سیاسی سہولتوں کی بحث
چابی سے چلنے والے ایک کھلونے نے اپنے چابی برداروں کے خلاف بغاوت کر دی
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات ریورس گیئر لگا کر کم ہو جائیں۔ ہماری آپ کی معمول کی زندگی میں تو اس کی شہادت نہیں ملتی لیکن حج کے اخراجات میں ایسا ہو گیا ہے۔
ہمارے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور انیق احمد نے سوچا کہ اچھا اگر یہ منصب سنبھال ہی لیا ہے تو کیوں نہ کچھ کام بھی کیا جائے۔ بس، مختلف شعبہ جات پر توجہ کی۔ ان میں ایک شعبہ حج کے اخراجات کا بھی تھا۔ اندازہ یہ تھا کہ تھوڑے سے حسن انتظام کی ضرورت ہے۔
ان میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ لڑکپن اور نوجوانی میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی دھن انیق بھائی کے ذہن میں سما جاتی تو نتیجے پر پہنچ کر ہی دم لیتے ۔ حج کے اخراجات کے باب میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اب حج پالیسی کا اعلان ہوا ہے تو معلوم ہوا کہ ایک لاکھ روپے تو فوری طور پر کم ہو گئے۔
کچھ دیگر مدات میں بھی لگتا یہی ہے کہ یہی رجحان رہے گا یعنی بچت ایک لاکھ روپوں سے بھی بڑھ جائے گی، ان شاء اللہ۔ ادھر ہمارے ایک سینئر ساتھی نے جو مہا بھارت شروع کر رکھی ہے، اس سے گریز بھی ممکن نہیں۔
ایک عمومی خیال یہ ہے کہ میاں نواز شریف جوڑ توڑ کے نتیجے میں بہت ساری رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہٰذا ان کی ذمے داری ہے کہ بالکل اسی قسم کی رعایتیں وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی دلوائیں۔ سچ یہ ہے کہ مہا بھارت اسی مفروضے سے شروع ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو کوئی سہولت ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں کارِ سیاست ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے تو کون کافر اس سے نا خوش ہو گا۔ قومی سیاست اپنے فطری انداز میں چلے اور دار و رسن کے مراحل قصہ کہانی بن جائیں، اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
یہ خواہش شان دار ہے لیکن اس تمنا میں بے قرار ہو جانے سے قبل اس یقین تک پہنچنا ضروری ہے کہ کیا واقعی نواز شریف کو کوئی رعایت ملی ہے اور کیا واقعی انھوں نے کسی کے ساتھ کچھ معاملات طے کیے ہیں؟
یہ درست ہے کہ ہمارے ذرایع ابلاغ کے ایک حصے میں شد و مد کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے لیکن کیا یہ تاثر حقیقت پر مبنی بھی ہے، اس کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے۔
کوئی ثبوت ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ اگر کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تو ثبوت کہاں سے آئے گا؟ معتبر اہل خبر تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں کہ 2014 سے 2017کے عرصے میں نواز شریف کے ساتھ غیر معمولی زیادتی ہوئی۔
جس انداز میں انھیں سزائیں دی گئیںجس طرح انھیں نا اہل قرار دیا گیا، وہ سب غلط تھا جس کے خلاف ارباب صحافت کے تابندہ ستاروں جن میں سہیل وڑائچ نمایاں ترین ہیں، آواز اٹھائی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تردید کوئی باضمیر نہیں کر سکتا۔ نواز شریف وطن واپس پہنچے تو اس کے بعد کیا ہوا؟ نواز شریف نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا۔
