سیاسی شطرنج چالیں اس بار مات کھا گئیں
کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں
پاکستان پیپلزپارٹی نے سوچاکچھ تھا اورہوگیاکچھ اور، شاید اسی لیے وہ اس وقت تمام پارٹیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خفا، مضطرب اور بے چین ہے۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وہ اپوزیشن کی حکومت مخالف کسی بھی تحریک میں اس حد تک جانے کو تیار نہ تھی کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر حکومت وقت کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کردے۔
شاید اسے اندازہ تھا کہ اس طرح وہ ایک طرف اپنی سندھ کی صوبائی حکومت سے محروم ہوجائے گی اور شاید نئے الیکشن بھی نہیں ہونگے، بالکل اسی طرح جس طرح PTIنے 2023 کے شروع میں پنجاب اورپھر خیبر پختون خوا اسمبلی تحلیل کرکے اپنے آپ کومشکلات میں ڈال دیا تھا۔
ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے ایک صوبے کی حکومت بہت عزیز ہے وہ اس سے کسی وقت بھی ہاتھ دھونا نہیں چاہتی،وہ حکومت ہی ہے تو اس کی سیاست بھی قائم اوردائم ہے اوراس کے لوگوں کی دال روٹی بھی ۔اس حکومت ہی کی وجہ سے وہ جب چاہتی ہے وفاق کو بلیک میل بھی کرسکتی ہے اور صوبائی محرومیت کا کارڈ بھی استعمال کرسکتی ہے۔
اس کی سیاسی چالوں کے تمام کارڈ سابق صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جنھیں وہ بڑی ہوشیاری سے چلتے رہے ہیں۔2016میں بلوچستان کی مسلم لیگ حکومت کو جس طرح عدم اعتماد کی تحریک لاکراچانک فارغ کر دیاگیاتھا وہ بھی انھی کی زبردست ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ بلوچستان کی اس صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک ممبر بھی نہیں تھااورباہر بیٹھ کر عدم اعتماد تحریک کے ایسے تانے بانے بنے گئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ کی وہاں صوبائی حکومت دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔
زرداری صاحب نے سینیٹ کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ کو اپنا چیئرمین لانے نہیں دیا بلکہ PTI کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو اپنا چیئرمین بنادیا۔ وہ مسلم لیگ نون کو ٹف ٹائم دیتے رہے۔جب پاناما اسکینڈل منظرعام پرلایاگیا تو پیپلزپارٹی نے PTI کے ساتھ ملکر اتحاد بھی بنالیااور موسمی حالات دیکھ کر میاں صاحب کے خلاف ہونے والی تمام زیادتیوں پر خاموش رہی۔ جس لیول پلیئنگ فیلڈ کا شعور اسے آج ستارہا ہے وہ شعور نجانے اس وقت کہاں کھو گیاتھا۔
پیپلزپارٹی نے سیاسی افق پربدلتے حالات دیکھ کر یہ سمجھ لیاتھا کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلے لیکن چونکہ فضااس وقت PTI کے فیور میںبن چکی تھی وہ اسلام آباد میں حکومت نہیں بناسکتی، لہٰذا اس نے صرف اپنی ایک صوبائی حکومت کے عوض سب کچھ برداشت کرلیا۔ وہ صرف سندھ حکومت مل جانے کی یقین دہانیوں پر چپ اورخاموش رہنے بلکہ الیکشن میں دھاندلیوں پر اپنی آنکھیں بند کرلینے پربھی راضی ہوچکی تھی۔
اس وقت اس نے منحنی سی بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی جیسی وہ آج کررہی ہے۔ آج جب حالات میاں نواز شریف کے حق میں بدل چکے ہیں اوراُن تمام زیادیتوں کاازالہ کیاجارہا ہے جو 2017 میں اُن سے کی گئیں، اُن کے خلاف وہ تمام مقدمے خارج کیے جارہے ہیں جنھیں بنیاد بناکرانھیںاقتدار سے نہ صرف معزول کر دیاگیاتھا بلکہ انھیں پس زنداں ڈال کرسیاسی میدان صرف ایک شخص کے لیے ہموار کردیاگیاتھاتو پیپلزپارٹی کے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا احساس شدت سے اجاگر ہونے لگاہے۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے 2022 میں PTI کی حکومت جانے کے بعد یہ سمجھ لیاتھا کہ اب میدان اس کا ہی ہے اور اسے اقتدار میں آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ محترم سابق صدر نے سوچ رکھاتھا کہ وہ اس بار اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کو اپنی زندگی ہی میں تختہ اسلام آباد پر بٹھا کر خود بھی سرخرو ہونگے اوربلاول کو بھی سرخروکریں گے۔شاید اسی وجہ سے وہ یہ کہہ بھی بیٹھے تھے کہ اس بار حکومت ہماری ہوگی۔
