پیپلزپارٹی کے مخالفین کا واویلا

پیپلز پارٹی نے بدترین حالات میں بھی سندھ میں کامیابی حاصل کی ہے

عام انتخابات قریب ہیں، تمام سیاسی جماعتیں تیاریوں میں مصروف ہیں۔ آئین پاکستان تمام سیاسی پارٹیوں اور افراد کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیتا ہے، انتخابی ماحول بنتے ہی نئی سیاسی صف بندی شروع ہو جاتی ہے۔

تمام جماعتیں چھوٹی ہوں یا بڑی، اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر انتخابی اتحاد اور افراد کی شمولیت کے لیے میسر مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کر دیتی ہیں۔

یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے، اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو نا چاہیے، پیپلز پارٹی اس بات کی داعی رہی ہے کہ انتخابی عمل کے تمام مراحل منصفانہ ہونے چاہئیں اور تمام جماعتوں کو برابر موقع ملنا چاہیے۔

الیکشن کا بگل بجتے ہی حسب دستور کچھ گروپس اور افراد یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ سندھ پھر پیپلز پارٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے پی پی پی کو کامیاب کرایا جائے گا۔

اول تو پیپلز پارٹی کبھی چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئی۔ پی پی کو کبھی کنگز پارٹی کا درجہ حاصل نہیں رہا، وہ ہمیشہ جمہور کی طاقت سے برسر اقتدار آئی،اپوزیشن میں رہی تو بھی آمروں کا مقابلہ کرتی آئی ہے۔

اس مرتبہ بھی سب سے پہلے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے ہی انتخابی لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کی آواز بلند کی ہے ۔ یہ آواز فقط پی پی پی کے لیے نہیں، تمام سیاسی جماعتوںکے لیے ہے، جس کا مطلب شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے ۔

کتنی جماعتیں یا شخصیات ہیں جنھوں نے اس آواز کے ساتھ آواز اٹھائی، میرے خیال میں نہ ہونے کے برابر۔ یہ جو کچھ لوگ سندھ کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، ان کی زبان پر بھی تالا بندی رہی کیونکہ شفاف اور منصفانہ الیکشن ان کا ہدف نہیں ہے۔

وہ تاحال شفاف الیکشن کی بات نہیں کرتے نہ کوئی تجاویز دیتے، یہ نشاندہی بھی نہیں کرتے کہ الیکشن کمیشن کون سی جانبداری کر رہا ہے۔

اگست میں نگراں حکومتیں بننے کے بعد باقی تمام صوبوں میں ترقیاتی کام جاری رہے، کسی صوبے کا ترقیاتی فنڈ بند نہیں ہوا، جب کہ سندھ کے تمام ترقیاتی منصوبوں اور اسکیموں کے فنڈز منجمد کر دیے گئے ، جاری اسکیموں پر کام بھی بند کرا دیے گئے۔ یہ دہرا معیار سلوک فقط سندھ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔

سندھ میں بیوروکریسی کی جتنی اکھاڑ پچھاڑ موجودہ نگران دور میں کی گئی ہے، اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی، چیف سیکریٹری سے شروع کر کے مختار کار تک تمام ریونیو عملہ، آئی جی سے تھانیدار تک اور دوسرے تمام محکموں میں اوپر سے نیچے تک تبادلے کر دیے گئے ہیں۔ایسا صرف سندھ میں ہی نظر آئے گا۔

پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی پر ادارے مہربان ہیں، نیب، ایف آئی اے، الیکشن کمیشن، عدلیہ اور دیگر ادارے پی پی کو لگام کیوں نہیں ڈال رہے ہیں۔ یہ حقائق سے مکمل چشم پوشی ہے، آپ گزشتہ ادوار کو چھوڑیں فقط پی ٹی آئی کے چار برسوں کو ہی لے لیں، سندھ حکومت اور پی پی پی کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا۔

پارٹی چیئرمین آصف علی زرداری، میڈم فریال تالپور، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، خورشید شاہ ، آغا سراج درانی سمیت کئی منتخب اراکین کو من گھڑت ریفرنسز اور مقدمات میں طویل عرصہ تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ جناب بلاول بھٹو زرداری جو کبھی کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں رہے تھے ، انھیں بھی جھوٹے ریفرنسز میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔

لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے بڑے حوصلے اور ثابت قدمی کے ساتھ تمام مشکل حالات کا سامنا کیا۔ سندھ کے فنڈز تب بھی بند کر دیے گئے، وفاق سے ملنے والی وصولیوں میں بڑی کٹوتی کی گئی، یوں سندھ حکومت دو سال تک کوئی نئی ترقیاتی اسکیم نہ دے پائی اور جاری اسکیموں کے کاموں کو بھی روکنا پڑا۔ کبھی سندھ میں گورنر راج تو کبھی کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے اور کبھی 18ویں ترمیم کے خاتمے کی باز گشت تواترسے آتی رہی۔


پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں سندھ سے پیپلز پارٹی کے مخالفین حصہ دار تھے، لیکن کسی نے سندھ کی آواز بلند نہیں کی۔سندھ میں پی پی کے مخالف کہتے ہیں کہ انھیں زبردستی ہرایا جاتا رہا ہے یا ہرایا جائے گا۔ لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں دے پاتے۔ دھاندلی کا واویلا کرنے والوں میں زیادہ تر تو الیکشن کمیشن یا ٹربیونل میں اپیل کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے، ان کا واویلا غلط ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں اداروں کی جانب سے الیکٹیبلز کو حکم یا اشارہ دیا جاتا ہے کہ پی پی میں شامل ہو جاؤ ، یہ الزام اور تہمت ایسی ہی ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ واردات تو پی پی پی کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔

یہ الزام تراشی کرنے والے 2018 اور آمدہ انتخابات سے متعلق کوئی ایک نام بتا دیں جسے اداروں کی جانب سے کوئی حکم یا اشارہ ہوا ہو کہ وہ پی پی میں شامل ہوجائیں، لیکن سندھ میں پی پی کے خلاف ایس ڈی اے، جی ڈی اے اور دوسرے بننے والے اتحادوں کے حقائق سے کون واقف نہیں ہے۔یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پی پی سندھ میں تو نہیں جیت سکتی، سرکاری ادارے سہولت کاری کر کے جتوا دیتے ہیں۔ایسے جھوٹے دعوے کر کے عوام کو گمراہ نہیں کیا سکتا۔

پیپلز پارٹی نے بدترین حالات میں بھی سندھ میں کامیابی حاصل کی ہے، ہر الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کی یا سنگل میجورٹی پارٹی بن کر پارلیمان میں آئی ہے۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں جو الیکشن ہوئے تھے ، ڈکٹیٹر پہلے ہی اپنی کنگز پارٹی کی فتح کا فرمان جاری کر چکے تھے۔ پی پی کی قیادت اور کارکن قید کاٹ رہے تھے یا جلاوطنی۔ ایسی بدترین صورتحال میں بھی پی پی سندھ میں سرخرو ہوئی اور حکمرانوں کو پی پی کے منتخب اراکین کا پیٹریاٹ کے نام سے فارورڈ بلاک بنا کے حکومت سازی کرنی پڑی۔

آمریتیں اور ان کے آلہ کار کبھی سندھ کے عوام سے انتخابی معرکہ جیت نہیں سکے۔ یہ سندھ کے عوام کا شعور ہے جسے پی پی مخالفین کئی نام دیتے ہیں، یہاں تک طعنہ دیا جاتا ہے کہ سندھ کے عوام غلام ہیں، وہ اپنے نمایندے منتخب کرنے میں آزاد نہیں ہیں، پی پی ان سے جبراً ووٹ لیتی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ سندھ کے لوگ جاہل، غلام، کم عقل اور ان پڑھ ہیں۔

مخالفین پی پی دشمنی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ سندھ کی سیاسی پختگی شعور اور بیداری کے بھی انکاری بن جاتے ہیں۔ یہ سندھ کی شاندار اور قدیم تہذیب وتمدن، سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ جنرل ضیاء جیسا آمر بھی ظلم و جبر کے باوجود سندھ کو نہ جھکا سکا۔

سندھ نے ہمیشہ ظلم اور بربریت کے خلاف مزاحمت اور جنگ کی ہے، سندھ کے عوام پی پی کو بھی اس لیے ووٹ دیتے آرہے ہیںکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بی بی شہید تک نے جبر اور نا انصافی کے خلاف جنگ کی اور اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کر دیا۔

سندھ کے عوام کو یہ یقین بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جتنی سندھ کی خدمت کی ہے، اس کے مخالفین مواقع ملنے کے باوجود نہیں کر سکے۔

پی پی نے سندھ کے مفادات کادفاعی مورچہ کبھی خالی نہیں چھوڑا۔کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ سندھ کے اندر عوام کے ساتھ جتنی پی پی پی جڑی ہوئی ہے، اتنی کوئی اور جماعت یا تنظیم ہے؟ پی پی کی لیڈر شپ سے لے کر کارکن تک ہمیشہ عوام کے ساتھ جڑے رہے ہیں، اس کے برعکس پی پی کی مخالفت میں الیکشن لڑنے والوں کی اکثریت فقط الیکشن میں نظرآتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ الیکٹیبلز کے لیے بھی پی پی ہی کشش کا باعث بنتی ہے، پی پی کے ناقدین کے پاس یہاں بھی دہرا معیار ہے۔ الیکٹیبلز اگر پی پی میں آ جائیں تو بددیانت، سندھ دشمن قرار دیے جاتے ہیں، اگر وہ پی پی مخالف اتحاد کا حصہ بن جائیں تو انھیں ایماندار، جمہوریت پسند اور اصول پرست ہونے کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

پی پی کسی بھی جماعت یا اتحاد سے نہ خائف ہے اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ بنے گی۔ وہ انتخابی میدان میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پی پی مخالفین کو الزام تراشی کے بجائے اپنا احتساب خودکرنا چاہیے ۔ فقط پی پی پی کی مخالفت کرنا اور انھیں انتخابات میں شکست دینے کے ایک نقطے پر متحد ہونے سے کہیں اور تو قبولیت مل سکتی ہے لیکن عوام میں نہیں۔

ان حقائق کے باوجود ایسا کیوں کہا جا رہا ہے کہ سندھ کو پلیٹ میں سجا کر پی پی کے سپرد کیا جارہا ہے۔ اس بیانیے کے پیچھے در حقیقت ان کی یہ خواہش ہے کہ سندھ کو پلیٹ میں سجا کے ان کے حوالے کیوں نہیں کیا جا رہا، سارا رونا پیٹنا اور ماتم اس بات کا ہے کہ سندھ کے اقتدار کا فیصلہ عوام کے مینڈیٹ کے مطابق نہ کیا جائے۔

ان کو کامیابی فقط اس صورت میں مل سکتی ہے کہ پی پی پی کو مٹا دیا جائے ۔ ان کے لیے کیا نہ اچھا ہو گا کہ سرے سے بیلٹ پیپر پر تیر کا نشان ہی غائب کر دیا جائے اور پھر سندھ میں وہ دندناتے پھریں۔ لیکن سندھ کے عوام کا شعور، بیداری اور طاقت کسی بھی ایسے جمہوریت مخالف منصوبے کو کامیاب ہونے نہیں دے گی۔
Load Next Story