عدالت کے سامنے پیش ہونا اور خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایک قانونی تقاضا ہے اور ریاست کے ہر شہری کا حق ہے۔ کیا کوئی ایسا واقعہ رعایت کی ذیل میں بھی آتا ہے؟ قانونی روایت سے اب تک تو ایسی کوئی شہادت میسر نہیں آئی۔ ہاں اگر اب کوئی نئی روایت بن چکی ہو تو اس کی خبر چند باخبر لوگوں تک محدود ہو تو ہو، ہم عامی ابھی تک تو اس سے بے خبر ہیں۔
نواز شریف کی جس مفاہمت کا ذکر ان دنوں عام ہے، اسے پرکھنے کا ایک زاویہ تو یہی ہے لیکن ایک ٹھوس حقیقت اور بھی ہے۔ سابق وزیر اعظم کی وطن واپسی کے بعد کیا کوئی ایسا واقعہ بھی ظہور میں آیا ہے جس کے تحت ان پر بنائے گئے، ہمارے با خبر دوستوں کے مطابق ظالمانہ مقدمات یا ان میں سے کوئی ایک مقدمہ ختم کر دیا گیا ہو یا واپس لے لیا گیا ہو؟
ایسا کوئی واقعہ ابھی تک تو رونما نہیں ہوا۔ پھر کیا ہوا ہے؟ ہوا یہ ہے کہ ان پر ناانصافی پر مبنی جو مقدمات قائم کیے گئے تھے اور یک طرفہ طور پر انھیں سزائیں دی گئی تھیں، ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا عمل شروع ہوا ہے۔
اس عمل کا انجام کیا ہو گا، یہ عدالت جانتی ہے یا معاملہ تب کھلے گا جب کوئی فیصلہ سامنے آئے گا۔ اس لیے تیقن کے ساتھ کسی سودے بازی اور مفاہمت کی بات کہنا اور اس بنیاد پر مفروضہ طور پر صاحب معاملہ سے یہ تقاضا کرنا کہ جیسی رعایتیں اس نے خود حاصل کی ہیں، ویسی ہی وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی دلا دے، سادگی تو ہو سکتی ہے، حقیقت نہیں ہو سکتی۔ اس بنیاد پر ایک ایسا مباحثہ جس میں بات دلیل سے نکل کر ذاتیات تک پہنچ جائے، مناسب ہے اور نہ شایان شان۔
نواز شریف کو جن 'جرائم' پر سزا دی گئی ہے، ان کی حقیقت کیا ہے، اس کا کچا چٹھا تو کھل چکا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے جرائم کیا ہیں؟ کیا ان دونوں شخصیات کے جرائم میں کوئی مماثلت اور مطابقت بھی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا زیادہ مشکل تو نہیں لیکن ایک تمثیل اس باب میں بڑی موزوں ہے۔ ڈیڑھ دو دہائی پہلے کی بات ہے، امریکا میں ایک سائنس فکشن فلم بنی تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے مصنف کے ذہن میں آج کا پاکستان ہی رہا ہو گا۔
اس فلم میں ایک تصوراتی دنیا بسائی گئی تھی جس میں زندگی کو آسان بنانے اور کچھ ایسے کارناموں کی انجام دہی کے لیے، جن کی انجام دہی انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہوتی، روبوٹ بنائے گئے جن کی ذہانت اس درجے بڑھا دی گئی کہ وہ خود سے بھی کسی قدر سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کے قابل ہو گئے۔
جب ایسا ہو گیا تو اس ترقی اور کارناموں کی انجام دہی کا خواب تو کہیں پیچھے رہ گیا البتہ روبوٹ نے خود اپنے خالقوں سے بغاوت کر دی۔ اس کے بعد جو تباہی مچی، پناہ بہ خدا۔ اس بے اندازہ تباہی کے بعد سائنس دان اپنی غیر حقیقی خواہشات سے تو تائب ہو گئے لیکن اپنے ہی بنائے ہوئے روبوٹ نے جو تباہی مچائی تھی، اسے درست کرنے کے لیے انھیں پہلے سے بھی بڑھ کر کام کرنا پڑا۔
کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ اس فلم میں اس آپریشن کو آپریشن کلین اپ کا نام دیا گیا تھا۔ پاکستان میں اس سے مختلف کچھ بھی نہیں ہوا۔ چابی سے چلنے والے ایک کھلونے نے اپنے چابی برداروں کے خلاف بغاوت کر دی۔ چابی بردار اپنی تخلیق کی کج ادائیوں کے اثرات سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے انھیں کبھی بارودی سرنگوں کا نام دیا تھا جو آج زبان زد عام ہو چکا ہے۔
