دہشت گردی اور افغانستان
خطے کے حالات میں یہ تاریخی موقع ہے کہ پاکستان توڑنے کی خواہش (ڈیورنڈ لائن) کو عملی جامع پہنایا جائے
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے افغان رہنماؤں کے دھمکی آمیز بیانات کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان دہشت گرد ہمارے حوالے کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بد امنی پھیلانے والوں میں غیر قانونی تارکین وطن کا ہاتھ ہے۔
دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں ۔ افغان عبوری حکومت کو سفارتی، سیاسی، فوجی، رسمی اور غیر رسمی ذرایع سے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیا جاتا رہا ہے۔
افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرست بھی دی گئی اور ان سے متعلق معلومات بھی شیئر کی گئیں لیکن افغانستان نے ان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 60% اضافہ ہوا ہے ۔ دو سال میں دہشت گردی کی وجہ سے دو ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔
64 افغان دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے ۔ اس سب کے باوجود ہمیں اب بھی اُمید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یہ ان کے بھی حق میں ہے اور ہمارے بھی حق میں ہے۔
دہشت گردی کے واقعات میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے، اس کے شواہد سامنے آچکے ہیں۔
ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری کہاں گئی؟ اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ پورے خطے میں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اور مشرق وسطیٰ تک جا رہا ہے۔افغان مہاجر پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پورے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے علاوہ یہ پاکستان کے 27 بڑے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
جس میں کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب کے 6 بڑے شہر، بلوچستان کے شہر کوئٹہ سمیت تین بڑے شہر اور خیبر پختونخواہ کے پشاور، ایبٹ آباد، سوات، وزیرستان، خیبر، کوہستان، گلگت بلتستان، چترال سمیت 16 شہر شامل ہیں۔ پاکستان میں کم از کم 40 لاکھ افغان مہاجرین پائے جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک بڑی تعداد غیر قانونی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں سعودیہ عرب نے 12 ہزار افغانی نکالے جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھے۔ ایسے افغانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کے پاس پاکستانی جعلی شناختی کارڈ ہیں۔اوپر سے طرفہ تماشہ یہ کہ الیکشن کمیشن میں یہ لوگ رجسٹرڈ ووٹر بنے ہوئے ہیں۔ان غیر قانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری کے خلاف کون سی (مذہبی) جماعتیں واویلا مچا رہی ہیں۔
آپ خود ہی غور فرمائیں۔ کیونکہ یہ ان کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ جن آبادیوں میں یہ افغان رہ رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کس خوف اور دہشت کی فضا میں رہ رہی ہے، کوئی اُن کے دل سے پوچھے۔پچھلے 40 برس سے پاکستان کا شمالی بارڈر سوفٹ بارڈر بنا رہا ہے۔
ہمارے پالیسی ساز طالبان کی محبت میں اتنے سرشار ہوئے کہ پورے پاکستان کو طور خم سے کراچی تک ان کے لیے کھلا میدان بنا دیا۔ پاکستان اس وقت جن مختلف النوع معاشی و دیگر ہولناک بحرانوں کا شکار ہے اس نے افغان طالبان اور ان کے ہم مسلک پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھا دیے ہیں کہ خطے کے حالات میں یہ تاریخی موقع ہے کہ پاکستان توڑنے کی خواہش (ڈیورنڈ لائن) کو عملی جامع پہنایا جائے جس کی جڑیں تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔
جب وہ دس بیس ہزار کا لشکر لے کر پنجاب اور برصغیر کو فتح کر لیتے تھے کیونکہ پنجاب کے باسی پرامن، اور خوشحال تھے اور یہ بنجر پہاڑوں سے اُترنے والے بھوکے بدحال۔ بر صغیر پر مسلسل حملوں کے پیچھے یہ راز تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا، افغان عبوری حکومت کی جانب سے دوحہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ طالبان کا وجود پاکستان کا ہی مرہون منت ہے۔
جو آج تخت کابل پر بیٹھے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اس کا تو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ اور پاکستان جس کا آج خمیازہ بھگت رہا ہے۔ موجودہ دور میں دہشت گردوں کے فتنے کو امریکی سامراج نے اپنی ضرورت کے تحت تخلیق کیا کہ اس کو سوویت یونین کا خاتمہ اور سرمایہ داری نظام کی بقا مقصود تھی۔ یہ فتنہ اب پاکستان کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
امریکا نے بلا وجہ طالبان کو اقتدار منتقل نہیں کیا ، طالبان ہوں یا القاعدہ یا داعش ان سب کا پچھلے 40 برسوں سے تخلیق کار امریکی سامراج ہے جس نے دہشت گردی کے بہانے عراق، ایران، شام، لیبیا ، یمن کو تباہ کیا اب پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کو ماضی میں امریکی سامراج کے حکم پر 52 برس قبل توڑا جا چکا ہے۔ اب طالبان کے ذریعے دوسرے مرحلے میں پاکستان کی سرحدوں کو سکھڑنے کا پروگرام ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے دسمبر ، جنوری 2024 سے فیصلہ کن وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
