اس عظیم ادارے کی سرپرستی کرنی چاہیے جس میں ڈھائی سو پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے علاوہ ملک عباس عشق کی حد تک اس کے لیے وقف ہو گئے ہیں۔ اگر چہ وہ تنہا نہیں'چند احباب بھی ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں' لیکن سرد گرم تھپڑے وہ خود ہی برداشت کرتے ہیں۔
ملک عباس نے وہ تکلیف دہ روداد بھی سنائی جو غالباً ہر مسلمان معاشرے کا مقدر بن چکی ہے۔ مخالفتیں' اعتراضات اور قدم قدم پر رکاوٹیں۔ ابھی تک ایک طبقہ اس اسکول کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہے۔ روانگی کے وقت مجھے پتہ چلا کہ اب مخالف گروپ کے بچے بھی اسی اسکول میں آنے لگے ہیں۔الخیر میں پاکستانی اسکول ٹوٹی ہمتوں کے لیے ایک عظیم سہارا اور روشنی کا ایک بڑا مینارہ ہے۔
تیس برس بعد حج کا صبر آزما تجربہ:''تحریک پاکستان کا بنیادی مقصد اسلامی تہذیب و تمدن کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لیے آزاد وطن کاحصول تھا۔ قائداعظم اگر ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد نہ کرتے' توبرصغیر کے مسلمانوں کاوہی حال ہوتا جو آج بلقانی ریاستوں کے مسلمانوں کا ہے جو اپنے تہذیبی ورثے اور شناخت سے محروم کر دیے گئے ہیںاور شدید معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔
پاکستان بنا' تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قومیں یکے بعد دیگرے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی گئیں۔ مسلمانوں کے اندر آزادی کی تحریکیں قیام پاکستان سے شروع ہوئیں اور اس نے ان تحریکوں کی حوصلہ افزائی میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور اب مسلم امہ ایک سیاسی اور اقتصادی قوت بنتی چلی گئی۔وادی منیٰ میں محشر کی گھڑی کا آنکھوںدیکھا حال: وادی میں ہوا کی رفتار اچانک تیز ہو گئی۔ یہ تقریباً ایک بجے کا عمل تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے ہوا وادی میں پھنس کر رہ گئی ہو اور ایک دائرے کی شکل میں گھوم رہی ہو۔ اس کی رفتار تیس میل فی گھنٹہ سے کسی طرح کم نہ تھی۔ ہم نے سڑک پہ تیز تیز قدموں سے چلنا شروع کر دیا ۔
گاہے گاہے عربی میں آواز آ رہی تھی۔ بھاگو نکلو!'' میں نے ادھر ادھر دیکھا' مگر کوئی بھی شناسا دکھائی نہیں دیا۔ انسانوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پہ منڈلا رہے تھے اور سلنڈر یوں پھٹ رہے تھے جیسے بم چل رہے ہوں۔
میں قرآنی آیات کا ورد کر تا ہوا ہجوم کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ آگ کے شعلے ہمیں اپنی گرفت میں لینے کے لیے لپکے چلے آ رہے تھے۔
یوں محسوس ہوتا جیسے قدرت بے رحم ہو گئی ہو اور پوری وادی خاکستر کر دینے پر تلی ہو۔ آگ ایک سیکنڈ میں دس میٹر کا فاصلہ طے کر رہی تھی اور اس کے راستے میں کوئی شے حائل نہیں تھی۔ اس کے لیے سڑک عبور کرنا بھی کچھ دشوار نہیں تھا۔
کتاب تو خیر پڑھ چکا ہوں۔ مگر قریشی صاحب سے ایک کام ضرور ہے۔ وہ حجاز مقدس میں تو شیطان کو کنکریاں مارتے رہے۔ وہاں سے کچھ پتھر پاکستان لے آتے ، یہاں زمینی شیاطین کی بہتات ہے، انھیں بھی پتھر مارنے کی ضرورت ہے، کوئی شعبہ بھی ان کی شیطانیوں سے محفوظ نہیں۔ پھر سوچتا ہوں، پاکستان میں سرگرم شیاطین کو مارنے کے لیے پہاڑ در پہاڑ چاہیے!