یہ بارودی سرنگیں سماج کے اندر یعنی سیاسی بساط پر بھی موجود تھیں اور خود ان کی اپنی صفوں میں بھی جن کی صفائی جاری ہے۔ اس صفائی کا تعلق نواز شریف کے ساتھ ہے اور نہ کسی دوسری سیاسی اکائی کے ساتھ۔ یہ وہ جھگڑا ہے جسے خود فریقین نے ہی سلجھانا ہے۔ کوئی دوسر ا کیا کر سکتا ہے؟
ہمارے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور انیق احمد نے سوچا کہ اچھا اگر یہ منصب سنبھال ہی لیا ہے تو کیوں نہ کچھ کام بھی کیا جائے۔ بس، مختلف شعبہ جات پر توجہ کی۔ ان میں ایک شعبہ حج کے اخراجات کا بھی تھا۔ اندازہ یہ تھا کہ تھوڑے سے حسن انتظام کی ضرورت ہے۔
ان میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ لڑکپن اور نوجوانی میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی دھن انیق بھائی کے ذہن میں سما جاتی تو نتیجے پر پہنچ کر ہی دم لیتے ۔ حج کے اخراجات کے باب میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اب حج پالیسی کا اعلان ہوا ہے تو معلوم ہوا کہ ایک لاکھ روپے تو فوری طور پر کم ہو گئے۔
کچھ دیگر مدات میں بھی لگتا یہی ہے کہ یہی رجحان رہے گا یعنی بچت ایک لاکھ روپوں سے بھی بڑھ جائے گی، ان شاء اللہ۔ ادھر ہمارے ایک سینئر ساتھی نے جو مہا بھارت شروع کر رکھی ہے، اس سے گریز بھی ممکن نہیں۔
ایک عمومی خیال یہ ہے کہ میاں نواز شریف جوڑ توڑ کے نتیجے میں بہت ساری رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہٰذا ان کی ذمے داری ہے کہ بالکل اسی قسم کی رعایتیں وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی دلوائیں۔ سچ یہ ہے کہ مہا بھارت اسی مفروضے سے شروع ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو کوئی سہولت ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں کارِ سیاست ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے تو کون کافر اس سے نا خوش ہو گا۔ قومی سیاست اپنے فطری انداز میں چلے اور دار و رسن کے مراحل قصہ کہانی بن جائیں، اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
یہ خواہش شان دار ہے لیکن اس تمنا میں بے قرار ہو جانے سے قبل اس یقین تک پہنچنا ضروری ہے کہ کیا واقعی نواز شریف کو کوئی رعایت ملی ہے اور کیا واقعی انھوں نے کسی کے ساتھ کچھ معاملات طے کیے ہیں؟
یہ درست ہے کہ ہمارے ذرایع ابلاغ کے ایک حصے میں شد و مد کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے لیکن کیا یہ تاثر حقیقت پر مبنی بھی ہے، اس کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے۔
کوئی ثبوت ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ اگر کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تو ثبوت کہاں سے آئے گا؟ معتبر اہل خبر تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں کہ 2014 سے 2017کے عرصے میں نواز شریف کے ساتھ غیر معمولی زیادتی ہوئی۔
جس انداز میں انھیں سزائیں دی گئیںجس طرح انھیں نا اہل قرار دیا گیا، وہ سب غلط تھا جس کے خلاف ارباب صحافت کے تابندہ ستاروں جن میں سہیل وڑائچ نمایاں ترین ہیں، آواز اٹھائی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تردید کوئی باضمیر نہیں کر سکتا۔ نواز شریف وطن واپس پہنچے تو اس کے بعد کیا ہوا؟ نواز شریف نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا۔
عدالت کے سامنے پیش ہونا اور خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایک قانونی تقاضا ہے اور ریاست کے ہر شہری کا حق ہے۔ کیا کوئی ایسا واقعہ رعایت کی ذیل میں بھی آتا ہے؟ قانونی روایت سے اب تک تو ایسی کوئی شہادت میسر نہیں آئی۔ ہاں اگر اب کوئی نئی روایت بن چکی ہو تو اس کی خبر چند باخبر لوگوں تک محدود ہو تو ہو، ہم عامی ابھی تک تو اس سے بے خبر ہیں۔