اپنے انھی خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے شہبازشریف کی سولہ ماہ کی حکومت میں بلاول بھٹو کو وزیرخارجہ بنوایا تھا تاکہ اس مرتبے اورپورٹ فولیوکے ساتھ ساری دنیا کے دورے کرکے خود کو اچھی طرح متعارف بھی کرواسکے۔
دوتین ماہ پہلے ہم میں سے کسی کو بھی پتا نہیں تھاکہ میاں محمد نوازشریف کے لیے بچھائی گئی ساری سرنگیں اس طرح اچانک صاف ہوجائیں گی اوروہ اگلاالیکشن بھی جیتتے دکھائی دے رہے ہونگے۔ میاں نوازشریف بلوچستان اوردیگر علاقوں میں جاکر سب کو ساتھ ملانے کے مشن پرنکل پڑے ہیں۔جن لوگوں نے 2017میں نادیدہ دباؤ میں آکراُن کاساتھ چھوڑاتھا وہ اگرآج پھرسے اُن کے ساتھ آملے ہیں تو اس میں ایسی کوئی خرابی بھی نہیں ہے۔
سیاست میں کوئی بھی شے حتمی نہیں ہوا کرتی ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہی لوگ میاں صاحب کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے آج منظرنامہ بدل جانے پراگر واپس میاں صاحب کے ساتھ مل گئے ہیںتو اس میں حرج ہی کیاہے۔فکر تو خود میاں صاحب کو کرنی ہے۔
کل دوسال بعد یہ لوگ پھرسے انھیں آنکھیں دکھانا شروع کردیں گے تو میاں صاحب کہاں کھڑے ہونگے۔ جو کچھ آج خان صاحب کے ساتھ ہورہا ہے کل اُن کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ساری PTI خزاں کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی ہے ۔
2017میں جس طرح دیگر پارٹیوں سے افراد نکال نکال کرPTI کی جھولی میں ڈالے جارہے تھے اورانھیں ناقابل شکست بنایاجارہا تھاآج وہی کچھ میاں نوازشریف کے لیے ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں الیکشن جیت جانااصل ٹارگٹ نہیںہوناچاہیے بلکہ اسے جیت کرکامیابی سے پانچ سال پورے کرنا ہی اہم مشن ہوناچاہیے۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وہ اپوزیشن کی حکومت مخالف کسی بھی تحریک میں اس حد تک جانے کو تیار نہ تھی کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر حکومت وقت کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کردے۔
شاید اسے اندازہ تھا کہ اس طرح وہ ایک طرف اپنی سندھ کی صوبائی حکومت سے محروم ہوجائے گی اور شاید نئے الیکشن بھی نہیں ہونگے، بالکل اسی طرح جس طرح PTIنے 2023 کے شروع میں پنجاب اورپھر خیبر پختون خوا اسمبلی تحلیل کرکے اپنے آپ کومشکلات میں ڈال دیا تھا۔
ویسے بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے ایک صوبے کی حکومت بہت عزیز ہے وہ اس سے کسی وقت بھی ہاتھ دھونا نہیں چاہتی،وہ حکومت ہی ہے تو اس کی سیاست بھی قائم اوردائم ہے اوراس کے لوگوں کی دال روٹی بھی ۔اس حکومت ہی کی وجہ سے وہ جب چاہتی ہے وفاق کو بلیک میل بھی کرسکتی ہے اور صوبائی محرومیت کا کارڈ بھی استعمال کرسکتی ہے۔
اس کی سیاسی چالوں کے تمام کارڈ سابق صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جنھیں وہ بڑی ہوشیاری سے چلتے رہے ہیں۔2016میں بلوچستان کی مسلم لیگ حکومت کو جس طرح عدم اعتماد کی تحریک لاکراچانک فارغ کر دیاگیاتھا وہ بھی انھی کی زبردست ذہانت کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ بلوچستان کی اس صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک ممبر بھی نہیں تھااورباہر بیٹھ کر عدم اعتماد تحریک کے ایسے تانے بانے بنے گئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ کی وہاں صوبائی حکومت دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔
زرداری صاحب نے سینیٹ کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ کو اپنا چیئرمین لانے نہیں دیا بلکہ PTI کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو اپنا چیئرمین بنادیا۔ وہ مسلم لیگ نون کو ٹف ٹائم دیتے رہے۔جب پاناما اسکینڈل منظرعام پرلایاگیا تو پیپلزپارٹی نے PTI کے ساتھ ملکر اتحاد بھی بنالیااور موسمی حالات دیکھ کر میاں صاحب کے خلاف ہونے والی تمام زیادتیوں پر خاموش رہی۔ جس لیول پلیئنگ فیلڈ کا شعور اسے آج ستارہا ہے وہ شعور نجانے اس وقت کہاں کھو گیاتھا۔
پیپلزپارٹی نے سیاسی افق پربدلتے حالات دیکھ کر یہ سمجھ لیاتھا کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلے لیکن چونکہ فضااس وقت PTI کے فیور میںبن چکی تھی وہ اسلام آباد میں حکومت نہیں بناسکتی، لہٰذا اس نے صرف اپنی ایک صوبائی حکومت کے عوض سب کچھ برداشت کرلیا۔ وہ صرف سندھ حکومت مل جانے کی یقین دہانیوں پر چپ اورخاموش رہنے بلکہ الیکشن میں دھاندلیوں پر اپنی آنکھیں بند کرلینے پربھی راضی ہوچکی تھی۔
اس وقت اس نے منحنی سی بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی جیسی وہ آج کررہی ہے۔ آج جب حالات میاں نواز شریف کے حق میں بدل چکے ہیں اوراُن تمام زیادیتوں کاازالہ کیاجارہا ہے جو 2017 میں اُن سے کی گئیں، اُن کے خلاف وہ تمام مقدمے خارج کیے جارہے ہیں جنھیں بنیاد بناکرانھیںاقتدار سے نہ صرف معزول کر دیاگیاتھا بلکہ انھیں پس زنداں ڈال کرسیاسی میدان صرف ایک شخص کے لیے ہموار کردیاگیاتھاتو پیپلزپارٹی کے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا احساس شدت سے اجاگر ہونے لگاہے۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے 2022 میں PTI کی حکومت جانے کے بعد یہ سمجھ لیاتھا کہ اب میدان اس کا ہی ہے اور اسے اقتدار میں آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ محترم سابق صدر نے سوچ رکھاتھا کہ وہ اس بار اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کو اپنی زندگی ہی میں تختہ اسلام آباد پر بٹھا کر خود بھی سرخرو ہونگے اوربلاول کو بھی سرخروکریں گے۔شاید اسی وجہ سے وہ یہ کہہ بھی بیٹھے تھے کہ اس بار حکومت ہماری ہوگی۔
اپنے انھی خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے شہبازشریف کی سولہ ماہ کی حکومت میں بلاول بھٹو کو وزیرخارجہ بنوایا تھا تاکہ اس مرتبے اورپورٹ فولیوکے ساتھ ساری دنیا کے دورے کرکے خود کو اچھی طرح متعارف بھی کرواسکے۔
دوتین ماہ پہلے ہم میں سے کسی کو بھی پتا نہیں تھاکہ میاں محمد نوازشریف کے لیے بچھائی گئی ساری سرنگیں اس طرح اچانک صاف ہوجائیں گی اوروہ اگلاالیکشن بھی جیتتے دکھائی دے رہے ہونگے۔ میاں نوازشریف بلوچستان اوردیگر علاقوں میں جاکر سب کو ساتھ ملانے کے مشن پرنکل پڑے ہیں۔جن لوگوں نے 2017میں نادیدہ دباؤ میں آکراُن کاساتھ چھوڑاتھا وہ اگرآج پھرسے اُن کے ساتھ آملے ہیں تو اس میں ایسی کوئی خرابی بھی نہیں ہے۔
سیاست میں کوئی بھی شے حتمی نہیں ہوا کرتی ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہی لوگ میاں صاحب کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے آج منظرنامہ بدل جانے پراگر واپس میاں صاحب کے ساتھ مل گئے ہیںتو اس میں حرج ہی کیاہے۔فکر تو خود میاں صاحب کو کرنی ہے۔
کل دوسال بعد یہ لوگ پھرسے انھیں آنکھیں دکھانا شروع کردیں گے تو میاں صاحب کہاں کھڑے ہونگے۔ جو کچھ آج خان صاحب کے ساتھ ہورہا ہے کل اُن کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ساری PTI خزاں کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی ہے ۔
2017میں جس طرح دیگر پارٹیوں سے افراد نکال نکال کرPTI کی جھولی میں ڈالے جارہے تھے اورانھیں ناقابل شکست بنایاجارہا تھاآج وہی کچھ میاں نوازشریف کے لیے ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں الیکشن جیت جانااصل ٹارگٹ نہیںہوناچاہیے بلکہ اسے جیت کرکامیابی سے پانچ سال پورے کرنا ہی اہم مشن ہوناچاہیے۔