دہشت گردوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں ۔ افغان عبوری حکومت کو سفارتی، سیاسی، فوجی، رسمی اور غیر رسمی ذرایع سے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیا جاتا رہا ہے۔
افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرست بھی دی گئی اور ان سے متعلق معلومات بھی شیئر کی گئیں لیکن افغانستان نے ان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 60% اضافہ ہوا ہے ۔ دو سال میں دہشت گردی کی وجہ سے دو ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔
64 افغان دہشت گرد پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے ۔ اس سب کے باوجود ہمیں اب بھی اُمید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یہ ان کے بھی حق میں ہے اور ہمارے بھی حق میں ہے۔
دہشت گردی کے واقعات میں امریکی اسلحہ استعمال ہونے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے، اس کے شواہد سامنے آچکے ہیں۔
ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری کہاں گئی؟ اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ پورے خطے میں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اور مشرق وسطیٰ تک جا رہا ہے۔افغان مہاجر پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پورے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے علاوہ یہ پاکستان کے 27 بڑے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
جس میں کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب کے 6 بڑے شہر، بلوچستان کے شہر کوئٹہ سمیت تین بڑے شہر اور خیبر پختونخواہ کے پشاور، ایبٹ آباد، سوات، وزیرستان، خیبر، کوہستان، گلگت بلتستان، چترال سمیت 16 شہر شامل ہیں۔ پاکستان میں کم از کم 40 لاکھ افغان مہاجرین پائے جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک بڑی تعداد غیر قانونی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں سعودیہ عرب نے 12 ہزار افغانی نکالے جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھے۔ ایسے افغانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کے پاس پاکستانی جعلی شناختی کارڈ ہیں۔اوپر سے طرفہ تماشہ یہ کہ الیکشن کمیشن میں یہ لوگ رجسٹرڈ ووٹر بنے ہوئے ہیں۔ان غیر قانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری کے خلاف کون سی (مذہبی) جماعتیں واویلا مچا رہی ہیں۔
آپ خود ہی غور فرمائیں۔ کیونکہ یہ ان کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ جن آبادیوں میں یہ افغان رہ رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کس خوف اور دہشت کی فضا میں رہ رہی ہے، کوئی اُن کے دل سے پوچھے۔پچھلے 40 برس سے پاکستان کا شمالی بارڈر سوفٹ بارڈر بنا رہا ہے۔
ہمارے پالیسی ساز طالبان کی محبت میں اتنے سرشار ہوئے کہ پورے پاکستان کو طور خم سے کراچی تک ان کے لیے کھلا میدان بنا دیا۔ پاکستان اس وقت جن مختلف النوع معاشی و دیگر ہولناک بحرانوں کا شکار ہے اس نے افغان طالبان اور ان کے ہم مسلک پاکستانی طالبان کے حوصلے بڑھا دیے ہیں کہ خطے کے حالات میں یہ تاریخی موقع ہے کہ پاکستان توڑنے کی خواہش (ڈیورنڈ لائن) کو عملی جامع پہنایا جائے جس کی جڑیں تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔
جب وہ دس بیس ہزار کا لشکر لے کر پنجاب اور برصغیر کو فتح کر لیتے تھے کیونکہ پنجاب کے باسی پرامن، اور خوشحال تھے اور یہ بنجر پہاڑوں سے اُترنے والے بھوکے بدحال۔ بر صغیر پر مسلسل حملوں کے پیچھے یہ راز تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا، افغان عبوری حکومت کی جانب سے دوحہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ طالبان کا وجود پاکستان کا ہی مرہون منت ہے۔
جو آج تخت کابل پر بیٹھے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اس کا تو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ اور پاکستان جس کا آج خمیازہ بھگت رہا ہے۔ موجودہ دور میں دہشت گردوں کے فتنے کو امریکی سامراج نے اپنی ضرورت کے تحت تخلیق کیا کہ اس کو سوویت یونین کا خاتمہ اور سرمایہ داری نظام کی بقا مقصود تھی۔ یہ فتنہ اب پاکستان کی بقا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
امریکا نے بلا وجہ طالبان کو اقتدار منتقل نہیں کیا ، طالبان ہوں یا القاعدہ یا داعش ان سب کا پچھلے 40 برسوں سے تخلیق کار امریکی سامراج ہے جس نے دہشت گردی کے بہانے عراق، ایران، شام، لیبیا ، یمن کو تباہ کیا اب پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کو ماضی میں امریکی سامراج کے حکم پر 52 برس قبل توڑا جا چکا ہے۔ اب طالبان کے ذریعے دوسرے مرحلے میں پاکستان کی سرحدوں کو سکھڑنے کا پروگرام ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے دسمبر ، جنوری 2024 سے فیصلہ کن وقت کا آغاز ہو جائے گا۔