نواز شریف کی جس مفاہمت کا ذکر ان دنوں عام ہے، اسے پرکھنے کا ایک زاویہ تو یہی ہے لیکن ایک ٹھوس حقیقت اور بھی ہے۔ سابق وزیر اعظم کی وطن واپسی کے بعد کیا کوئی ایسا واقعہ بھی ظہور میں آیا ہے جس کے تحت ان پر بنائے گئے، ہمارے با خبر دوستوں کے مطابق ظالمانہ مقدمات یا ان میں سے کوئی ایک مقدمہ ختم کر دیا گیا ہو یا واپس لے لیا گیا ہو؟
ایسا کوئی واقعہ ابھی تک تو رونما نہیں ہوا۔ پھر کیا ہوا ہے؟ ہوا یہ ہے کہ ان پر ناانصافی پر مبنی جو مقدمات قائم کیے گئے تھے اور یک طرفہ طور پر انھیں سزائیں دی گئی تھیں، ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا عمل شروع ہوا ہے۔
اس عمل کا انجام کیا ہو گا، یہ عدالت جانتی ہے یا معاملہ تب کھلے گا جب کوئی فیصلہ سامنے آئے گا۔ اس لیے تیقن کے ساتھ کسی سودے بازی اور مفاہمت کی بات کہنا اور اس بنیاد پر مفروضہ طور پر صاحب معاملہ سے یہ تقاضا کرنا کہ جیسی رعایتیں اس نے خود حاصل کی ہیں، ویسی ہی وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی دلا دے، سادگی تو ہو سکتی ہے، حقیقت نہیں ہو سکتی۔ اس بنیاد پر ایک ایسا مباحثہ جس میں بات دلیل سے نکل کر ذاتیات تک پہنچ جائے، مناسب ہے اور نہ شایان شان۔
نواز شریف کو جن 'جرائم' پر سزا دی گئی ہے، ان کی حقیقت کیا ہے، اس کا کچا چٹھا تو کھل چکا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے جرائم کیا ہیں؟ کیا ان دونوں شخصیات کے جرائم میں کوئی مماثلت اور مطابقت بھی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا زیادہ مشکل تو نہیں لیکن ایک تمثیل اس باب میں بڑی موزوں ہے۔ ڈیڑھ دو دہائی پہلے کی بات ہے، امریکا میں ایک سائنس فکشن فلم بنی تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے مصنف کے ذہن میں آج کا پاکستان ہی رہا ہو گا۔
اس فلم میں ایک تصوراتی دنیا بسائی گئی تھی جس میں زندگی کو آسان بنانے اور کچھ ایسے کارناموں کی انجام دہی کے لیے، جن کی انجام دہی انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہوتی، روبوٹ بنائے گئے جن کی ذہانت اس درجے بڑھا دی گئی کہ وہ خود سے بھی کسی قدر سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کے قابل ہو گئے۔
جب ایسا ہو گیا تو اس ترقی اور کارناموں کی انجام دہی کا خواب تو کہیں پیچھے رہ گیا البتہ روبوٹ نے خود اپنے خالقوں سے بغاوت کر دی۔ اس کے بعد جو تباہی مچی، پناہ بہ خدا۔ اس بے اندازہ تباہی کے بعد سائنس دان اپنی غیر حقیقی خواہشات سے تو تائب ہو گئے لیکن اپنے ہی بنائے ہوئے روبوٹ نے جو تباہی مچائی تھی، اسے درست کرنے کے لیے انھیں پہلے سے بھی بڑھ کر کام کرنا پڑا۔
کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ اس فلم میں اس آپریشن کو آپریشن کلین اپ کا نام دیا گیا تھا۔ پاکستان میں اس سے مختلف کچھ بھی نہیں ہوا۔ چابی سے چلنے والے ایک کھلونے نے اپنے چابی برداروں کے خلاف بغاوت کر دی۔ چابی بردار اپنی تخلیق کی کج ادائیوں کے اثرات سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے انھیں کبھی بارودی سرنگوں کا نام دیا تھا جو آج زبان زد عام ہو چکا ہے۔
یہ بارودی سرنگیں سماج کے اندر یعنی سیاسی بساط پر بھی موجود تھیں اور خود ان کی اپنی صفوں میں بھی جن کی صفائی جاری ہے۔ اس صفائی کا تعلق نواز شریف کے ساتھ ہے اور نہ کسی دوسری سیاسی اکائی کے ساتھ۔ یہ وہ جھگڑا ہے جسے خود فریقین نے ہی سلجھانا ہے۔ کوئی دوسر ا کیا کر سکتا ہے؟